ایم کیو ایم کی آزمائش

الطاف حسین بھائی سمیت تمام کارکنوں کو پختہ یقین ہے کہ وہ مشکل حالات اور امتحان سے سرخرو ہوکر نکلیں گے


MJ Gohar June 13, 2014
[email protected]

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی رہائی کی خبر سے ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں آنے والے ابال میں فی الحال ٹھہرائوآگیا ہے اور مختلف النوع قیاس آرائیوں اور چہ میگوئیوں کا سلسلہ بھی وقتی طور پر رک گیا ہے۔ تاہم باخبر حلقوں کی جانب سے الطاف حسین بھائی کی گرفتاری و رہائی کے بعد جن تحفظات و خدشات کا اظہارکیا جارہا ہے اس کے پس منظر میں ملکی سیاست بالخصوص سندھ اورکراچی و حیدرآباد کے سیاسی ماحول پر پڑنے والے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

الطاف حسین بھائی کی رہائی کی خبر آتے ہی کراچی، حیدرآباد اور ملک کے دیگر علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں، ہمدردوں، بہی خواہوں نے جو دھرنے دے رکھے تھے وہ ختم ہوگئے۔ شرکا میں اپنے محبوب قائد کی رہائی کی خبر سنتے ہی خوشی و مسرت کی لہر دوڑ گئی اور ہر جگہ جشن کا ماحول پیدا ہوگیا۔ قائد تحریک نے دھرنے کے شرکا اور کارکنوں سے ٹیلی فونک خطاب کیا، انھوں نے کہاکہ میں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا نہ کبھی اصولی موقف سے پیچھے ہٹا، میرا مقدمہ عدالت میں ہے، فتح حق و سچ کی ہوگی، انھوں نے تعاون پر وزیراعظم، سابق صدر و دیگر کا شکریہ ادا کیا۔

قائد تحریک الطاف حسین بھائی کی گرفتاری کی خبر عین اس وقت پاکستان پہنچی جب وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب قومی اسمبلی میں اپنی حکومت کا دوسرا بجٹ پیش کرنے والے تھے، عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ جب بھی وفاقی بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو پورے ملک کی نظریں قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس پر لگی ہوتی ہیں پورا میڈیا سیاسی و صحافتی حلقے اور مبصرین و تجزیہ کار بجٹ تقریر کے خدوخال پر بحث کرتے نظر آتے ہیں لیکن تین جون کو لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے غیر متوقع طور پر اچانک شمال مغربی لندن میں الطاف حسین کی رہائش گاہ میں داخل ہوکر انھیں حراست میں لے کر پولیس اسٹیشن منتقل کردیا۔

اس خبر کے پاکستان پہنچتے ہی پورا ماحول یکسر تبدیل ہوگیا، وفاقی بجٹ سے لے کر امن وامان تک کے تمام معاملات پس منظر میں چلے گئے اور پورا الیکٹرانک میڈیا لندن کو فوکس کرنے لگا، تمام چینل پر الطاف حسین کو حراست میں لیے جانے کی خبر کو ''بریکنگ نیوز'' کے طور پر پیش کرنے لگے۔ مبصرین و ماہرین نے الطاف حسین کی گرفتاری پر ان کے ماضی، حال اور مستقبل اور ایم کیو ایم کے قومی سیاست میں آیندہ کے کردار کے حوالے سے تبصرے اور تجزیے کرنا شروع کردیے۔

ادھر قائد تحریک کو حراست میں لیے جانے پر کراچی، حیدر آباد، اندرون سندھ میں بڑی تعداد میں کارکنوں اور ہمدردوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے دھرنے شروع کردیے جو مکمل طور پر پرامن رہے اس نازک اور حساس موقعے پر ایم کیو ایم کی قیادت نے نہایت صبر و تحمل، ضبط و برداشت کے ساتھ ساتھ بالغ نظری، حب الوطنی اور سیاسی دانش مندی کا شاندار مظاہرہ کیا۔ دنیا جانتی ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکنان قائد تحریک الطاف حسین سے والہانہ محبت و عقیدت رکھتے ہیں اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کی جانب سے منی لانڈرنگ کیس میں قائد تحریک کی گرفتاری کی خبر ان کے لیے ناقابل برداشت ہے اور وہ اپنے قائد پر لگنے والے الزامات کے جوابات میں بھرپور احتجاج ریکارڈ کرانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

تاہم رابطہ کمیٹی کراچی کے کنوینر مقبول صدیقی اور سینئر رہنمائوں ڈاکٹر فاروق ستار، حیدر عباس رضوی، فیصل سبزواری ودیگر نے کارکنوں کو پر امن رہنے اور قانون ہاتھ میں نہ لینے کی اپیل کی، دوسری جانب وزیراعظم میاں نواز شریف، سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری سمیت دیگر سیاسی رہنمائوں نے بھی آزمائش کی اس گھڑی میں متحدہ قومی موومنٹ سے اظہار یکجہتی کیا اور حکومتی سطح پر یہ معاملہ قابل ستائش ہے کہ الطاف حسین تک نہ صرف قونصل رسائی بلکہ اس کیس میں ان کی قانونی مدد بھی کی جائے گی۔ ہر دو جانب سے بروقت کیے جانے والے فیصلوں اور دانش مندانہ اقدامات کے باعث قائد تحریک کی گرفتاری و رہائی کے دورانیے میں ملکی حالات کا پر امن رہنا خوش آیند اور قابل ستائش ہے۔

توقع یہ کی جانی چاہیے کہ آنے والے حالات میں بھی ہر دو فریق کی جانب سے افہام و تفہیم، سیاسی موقف، حب الوطنی اور قیام امن کے لیے باہمی تعاون کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ کیوں کہ ملکی حالات کسی بھی سطح پر پرامن قرار نہیں دیے جاسکتے، فتح جنگ میں ایک خودکش حملے میں دو اعلیٰ فوجی افسران کی شہادت اور طالبان کی جانب سے اس کی ذمے داری قبول کرنے کے بعد مزید حملوں کی دھمکیاں اور فورسز کو نشانہ بنانے کی خبروں کے باعث ملکی حالات کو کس طرح پر امن قرار دیا جاسکتا ہے۔ کراچی تا خیبر امن وامان کی غیر تسلی بخش صورت حال نے ہر محب وطن شہری کو عجیب خوف و ہراس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ان حالات میں قائد تحریک کی گرفتاری کی خبر نے جلتی پر تیل کا کام کیا لیکن قیادت کی دانش مندی سے حالات پوری طرح کنٹرول میں رہے۔

ایم کیو ایم پر یہ کڑا وقت اور آزمائش کے لمحات ہیں اور قائد تحریک الطاف حسین بھائی سمیت تمام کارکنوں کو پختہ یقین ہے کہ وہ مشکل حالات اور امتحان سے سرخرو ہوکر نکلیں گے کیوں کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے ایم کیو ایم ابتدا ہی سے آزمائشوں کا سامنا کرتی چلی آرہی ہے اور قائد تحریک اس سے قبل بھی اپنی سیاسی زندگی میں چار مرتبہ گرفتار ہوچکے ہیں، ماضی میں بھی ان پر قائم مقدمات واپس لیے گئے اور منی لانڈرنگ کیس میں بھی اپنا کامیاب دفاع کرنے میں مکمل سنجیدہ ہیں اور قانون کا راستہ اختیار کریںگے، انھیں اپنے وکلا، حکومت پاکستان اور سب سے بڑھ کر لاکھوں مخلص کارکنوں کی ہمدردیاں اور بھرپور اعتماد حاصل ہے۔ اگرچہ قائد تحریک شدید علیل ہیں مختلف النوع عوارض نے انھیں گھیر رکھا ہے لیکن ان کا عزم و حوصلہ بلند ہے جو ان کی تین عشروں کی سیاسی زندگی کا حاصل ہے۔

الطاف حسین بھائی نے 11جون 1978کو آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی پھر انھیں اس طلبا تنظیم کو عوامی سطح پر پھیلاتے ہوئے مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ تک لے گئے اس دوران مد و جزر کے کئی مقام آئے لیکن ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ نتیجتاً ایک طلبا تنظیم نے مکمل طور پر سیاسی جماعت کے قالب میں ڈھل کر قومی سیاسی منظر میں اپنا ایک الگ مقام اور شناخت بنالی اور صوبائی حکومت سے لے کر وفاقی حکومت تک ہر فورم پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 1992 میں قائد تحریک نے ملکی حالات کے پیش نظر جلاوطنی اختیار کرلی اور لندن کو مستقل ٹھکانہ بنالیا گزشتہ دو عشروں سے وہ لندن ہی سے قومی سیاست میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ 2010 کے بعد انھیں ایک مرتبہ پھر آزمائشوں و امتحانوں سے گزرنا پڑ رہا ہے۔

ایم کیو ایم کے اہم رہنما ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس سے منی لانڈرنگ کیس تک قائد تحریک الطاف حسین کو اپنا دفاع کرنا ہے انھیں از خود اور لاکھوں کارکنوںکو یقین ہے کہ وہ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی مقدمات میں سرخرو ہوںگے اور ایم کیو ایم کی قیادت کرتے رہیںگے اس حوالے سے ایم کیو ایم میں انتشار اور ٹوٹ پھوٹ پیدا کرنے کی ان کے مخالفین اور بد خواہوں کی سازشیں ناکامی سے دو چار ہوںگی کیوں کہ ''آزمائشیں'' ارادوں کو مزید پختہ کرتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں