انسانی ترقی اور خیراتی حکمت عملی
عام آدمی کا انحصار اچھی حکومت اور اچھے نظام پر ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ ہی نظام اس کی ترقی سے بھی جڑا ہوا ہے
دنیا میں عام یا محروم طبقات کی ترقی کا بنیادی ماڈل اچھی اور منصفانہ و شفاف حکمرانی کے نظام سے جڑا ہوتا ہے اور یہ ہی شفاف نظام عام آدمی کی زندگیوں میں سیاسی ، سماجی ، معاشی ، قانونی انصاف کے عمل کو یقینی بناتا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عام آدمی کا انحصار اچھی حکومت اور اچھے نظام پر ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ ہی نظام اس کی ترقی سے بھی جڑا ہوا ہے۔
اچھی حکومت اپنے اقدامات کی وجہ سے عام آدمی کے فوری مسائل پر ہی توجہ نہیں دیتی بلکہ وہ ان مسائل پر شارٹ ٹرم ، مڈٹرم اور لانگ ٹرم بنیادوں پر ایسی ٹھوس حکمت عملیوں کو ترتیب دیتی ہے جو ان طبقوں کی حقیقی ترقی کے عمل کو ممکن بناتی ہے ۔
حکومت کا بنیادی کام محض لوگوں کی فوری مدد کرنا یا ان میں خیرات کی بنیادوں پر حکمت عملیوں کو ترتیب دینا نہیں ہوتا بلکہ اپنے اقدامات سے لوگوں کو خود سے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے لیے حکومت معاشی مواقع کو اس انداز سے پیدا کرتی ہے کہ لوگوں کو خود سے اپنے لیے روزگار کو پیدا کرنے میں آسانیاں مل سکیں ۔
لیکن بدقسمتی سے پاکستان اچھی اور شفاف حکمرانی کے نظام سے محروم ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں لوگوں میں محرومی اور عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے۔
اسی احساس کی بنیاد پر حکمرانی کے نظام پر عدم اعتماد اور ایک بڑی خلیج کو بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔لوگوں کو لگتا ہے کہ اس موجودہ نظام میں ہماری ترقی کا حقیقی ماڈل بہت کمزور ہے اور اس کی وجہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں عام آدمی کے مقابلے میں طاقت ور طبقات کی حکمرانی ہے اور اسی کے مفادات کو فوقیت دی جاتی ہے۔
ہمارا مجموعی طور پر حکمرانی کا نظام ایک پائدار ترقی کے مخالف ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں انسانی ترقی کے ماڈل نہ صرف کمزور ہیں بلکہ عام طبقے میں بنیادی نوعیت کے مسائل جو زندہ رہنے کے لیے درکار ہیں وہ کسی بھی سطح پر میسر نہیں ہیں ۔
ہمارے یہاں انسانی ترقی کا جو ماڈل اس وقت قائم ہے وہ خیراتی بنیادوں پر اختیار کی جانے والی حکمت عملی سے جڑا ہوا ہے ۔ خیراتی حکمت عملی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جب کسی کمزور فرد کو فوری طورپر مدد درکار ہو تو خیراتی بنیادوں پر اس کی مدد کرنا ضروری ہوتا ہے ۔لیکن اگر خیراتی حکمت عملی کو مستقل بنیادوں پر اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنالیا جائے تو پھر حقیقی پائیدار ترقی کا ماڈل بہت پیچھے رہ جاتا ہے ۔
خیراتی حکمت عملی سے مراد یہ ہوتی ہے کہ آپ لوگوں کو روزانہ یا ہمیشہ کی بنیاد پر محتاج بنا دیں۔ لوگوں کو روزگار کے مواقع دینے کی بجائے ان کی اس انداز میں بنیادی ضرورتوں کو بنیاد بنا کر مدد کی جانا کہ وہ اور کچھ نہ کرسکیں اور ہمیشہ حکومت ، اداروں یا انفرادی طاقت ور افراد پر بھروسہ کریں یا ان کی محتاجی کا شکار ہوجائیں ۔اس حکمت عملی کو ترقیاتی نظام میں ہاتھ پھیلانے والا نظام کہا جاتا ہے اور اس کی ترقی کے ماڈل میں کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ۔
لیکن پاکستان کا مسئلہ سنجیدہ ہے اور یہاں خیراتی بنیادوں پر اختیار کیا جانے والا نظام ایک مستقل نظام بنتا جارہا ہے اور اس نظام سے فائدہ اٹھانے والے افر اد کی تعداد میں کمی نہیں بلکہ مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔
