ہاؤسنگ سوسائٹیز کو بچائیے کرپشن کو نہیں

بیشتر سوسائٹیوں کے ممبران سوسائٹی مینجمنٹ کی نااہلی اور کرپشن سے پریشان ہیں


محمد اقبال March 25, 2024
یوں لگتا ہے حکومتی ادارے کرپٹ سوسائٹی مینجمنٹ اور لینڈ مافیا کے ہاتھوں یرغمال ہوچکے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

اپنا گھر ایک ایسی خواہش ہے کہ ہر شخص جو اس دنیا میں آیا ہے وہ ضرور اپنی زندگی میں اس کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے کہ کسی طرح اُسے اپنی چھت میسر آجائے۔ لیکن بدقسمتی سے آج بھی بہت بڑی تعداد ہمارے ملک میں کرایے کے مکانوں میں رہنے پر مجبور ہے۔


کراچی، جو دنیا کا آٹھواں زیادہ گنجان آبادی والا شہر ہے اور جس کی کثیر تعداد مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس آبادی پر مشتمل ہے، یہی لوگ زیادہ متاثر نظر آتے ہیں اور ہر آنے والا دن ان کےلیے نئی مشکلات لاتا ہے کیونکہ مہنگائی میں جس رفتار سے اضافہ ہوا ہے اُس رفتار سے آمدنی کے ذرائع نہیں بڑھے۔ اور آج حالات یہ ہیں کہ لوگوں کو اپنی چھت کا حصول ایک خواب نظر آنے لگا ہے۔


آزادی کے بعد کراچی میں کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کے کلچر کی حوصلہ افزائی کی گئی تاکہ مہاجرین کی آبادکاری کی جاسکے۔ یہ تجربہ اتنا بہترین رہا کہ 1970 میں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے کراچی کےلیے اسکیم 33 میں ہزاروں ایکڑ زمین کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز کےلیے مختص کی تاکہ غریب اور کم آمدنی والوں کو چھت میسر آسکے۔ لیکن بدقسمتی سے آہستہ آہستہ یہ پروجیکٹ افسر شاہی میں بیٹھے کرپٹ افسران اور نااہل سوسائٹی مینجمنٹ کے ہاتھوں برباد ہونے لگا اور ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ کراچی میں لوگوں نے اپنی جمع پونچی تو سوسائٹیز میں اپنے پلاٹ کے نام پر جمع کروائی لیکن کبھی پلٹ کر سوسائٹی مینجمنٹ سے ڈیولپمنٹ کے بارے میں نہیں پوچھا اور میرے خیال میں یہ تمام لوگ بھی جرم میں برابر کے شریک ہیں۔


آج بیشتر سوسائٹیوں کے ممبران سوسائٹی مینجمنٹ کی نااہلیوں اور کرپشن سے پریشان ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے یہ کرپشن کا ''مہلک وائرس'' ایسے اسٹیٹ ایجنٹس کی وجہ سے زیادہ پھیلا ہے جو کہ اس بزنس میں صرف اس لیے آتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ مال بنایا جائے۔ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ چھاتہ بردار اسٹیٹ ایجنٹ ایسے پراپرٹی کے کاروبار کرنے والوں کےلیے بھی شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں جو کہ بہت ایمانداری سے کام کرتے ہیں۔ یہ وائرس بہت تیزی سے سندھ کی کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں پھیلا ہے اور کراچی اس مہلک وائرس سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری حکومتیں اس ''کرپشن وائرس'' کو کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ جس کے باعث ہر روز کوئی نہ کوئی معصوم شہری اس وائرس کا شکار ہوکر اپنی جمع پونجی لٹا بیٹھتا ہے۔


یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سوسائٹیز میں صورتحال اسی طرح غیر منظم رہی تو اس کا انجام کیا ہوگا؟ سندھ کے حکمران اور افسر شاہی مسلسل اس معاملے میں غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کرپٹ سوسائٹی مینجمنٹ اور لینڈ مافیا کے ہاتھوں یرغمال ہوچکے ہیں۔


غریب سوسائٹی ممبران اس انتظار میں ہیں کہ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں لگے اس وائرس سے کون نجات دلائے گا؟ کیا ارتغرل آئے گا؟ یا پھر ہمارے قومی و صوبائی ادارے غریب سوسائٹی ممبران کی دعائیں لیں گے۔


