غزل
چبھ جائیں چاہے میرے بدن میں ببول سب
قدموں میں تیرے ڈال دوں گلشن کے پھول سب
توصیفِ شعر کے لیے دو لفظ، واہ واہ
تنقیدی گفتگو ہو تو دیتے ہیں طُول سب
کچھ اس قدر حیات میں ویرانیاں بڑھیں
رعنائیاں بھی لگنے لگی ہیں فضول سب
خوشیاں نہ جانے کون سی دنیا میں کھو گئیں
آنکھیں اداس اداس ہیں چہرے ملول سب
کیسے میں دل کی بات غزل میں کروں بیاں
حارج ہے وزن و بحر و فعولن فعول سب
بس اتنی آرزو ہے تغافل نہ تُو برت
غمزے قبول سب ترے عشوے قبول سب
(ڈاکٹر سید افتخار شکیلؔ ۔ رائچور، کرناٹک)
۔۔۔
غزل
بھید کھل جائے گا یہ محشر میں
کتنی وسعت تھی خاکی پیکر میں
جانے کس سمت ہے مرا سالار
کھلبلی مچ گئی ہے لشکر میں
بس تری یاد پر کیا ہے کام
جب سے آیا ہوں دل کے دفتر میں
کتنی پُر کیف یہ سخاوت ہے
حسن بانٹا ہے اُس نے لنگر میں
اُس کی آنکھوں کا ہے خمار ایسا
اک سمندر ہو قید گاگر میں
آپ محلوں میں کیجئے گا قیام
میں بہت خوش ہوں اپنے چھپر میں
ہر قدم پر نیا ٹریلر ہے
زندگی کے لطیف محور میں
تیری آنکھوں کا عیب ہے جامیؔ
ویسے خامی نہیں ہے منظر میں
(مستحسن جامیؔ۔خوشاب)
۔۔۔
غزل
ہو رہیں ہر قدم اِس رہ میں خسارے نزدیک
زندگی صرف محبت ہے ہمارے نزدیک
اتنے یاروں سے خوش اسلوب رفاقت کا سبب
ہم نے رکھا کیے سب دور نہ سارے نزدیک
تھرتھراتے ہوئے دل اور سیہ شب کی قسم
یونہی آیا نہیں اُس ذات کے بارے، نزدیک
پھر تہہِ آب کسی موج کے تیور بگڑے
پھر ہوا خوش میں کہ وہ آئے کنارے نزدیک
یہ غلام آج بتاتے ہیں حکومت کے اصول
اِن کا بنتا ہے کہ رہتے ہیں تمہارے نزدیک
وقت کے چہرۂ مکروہ کو کیسے دیکھیں
جن کے دامن میں کوئی چیز نہ پیارے نزدیک
(زبیرحمزہ۔ قلعہ دیدار سنگھ)
۔۔۔
غزل
ساغر یا پھر نینوں سے مے نوشی کی
یار وجہ کچھ ہوتی ہے مدہوشی کی
کل بھی بزمِ یاراں میں تھی بات چلی
کل بھی میں نے اُس کی پردہ پوشی کی
ملنا مشکل تھا تو مجھ کو بتلاتے
تم نے جانے کیونکر یوں روپوشی کی
سرد ہَوا کو لمس ملا جب آنچل کا
اُس نے میرے کانوں میں سرگوشی کی
کیا تھا اُس کا شعر، ' کہ مارا جاؤں گا'
ہاں میں نے آواز سنی تھی دوشی کی
تھوڑا سا ان ہونٹوں کو بھی جنبش دو
چیخ سنائی دیتی ہے خاموشی کی
عجلت میں ہر کام بگڑتا ہے ارشدؔ
جھولی بھرتی ہے آخر سنتوشی کی
(ارشد محمود ارشد۔سرگودھا)
۔۔۔
غزل
میری قسمت کے اُسی سمت اجالے جاتے
جس بھی درگاہ پہ تم باندھنے دھاگے جاتے
گر میسر ہمیں ہوتا تری نظروں کا حصار
کم سے کم ایسے نہ محفل سے نکالے جاتے
چھن گیا ورثہ ہمارا ہی سہولت کے سبب
اب مری بستی کی جانب نہیں تانگے جاتے
چاہتی ہے جو الگ رہنا بتا دو اس کو
اتنی آسانی سے بیٹے نہیں پالے جاتے
میرے لوگوں میں اگر صبر و تحمل ہوتا
بات بے بات نہ کردار اُچھالے جاتے
(تہمینہ شوکت تاثیر ۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
یہ کون دھوپ میں پرچھائیاں اُگاتا ہے
اندھیرا ہوتے ہی تنہائیاں اگاتا ہے
اتارتا ہے کبھی آسماں سے جاہ و حشم
کبھی زمین سے رسوائیاں اگاتا ہے
شرابِ شوق سے بھر کر دلوں کے پیمانے
بدن سے مد بھری انگڑائیاں اگاتا ہے
ہمارا دل کوئی پاگل کسان ہے شاید
وطن سے دور شناسائیاں اگاتا ہے
سلیم ؔبوند بھر آنسو کو کیا سمجھتے ہو
سمندروں میں یہ گہرائیاں اگاتا ہے
(سردار سلیم ۔ حیدرآباد، تلنگانہ ،بھارت)
۔۔۔
غزل
جب وہ نزدیک آنے لگتے ہیں
لوگ باتیں بنانے لگتے ہیں
دھند یونہی نہیں ہے آنکھوں میں
خواب دیکھے زمانے لگتے ہیں
جن کے خود بال و پر نہیں ہوتے
وہ پرندے اُڑانے لگتے ہیں
جب بھی بارش کی بات کرتا ہوں
دریا آنکھیں دکھانے لگتے ہیں
مجھ سے منسوب ہو نہیں سکتے
اور تعلق بڑھانے لگتے ہیں
صبر کا اہتمام ہوتا ہے
دشت میں شامیانے لگتے ہیں
(امجد عادس۔ راولاکوٹ، آزادکشمیر)
۔۔۔
غزل
میں چپ ہُوا تو یار مرا بولنے لگا
اور اس طرح کہ جیسے خدا بولنے لگا
جس دن سے اُس کی اور کہیں بات چل پڑی
اُس دن سے میں بھی اس کے سوا بولنے لگا
مجھ سے نہ بولتا تھا مگر سُن کے میرا حال
کہتے ہوئے، ہُوا سو ہُوا، بولنے لگا
ایسا بھی کیا کہ سب سے تری رسم و راہ ہو
ایسا بھی کیا کہ جو بھی ملا، بولنے لگا
کچھ اِس طرح وہ آج یہاں بولتی رہی
پتھر بھی اس کے پاس پڑا بولنے لگا
(امتیاز انجم۔ اوکاڑہ)
۔۔۔
غزل
کبھی تو ایسا بھی کوئی کمال کر خنجر
کسی پہ چلنے سے پہلے سوال کر خنجر
تو یار ہے تو تجھے وار میں سہولت ہو
کہو تو سامنے رکھ دوں نکال کر خنجر
کسی کی آنکھ کا تارا بنا ہے تیرا شکار
لہو ٹپکنے سے پہلے ملال کر خنجر
خیال کرنا کہ اس دل میں تو ہی بستا ہے
اے یار مجھ پہ چلا کچھ سنبھال کر خنجر
تو جس کے ہاتھ ہے اس کو سکون مل جائے
مرے بدن پہ تو اتنا دھمال کر خنجر
وفا کا نام و نشاں بھی زمیں سے مٹ جائے
زمیں پہ اتنا نہ جم کر وبال کر خنجر
کسی کی یادوں کو اس جسم سے جدا کر دے
تو میرے حال پر کچھ تو خیال کر خنجر
(عامرمعانؔ۔ کوئٹہ)
۔۔۔
غزل
دیا وصال کا آخر بجھا دیا اس نے
غمِ فراق بطورِ جزا دیا اس نے
پڑی نظر تو لے کے نام اٹھا دیا اس نے
زمانے بھر میں تماشا بنا دیا اس نے
جو لکھ کے نام ہمارا مٹا دیا اس نے
بنا کے ہم کو دوانہ بھلا دیا اس نے
نقاب رخ سے جب اپنے ہٹا دیا اس نے
مزید درد ہمارا بڑھا دیا اس نے
اب اپنے ہونے سے بھی ہو رہی ہے الجھن سی
یہ روگ ہجر کا کیسا لگا دیا اس نے
(سردار وسیم اکرم سیمی خاک ۔کیکوٹ برکوٹ ،ہری پور ہزارہ)
۔۔۔
غزل
کسی حسین پہ نظریں جما کے چائے پی
جو دل کہے تو ذرا مسکرا کے چائے پی
مرے لبوں پہ ابھی تک جمی ہے وہ لذت
کہا جو تم نے لبوں کو ملا کے چائے پی
بھری ہوئی جو صراحی ہے سامنے رکھی
ذرا ذرا سی وہاں سے ملا کے چائے پی
کہا جو چائے کا تو وہ تنک کے کہنے لگا
مرے لہو کو اگن پر چڑھا کے چائے پی
پلک جھپکتے جو آنکھوں سے دور جاتا ہے
اسے بھی پلکوں پہ جھولا جھلا کے چائے پی
مچل رہی ہے جو مدت سے تیرے سینے میں
اس آرزو کو دروں تو دبا کے چائے پی
بڑے بخیل ہیں تیرے نگر کے لوگ شہاب
جو کہہ رہے ہیں کہ پانی ملا کے چائے پی
(شہاب اللہ شہاب۔منڈا، دیر لوئر، خیبر پختونخوا)
۔۔۔
غزل
قاتلانہ ہے قسم سے مسکراہٹ آپ کی
اور اس پر ہے قیامت یہ سجاوٹ آپ کی
رات کو جب آپ چھت پر گنگناتے ہیں غزل
دل لبھاتی ہے ہمارا گنگناہٹ آپ کی
چھوڑ کے ہرگز میں اس کو پھر کہیں جاتا نہیں
دسترس میں گر مری ہوتی یہ چوکھٹ آپ کی
رات بھر تکتے رہے ہم آپ کی راہیں مگر
آپ آئے اور نہ آئی ہم کو آہٹ آپ کی
مستیاں ہی مستیاں وہ شوخیاں معصومیت
کرگئی ہم کو دیوانہ چلبلاہٹ آپ کی
لگ رہا ہے آپ کو ان سے محبت ہوگئی
دیکھ کر غضنی میاں ان سے لگاوٹ آپ کی
(غضنفرغضنی ۔کراچی )
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی