ہم سا ہو تو سامنے آئے
تعلیمی میدان میں لڑکیوں کی برتری
ہرشے کے دو رخ ہوتے ہیں، ایک منفی اور دوسرا مثبت ، ہمارے سماج پر الزام ہے کہ ہم لڑکیوں اور خواتین کو گھروں سے نکلنے نہیں دیتے، اس لیے وہ زیادہ تر گھروں ہی میں وقت گز ارتی ہیں ،کہتے ہیں جس نے حالات کا مقابلہ کیا وہ سکندر بن گیا ، جس کے لیے پھر زندگی اور کام یابی کے راستے کھل جاتے ہیں لیکن جس نے خود کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا اور ہمت ہار بیٹھا تو وہ تاریکیوں اوردلدل میں دھنستا گیا ۔
اول الذکر کی بات کی جائے تو آج کی اس ابتلا کے زمانے میں یہ بات لڑکیوں پر صادق آتی ہے کیوں کہ گھروں میں بیٹھے بیٹھے آخر کار انہوں نے امید کی کرن پالی ہے اور اپنی پوشیدہ و مخفی صلاحیتوں کو اب انھوں نے بروئے کار لانا شروع کر دیا ہے، اسی لیے تو اب پاکستان اور خصوصاً خیبرپختون خوا جیسے قدامت پسند معاشرہ کہلانے جانے کے باوجود یہاں کی خواتین زندگی کے ہرشعبے میں خود کو منوا رہی ہیں، یہاں ہم دیگر شعبہ جات کو چھوڑ کر صرف تعلیم کے شعبے کی بات کریں گے، چوں کہ اس وقت پورے ملک میں امتحانات کا سیزن ہے اور تمام طلبا وطالبات ان امتحانات میں کام یابی، بلکہ زیادہ تر پوزیشن لینے کی دوڑمیں لگے ہوئے ہیں۔
ماضی قریب کی طرح اگر ہم صرف گزشتہ چند سال کے امتحانات خصوصاً میٹرک اورانٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے نتائج کا جائزہ لیں، تو ہمیں واضح طور پر بلکہ ثبوت کے ساتھ یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ نہ صرف پہلے ٹاپ تھری، بلکہ ٹاپ ٹین میں زیادہ شرح لڑکیوں کی رہی ہے، نمونے کے طور پر یہاں ہم خیبر پختون خوا کے تعلیمی بورڈ پشاورکی مثال سامنے رکھتے ہیں۔
2021ء میں پشاور تعلیمی بورڈ کے انٹرمیڈیٹ امتحانات میں پری انجئینرنگ گروپ میں لائبہ گلالئی نے پہلی جب کہ دوسری اورتیسری پوزیشن بھی لڑکیوں نے حاصل کی،مجموعی نتائج کے مطابق ان امتحانات میں پاس ریگولر طلبا کی شرح 97 فی صد جب کہ پاس طالبات کی شرح 98 فی صد رہی، پرائیوٹ پاس طلبا کی شرح 90 فی صد جب کہ طالبات کی شرح 94 فی صد رہی، اسی طرح 2021ء کے میٹرک نتائج کچھ اس طرح رہے۔
سائنس گروپ میں رمشا عمران نے پہلی جب کہ آٹھ طالبات نے مشترکہ طورپر دوسری پوزیشن حاصل کی، اسی طرح چھے طالبات تیسری پوزیشن پر براجمان رہیں،آرٹس گروپ میں ابہیا عروج نے پہلی پوزیشن ، تین طالبات نے دوسری اورچھ طالبات نے مشترکہ طورپر تیسری پوزیشن حاصل کی۔
اگر 2020کے میٹرک نتائج پر نظرڈالی جائے تو ان کے مطابق ان امتحانات میں پاس ریگولر طلبا کی شرح 59 فی صد ، پاس طالبات کی شرح 68 فی صد، پرائیویٹ پاس طلبا کی شرح 79 فی صد جب کہ پاس طالبات کی شرح 84 فی صد بنتی ہے، 2022ء میٹرک نتائج کے مطابق سائنس گروپ میں فریال راشد اورمنزہ عالم نے مشترکہ طور پر پہلی ، مریم بی بی اور مشال سبحان نے دوسری، اسی طرح درمر جان زرلخت ، فاطمہ زرلال اورکنول اختر نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔
آرٹس گروپ میں سائرہ گل نے پہلی، حافظہ عمامہ سید نے دوسری اورسیدہ حلیمہ مسعود نے تیسری پوزیشن حاصل کی، 2023 کے انٹر میڈیٹ نتائج کے مطابق کنیزخدیجہ احمد نے پری میڈیکل امتحان میں پہلی اورخدیجہ عظمت نے دوسری جب کہ بینش گلونہ نے پری انجنئرنگ گروپ میں تیسری پوزیشن حاصل کی ،آرٹس گروپ میں انعم عارف نے پہلی، ابنا یعقوب اورطیبہ اکرام نے دوسری جب کہ مناہل فاروق نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔
اگر دیکھاجائے تو موجودہ تعلیمی اداروں میں طلباء و طالبات کا تناسب بھی عدم توازن کا شکار ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لڑکیوں میں محنت، احسا س ذمہ داری اور آگے بڑ ھنے کا جذبہ نسبتاً زیا دہ پایا جا رہا ہے جب کہ دوسری جانب افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ نوجوان لڑکوں کا تعلیم کے میدان میں گراف تیزی سے نیچے گر رہا ہے، جس کا بہ خوبی اندازہ امتحانی نتائج اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کی داخلہ فہرستوں سے لگایا جا سکتا ہے۔
بیش تر جامعات میں لڑکیوں کی تعداد 70 فی صد سے تجاوز کر چکی ہے، جب کہ جامعات برائے خواتین میں پڑھنے والی طالبات کی تعداد اس کے علاوہ ہے، اگر نوجوان لڑکوں کا تعلیمی میدان میں یہی تناسب رہا تو گویا مستقبل کا نقشہ کچھ یوں ہوگا کہ اچھے اور ذمہ دارانہ عہدوں پہ لڑکیاں فائز ہوں گی، مختلف شعبہ جات میں لڑکوں اور لڑکیوں کا تناسب عدم توازن کا شکار ہو جائے گا کیوں کہ مردوں کے مقابلے میں قابل خواتین کی تعداد کافی زیادہ ہوگی۔
اس وقت ملک میں بشمول کشمیر اور گلگت اعلیٰ تعلیم کے لیے 187 جامعات فعال ہیں، بلکہ خواتین کی 10 علاحدہ یونیورسٹیاں ہونے کے باعث طالبات کو زیادہ موا قع حا صل ہیں، معاشرے کو اعلیٰ تعلیم یا فتہ نوجوان لڑکیوں کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے، جتنی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان لڑکوں کی، اعلیٰ تعلیم فرد کے علم و ہنر، وسیع النظری اور کام کرنے کی استعداد میں اضافہ کرتی ہے، طالبات پڑھ لکھ کر خواہ ماں باپ کا سہارا بنیں یا گھر کی ذمہ داریاں سنبھالیں ہر میدان میں تعلیم ان کی صفات اور صلاحیتوں میں چا ر چاند لگا دیتی ہے۔
ہمارے ہاں تسلسل سے یہ شکایت کی جارہی ہے کہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکے تعلیم اور لکھنے پڑھنے میں بہت کم دل چسپی لیتے ہیں اور اس وجہ سے وہ نتائج میں بھی پیچھے رہ جاتے ہیں، لہٰذا اس مسئلے کو نظر انداز کرنے کے بہ جائے ہمارے شعبۂ تعلیم کے ذمہ داروں کو بھی اور تعلیم سے متعلق تحقیقی اداروں کو بھی اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام لڑکوں کی توجہ مطلوبہ درجے میں اپنی جانب مبذول نہیں کرا پاتا اوران کی بہت بڑی تعداد اس سے بیزار نظر آتی ہے۔
اس کی واضح ایک وجہ تو لڑکیوں کی جانب سے تعلیم کے حصول میں دل چسپی اوردوسری وجہ زیادہ وقت پڑھائی لکھائی کو دینا ہے، کیوں کہ لڑکیاں اسکول وکالجوں سے آنے کے بعد گھر میں زیادہ وقت پڑھائی میں گزارتی ہیں، جب کہ لڑکے چھٹی کے بعد زیادہ تر کھیل کود ، دوستوں سے گپ شپ اور موبائل کے استعمال میں صرف کردیتے ہیں، اسی طرح لڑکے والدین کی جانب سے گھر بار کے کام کاج مثلاً سودا سلف یا دیگر امورکو بھی وقت دیتے ہیں ، مقابلتاً اگر لڑکیاں پڑھائی کو چوبیس گھنٹے میں دس بارہ گھنٹے وقت دیتی ہیں تو لڑکے اس کے مقابلے میں چار پانچ گھنٹے ہی نکال پاتے ہیں۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لڑکیاں گھریلو کام کاج سے صرف نظرکرتے ہوئے کتاب کو ترجیح دینے لگتی ہیں، جس کا لامحالہ مثبت اثر ان کی پڑھائی پر پڑتا ہے اور یوں ان کے اچھے نمبر آجاتے ہیں، جس سے ان کو آگے بڑھنے کی ترغیب بھی ملتی ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ والدین خصوصاً والد پڑھائی اور اپنی بیٹی کے بہتر مستقبل کے لیے پیار ومحبت اور شفقت کے ساتھ اپنی بیٹی پر زیادہ توجہ دیتا ہے اوراس حوالے سے ان کی ہرخواہش کو پورا کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے، یہاں سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ لڑکیوں میں آگے بڑھنے کی لگن اورجستجو بھی لڑکوں سے زیادہ ہوتی ہے اب اگر یہ کہا جائے کہ لڑکیوں کا مقابلہ لڑکوں سے نہیں لڑکیوں سے ہوتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مندرجہ بالا صورت حال کے سبب مستقبل میں معا شرے کا نقشہ الٹ پلٹ ہوتا نظر آتا ہے، اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ لڑکیوں کو پڑھایا لکھایا نہ جائے یا انہیں آگے بڑھنے سے روکا جائے، ان کی خواہشات کا گلا گھونٹ دیا جائے، ہرگز نہیں بلکہ ہر قدم پر لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، لیکن ساتھ ہی ضرورت اس امر کی ہے کہ لڑکوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے حصول اور پیشہ ورانہ تربیت کے موا قعوں میں اضافہ کیا جائے، بہ صورت دیگر تمام ملازمتوں بالخصوص اعلیٰ عہدوں پر ملازمت کے معیار کو زیادہ تر نوجوان لڑکیاں ہی پورا کریں گی، جس سے معا شی ذمہ داریوں کا بوجھ مرد کے کاندھوں سے کم ہوتا ہوا عورتوں کے کاندھوں پر بڑھنا شروع ہوجائے گا۔
بالعموم مشاہدے میں آیا ہے کہ ہما رے معاشرے میں لڑکیوں کو سکھایا جاتا ہے کہ انہیں دوسرے گھر جانا ہے، نئے رشتوں کو اپنی زندگی میں جگہ دینے کی استعداد پیدا کرنی چاہیے، جب کہ لڑکوں کی تربیت عملی زندگی بالخصوص عائلی زندگی کے حوالے سے نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، مردوں کی بیرون خانہ مصروفیات کے باعث معاشرتی ذمہ داریاں عموما عورت ہی کے کاندھوں پر ہوتی ہے۔
نیز مستقبل میں صورت حال یہ ہو سکتی ہے کہ لڑکے تعلیم اور ہنر کے میدان میں پیچھے ہونے کے باعث معاشی میدان میں بھی پیچھے رہ جائیں اور لڑکیوں کے کاندھوں پر بچوں کی پرورش و تربیت کرنے، خاندان کے نظام کو چلانے، شوہر اور سسرال والوں کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی پڑنا شروع ہوجائے گا، صنف نازک بظاہر ترقی کرتی نظر آرہی ہے، دراصل وہ چکی کے دونوں پاٹوں میں پس رہی ہوگی، اس طرح وہ ایک اور استحصال کا شکار ہو جائے گی۔
باوجود اس کے، کہ نوجوان لڑکیاں بھی اپنی بنیادی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ قدرت کی بتائی گئی حدود میں رہتے ہوئے بہ شمول معاشی میدان کے کسی بھی میدان میں کام کر سکتی ہیں اور باوجود اس کے کہ عورت کتنا بھی کما کر لارہی ہو تب بھی مرد اپنی اس معاشی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ہمیں مستقبل کے حوالے سے ایسی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے کہ نسل نو عدم توازن کا شکار ہوئے بغیر ترقی کا سفر بہ آسانی جاری و ساری رکھ سکے اور بحیثیت ذمہ دار شہری کے فعال کردار ادا کریں۔