پیکا ایکٹ چیف جسٹس نے ایف آئی اے کو صحافیوں کی گرفتاری سے روک دیا
آپ خود سے کیوں تصور کر رہے ہیں صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوگی اور گرفتار کیا جائے گا، چیف جسٹس کا وکیل سے سوال
چیف جسٹس نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کی درخواست پر ایف آئی اے کو صحافیوں کو گرفتار کرنے سے روک دیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔
پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل دیے اور کہا کہ ایف آئی اے پیکا ایکٹ کے غلط استعمال کی عادی ہو چکی۔ بیرسٹر صلاح الدین نے جسٹس اطہر من اللہ کے ہائیکورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا اور کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ پیکا سیکشن 20 کی ایک جز کو کالعدم قرار دے چکی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ رپورٹٹڈ فیصلہ ہے؟ اس پر صلاح الدین نے کہا کہ صرف مختصر حکم نامے میں اس سیکشن کو کالعدم کیا گیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اس کا تفصیلی فیصلہ بھی آیا تھا؟ تو بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا تفصیلی فیصلہ آیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا اس فیصلے میں ایک پورا آرڈیننس بھی کالعدم کیا گیا؟ اس پر وکیل نے کہا کہ وہ ایک نیا آرڈیننس آرہا تھا اسے کالعدم کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کیا اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا؟ وکیل نے جواب دیا کہ میرے خیال میں یہ فیصلہ چیلنج نہیں کیا حتمی ہو چکا، پرائیویسی میں مداخلت کے نام پر صحافیوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ غلط استعمال تو بہترین قسم کے قانون کا بھی ہو جاتا ہے، آپ پرائیویسی کو کوالیفائی کیسے کریں گے؟ کیا کوئی آپ کی تصاویر آپ کے کمرے یا واش روم میں بنا سکتا ہے؟ مجھے لگتا ہے اس پر آپ بھی کہیں گے ایسا نہیں ہوسکتا، یہ ہتک عزت کا معاملہ نہیں پرائیویسی کا رہ جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس معاملے میں قانون کی خلاف ورزی کی گئی؟ یہ تو ضابطہ فوج داری کی دفعہ 160 کے تحت نوٹس ہے، یہ تو ایف آئی آر کے اندراج سے پہلے کا نوٹس ہے، ایسا نوٹس تو کل کو مجھے مل سکتا ہے، آپ کیوں خود سے تصور کر رہے ہیں وہ ایف آئی آر درج کریں گے، کئی بار اوپر سے بہت پریشر آجاتا ہے، افسر پریشر ہٹانے کیلئے نوٹس دے دیتا ہے مگر ایف آئی آر نہیں کاٹتا گرفتار بھی نہیں کرتا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اس نوٹس میں تو وہ بطور گواہ بھی کسی کو بلا سکتے ہیں، اگر کوئی چیز آپ غیر قانونی دکھائیں گے تو ہی اسے ہم کالعدم کریں گے، ہم ایک قانونی عمل کو کالعدم نہیں کریں گے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ نوٹس کے ساتھ مقدمہ کی مکمل تفصیل فراہم کرنا ضروری ہے، مجھے اگر پولیس اسٹیشن بلایا جاتا ہے تو پہلے وجوہات بتانا ہوں گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہتے ہیں طلب کیے جانے سے پہلے ایف آئی آر لازمی ہے؟ ہوسکتا ہے وہ افسر ایف آئی آر سے پہلے ہی آپ کو حقائق کی تصدیق کیلئے بلا رہا ہو۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ایف آئی آر کے اندراج کا معاملہ پہلے آتا ہے طلبی بعد میں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پھر آپ یہ چاہتے ہیں نوٹس 160 کی جگہ سیکشن 157 کا ہونا چاہیے؟ وکیل صلاح الدین نے کہا کہ اگر ایف آئی آر درج ہو چکی ہو تو ہی نوٹس آسکتا ہے۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت دو اپریل تک ملتوی کردی اور آئندہ سماعت تک ایف آئی اے کو صحافیوں کی گرفتاری سے روک دیا۔