کوآپریٹو سوسائٹیز کو بہتر اور موثر طریقے سے چلانے کےلیے جس طرح دنیا کے دیگر ممالک میں قانون کی عملداری کو یقینی بناتے ہیں اور جس کا فائدہ اُن ممالک کے لوگوں کو ہورہا ہے، بالکل اسی طرح ہماری حکومتوں کو بھی صرف قانون سازی ہی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کی عملداری کو بھی یقینی بنانا چاہیے۔ کراچی میں بھی بہت سی ایسی کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز موجود ہیں جنھوں نے اپنے ممبران کو ڈیلیور کیا ہے۔ اُن کوآپریٹو سوسائٹیز کی کامیابی کی ایک وجہ قانون کی عملداری اور فول پروف سسٹم کی موجودگی ہے جو سوسائٹی کو کرپشن سے پاک اور غیر منظم ہونے سے روکے رکھتا ہے۔


موجودہ صورتحال میں سندھ گورنمنٹ مندرجہ ذیل اقدامات کرکے سندھ کی کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز کو صحیح طریقے سے عوام کی فلاح و بہبود کا ادارہ بناسکتی ہے اور اس کے بعد قوی امید کی جاسکتی ہے کہ صوبے اور خصوصاً کراچی کے عوام اپنے خواب کو حقیقت میں تبدیل ہوتے دیکھ سکیں، یعنی اپنے گھر بناسکیں۔


1۔ کوآپریٹو ڈپارٹمنٹ کی ری اسٹرکچرنگ کرنا
(a میرٹ پر کوالیفائیڈ لوگوں کی تقرری کرنا
(b ڈپارٹمنٹ کو کمپیوٹرائزڈ کرنا، جس کے ذریعے لوگ کسی بھی سوسائٹی کے بارے میں معلومات حاصل کرسکیں اور فراڈ سے بچ سکیں۔


2۔ ایسی تمام سوسائٹی مینجمنٹ کو بلیک لسٹ کرنا جنھیں پانچ سال کا عرصہ گزر چکا ہو اور وہ اپنے ممبران کو پزیشن نہ دے سکی ہوں۔


3۔ مینجنگ کمیٹی کے ممبران کی اسکروٹنی اس طرح کی جائے کہ صرف اچھی شہرت کے لوگ ہی کمیٹی کا حصہ بن سکیں۔


4۔ تمام سوسائٹیز کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی وہ تمام انفارمیشن ویب سائٹس پر رکھیں تاکہ ممبران دیکھ سکھیں۔


5۔ AGM کو شفاف بنانے کےلیے ہر کوآپریٹو سوسائٹی اے جی ایم کی مکمل ویڈیو رجسٹرار آفس میں جمع کرائے اور وہ ممبران کو بھی دستیاب ہو۔


6۔ ہر کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کو پابند کیا جائے کہ وہ ہر پلاٹ کی ٹرانزیکشن کو FBR کے سسٹم کے ساتھ منسلک کرے۔


7۔ ہر پراپرٹی ٹرانسفر اور سوسائٹی کے اہم فیصلوں کےلیے اخبارات کے ذریعے اشتہار کو لازمی قرار دیا جائے۔


8۔ ہر کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے تمام ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کریں۔


بلاگ کی ابتدا عام آدمی کے گھر بنانے کی خواہش سے ہوئی تھی، سندھ گورنمنٹ مندرجہ بالا تجاویز پر عمل کروا کر صوبے کے غریب عوام کی خدمت کرسکتی ہے لیکن اس کےلیے قانون کی برتری اور عوام کی خدمت کا جذبہ چاہیے۔


اس کے ساتھ ساتھ کو آپریٹو سوسائٹیز کے افسران سوسائٹی کے غریب ممبران کے ساتھ بھی کھلی کچہری کا انتظام کریں تاکہ سوسائٹی کے اصل حقائق معلوم ہوسکیں۔ قانون کی عملداری اور دی گئی تجاویز ہی واحد راستہ ہے جو لاکھوں سوسائٹی ممبران کو اُن کا حق دلاسکتے ہیں۔ اگر کوآپریٹو سوسائٹیز کے مسائل کےلیے یہ راستہ اخیتار نہ کیا گیا تو پھر خدشہ یہ ہے کہ سندھ کی کوآپریٹو سوسائٹیز میں صرف لینڈ مافیا اور دولت مند طبقہ رہ جائے اور عوام کےلیے اپنی چھت ایک خواب ہی رہ جائے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں