تو نے کیا کیا نہ بنایا کوئی کیا کیا نہ بنا
کیا کمال کی جادوئی ’’بوُ‘‘ یا خوشبو یا بدبوُ ہے۔ کسی کو کسی بات کا ہوش نہیں رہتا
ایک چارپایہ ہوتا ہے جب اس کی ''بوُ'' پیدا ہو جاتی ہے تو بہت دور دور تک پھیل جاتی ہے اور دنیا بھر کے ''نر'' وہ بوُ سونگھتے ہی دوڑ پڑتے ہیں۔ ایسی ہی ایک ''چارپیروں'' والی مادہ بمقام حکومتی مقامات بھی ہیں جو چار پانچ سال میں ایک مرتبہ ''بوُدار''ہوتے ہیں اور جب بھی بودار ہوتے ہیں ملک بھر میں ہاہا کار ہوجاتی ہے، جگہ جگہ توتکار ہوجاتی ہے، طبیعت سرشار ہوجاتی ہے، پوری مملکت گفتار ہی گفتار ہوجاتی ہے اور ہر گفتار زینت اخبار ہو جاتی ہے۔ اقتدار کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔
کیا کمال کی جادوئی ''بوُ'' یا خوشبو یا بدبوُ ہے۔ کسی کو کسی بات کا ہوش نہیں رہتا۔اور ہر کوئی وہاں پہنچنے کی کوشش میں دوڑ پڑتا ہے کسی کو کسی بات کا ہوش نہیں رہتا، بھائی سے بھائی لڑجاتا ہے باپ اور بیٹے میں دشمنی ہوجاتی ہے، ہر ایک کا مقصد اس چار پیر ولی تک پہنچنا ہوتا ہے چاہے اس کے لیے اسے دوسروں کو روندنا کیوں نہ پڑے، بہت سارے پیروں تلے آکر کچلے جاتے ہیں ،ٹوٹ جاتے ہیں، پھوٹ جاتے ہیں ؎
یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا
مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو
کتنے تھے جو اس دوڑ میں گرے اور پھر کبھی نہ اٹھ سکے بلکہ دوسروں کے قدموں تلے ایسے روندے گئے کہ نام ونشان تک باقی نہیں رہا ہے، ابھی کچھ ہی دن پہلے ایک مرتبہ پھر اس چاروں ٹانگوں میں بوُ یا بدبوُ یا خوشبو یعنی شگندھ یا درگند یا صرف گند پیدا ہوئی تھی۔ جس میں بڑے بڑے چیمپئین ایسے گرے ایسے گرے کہ شاید ہی کبھی اٹھ سکیں یا ایسے بچھڑے کہ ؎
اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
حالانکہ وہ بہت آزمودہ کار تھے، تجربہ کار تھے اور دوڑمار تھے۔لیکن یہ کم بخت ہے ہی ایسی بے وفا کہ کوئی گرا تو گرا۔اسے کبھی خیال بھی نہیں آتا کہ فتراک میں میرے کوئی نخچیر بھی تھا۔حافظ شیرازی نے جو کچھ''دنیا'' کے بارے میں کہا ہے وہ اس ''بو ُ '' پر بھی صادق آتا ہے ، اس نے کہا تھا
جو درستی عہد از جہاں سست نہاد
کہ ایں عجوزہ عروس ہزار داماد است
یعنی اس بے وفا دنیا سے وفا کی امید رکھ۔ کہ یہ ہزار ہزار شوہروں کی دلہن ہے۔یہ بدبودار یا خوشبودار یا صرف''بودار'' چار پیروں والی موجود ہے یہ بھی نہ جانے کتنوں کو بھگتا چکی ہے لیکن کسی کی یاد بھی اسے نہیں آتی۔آہوئے ختن کے بارے میں مشہور ہے کہ جب اس کے جسم میں مخصوص''بو'' پیدا ہوجاتی ہے۔تو دوسرے قریبی جانور اس کی تلاش میں دیوانہ ہوکر چاروں اطراف میں دوڑنے لگتا ہے۔
مژدہ گانی یدہ اے خلوتی نافہ کشائی
کہ زصحرائے ختن آہوئے مشکیں آمد
یعنی مشک کے عاشقوں کو خبر دو کہ صحرائے ختن سے آہوئے مشکیں آیا ہے۔لیکن یہ آہوئے مشکیں جو صحرائے ختن کے بجائے اقصائے اسلام آباد میں اپنی ''بو'' پھیلائے ہوئے ہے اس میں اور آہوئے ختن میں ایک بہت بڑا فرق ہے۔ آہوئے ختن جس خوشبو کو پھیلاتا ہے اس کا خود بھی شکار ہوجاتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ خوشبو کہیں باہر سے آرہی ہے، یہ اس کی تلاش میں خود کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف دوڑتا ہے۔
اور آخر کار کسی شکاری کا شکار ہوکر جاں سے گزرجاتا ہے۔ لیکن یہ ٹس سے مس نہیں ہوتی، آرام سے بیٹھی مسکراتی رہتی ہے، کوئی گرتا ہے کچلتا ہے تو ہنس بھی دیتی ہے۔اور سب سے بڑا فرق، وہ آتے ہیں، جاتے ہیں، کچلتے ہیں، گرتے ہیں، فنا ہوتے ہیں۔ اور یہ آرام سے بیٹھ کر تماشہ دیکھتی ہے ؎
تو نے دیوانہ بنایا تو میں دیوانہ بنا
اب مجھے ہوش کی دنیا میں تماشہ نہ بنا
تو نے کیا کیا نہ بنایا کوئی کیا کیا نہ بنا
ایک بہت پرانا قصہ یاد آگیا میں اپنے ایک دیہاتی دوست کے ساتھ فلم دیکھ رہاتھا۔پاکستانی فلم تھی جس میں اے شاہ شکارپوری نام کا ایک اداکار مزاحیہ اداکاری کررہاتھا۔وہ قد وقامت، حلیے اور جسمانی لحاظ سے بارعب اور بہت ہی متاثرکن شخصیت کا مالک تھا۔میرے دیہاتی دوست نے اس کی حرکات و سکنات دیکھتے ہوئے کہا، کم بخت''جرگوں'' کا آدمی ہے۔لیکن کم بخت پیسے کے لیے کیا کیا بن رہا ہے۔
یہی سلسلہ اس اسلام آباد والی کا بھی ہے، کتنے جرگوں کے آدمیوں کو اس نے دو کوڑی کا بنا کر عالم میں رسوا کر ڈالا ہے، ایسی ظالم ہے کہ کسی کو بھی نہیں چھوڑتی ایک طرف خرانٹ لوگوں کو پھانستی ہے،تو دوسری طرف بالکوں کو بھی پرچاتی ہے۔ایک طرف اگر رندوں کو دانہ ڈالتی ہے تو دوسری طرف صالحین سے بھی آنکھ مچولی کرتی ہے۔
ایک آنکھ کسی سیاستدان کو مارتی ہے تو دوسری کسی دوسرے سیاستدان کو مارتی ہے۔اگر ایک طرف نوخیز جوانوں کو پرچاتی ہے تو دوسری طرف تجربہ کار خرانٹوں کو بھی بھٹکا کر آخری عمر میں رسوا کرتی ہے
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
اب کے تو اس ظالم، بے وفا، بے مروت، ہرجائی نے اتنے کشتوں کے پشتے لگائے کہ چنگیز و ہلاکو نے بھی اتنے قلعہ مینار نہیں بنائے ہوں گے اور اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ پرستاروں کی تعداد بہت بڑھ گئی تھی اور اس لیے بڑھ گئی کہ اس کی بوُ یا خوشبو یا بدبو دور دور تک اور بہت زیادہ پھیل گئی تھی اور اس لیے زیادہ پھیل گئی تھی کہ اس کا ہرجائی پن عروج پر تھا۔
جتنا رش زیادہ تھا اتنی دھکم پیل بھی زیادہ تھی اور جتنی دھکم پیل زیادہ تھی اتنے ہی پرستار روندے اور کچلے بھی گئے، کچھ کی تو ایسی درگت بنی کہ ہمیشہ کے لیے توبہ تائب ہوگئے کچھ نے وقتی طور پر منہ چھپا لیے۔لیکن اسے کچھ بھی فرق نہیں پڑا
آگئی آپ کو مسیحائی
مرنے والوں کو مرحبا کہیے