اس حکمت عملی کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگوں کو کام کی طرف راغب کرنے یا متحرک کرنے کی بجائے مدد کرنے والے لوگوں کا محتاج بناتا ہے اور لوگ کچھ کرنے کی بجائے اس ماڈل کا مستقل حصہ بن کر خود کو عملی طور پر ہاتھ پھیلانے والا بنالیتے ہیں ۔آج کل ہمیں ملک کے چاروں اطراف میں اسی خیراتی ماڈل کی بنیاد پر لنگر خانے ، راشن تقسیم ، رمضان اور عید گفٹ ، مختلف گلی محلوں کی سطح پر مخیر افراد کی جانب سے افطاری کا انتظام کرنا سمیت لوگوں کو مالی امداد دینا جیسے معاملات نظر آتے ہیں ۔
اس کام میں حکومت اور مخیر حضرات سے لے کر عام آدمی اور سیاسی و مذہبی جماعتیں، دینی مدارس اور بڑے بڑے کاروباری طبقات شامل ہوتے ہیں ۔ اس کام کی بنیاد میں ایک مقصد جہاں لوگوں کی مدد کرنا ہوتا ہے وہیں اللہ تعالی کی خوشنودی کا حصول بھی ہوتا ہے۔
حکومتی سطح پر بھی ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں اربو ں روپے اس خیراتی ماڈل پر خرچ کرتی ہیں اور تقسیم کا جو فارمولہ اختیار کیا جاتاہے وہ کافی مسائل کی نشاندہی کرتا ہے جن میں ذاتی تشہیر کرنا ، سیاسی قیادتوں کی راشن بیگوں پر تصاویر لگانا، مستحقین کو تقسیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ تصاویر بنانا اور مستحقین کی بھی تشہیر کرنا ، لائنوں میں لگا کر عورتوں اور مردوں کی تذلیل کرنا، دھکے دینا ، لاٹھی چارج کرنا ، راشن یا خیراتی کاموں کی تقسیم پر میڈیا کی تشہیر اور سرکاری بیوروکریسی کے شاہانہ اخراجات، خود کو سیاسی سطح پر پزیرائی دینا جیسے مسائل شامل ہیں۔
یہ بھی ایک سنجیدہ سوال ہے کہ جو خیراتی کاموں کی بنیاد پرتقسیم کی جاتی ہے وہ کس حد تک منصفانہ اور شفاف ہوتی ہے اور کس حد تک وہ حقیقی مستحقین تک پہنچتی ہے یا یہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ جاتی ہے جو اسے ایک دھندہ بنالیتے ہیں ۔ اسی خیراتی ماڈل میں اگر واقعی ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں کہ لوگ اپنے پاؤں پر خود کھڑے ہوں ، محنت کریں ، کاروبار کریں یا کسی کے آگے مستقل بنیادوں پر ہاتھ نہ پھیلائیں تو ہمیں اس خیراتی رقم سے لوگوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کی طرف راغب کرنا چاہیے۔
ان کی چھوٹی مالی مدد اس انداز سے کریں کہ وہ خود سے کمانا شروع کرے ۔حکومتی سطح پر اربوں روپے کی بنیاد پر اس خیراتی ماڈل پر وسائل کی تقسیم کو چھوٹی چھوٹی مقامی صنعتوں کو فروغ دینا ، چھوٹے کاروبار کو فروغ دینا یا لوگوں کو بلاسود چھوٹے قرضوں کی فوری فراہمی کو یقینی بنانا اور کمزوروں کے لیے کاروباری ماحو ل فراہم کرنا ، ان کو مارکیٹیں فراہم کرنا ، کاروباری تحفظ کو یقینی بنانا ، عورتوں کو چھوٹے کاروبار کی طرف راغب کرنا جیسے اقدامات کی مدد سے ان کمزور طبقات کو معیشت کے نظام میں بطور کلیدی کردار کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ۔
خیراتی مدد فوری نوعیت کی تو ہوسکتی ہے مگر اسے کسی بھی طور پر مستقل حکمت عملی کے طور پر پیش نہیں کیا جانا چاہیے ۔ حکومتی ذمے داری بنتی ہے کہ نہ صرف لوگوں کو مقامی سطح پر چھوٹے کاروبار کی طرف راغب کریں بلکہ ان کی تربیت بھی اس انداز سے کی جائے کہ کچھ سیکھ کر کاروبار کرسکیں ۔ہمیں لوگوں کو مچھلی کھلانے کی بجائے مچھلی پکڑنے کا سلیقہ سمجھانا چاہیے تاکہ لوگ خود سے اپنے لیے معاشی سطح پر مواقع کو پیدا کرسکیں ۔
انفرادی سطح پر جو بڑے بڑے لوگ خیراتی کاموں میں کام کرنے کا شوق اور جذبہ رکھتے ہیں اور لاکھوں کی بنیاد پر وسائل تقسیم کرتے ہیں وہ اپنے کاموں میں گھروں کے باہر قطاریں لگوانے یا کھانا یا راشن کی تقسیم کی بجائے اپنی حکمت عملی میں افراد کی مدد اس انداز سے کریں کہ لوگ کام کریں ۔
کراچی میں حال ہی میں ایک بڑے مخیر فرد نے پیسے یا راشن تقسیم کرنے کی بجائے افراد کو ریڑھیاں بانٹیں اور اس پر ان کو دس ہزار کا سودا پھل ، سبزیاں یا اور مختلف اشیا خرید کر دیں اور کہا کہ وہ جاکر اس مال کو فروخت کریں اور پھر فروخت کرنے کے بعد دوبارہ مال خریدیں اور بیچیں تاکہ وہ باعزت پیسے کماسکیں اور دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں ۔اگرچہ دس ہزار کی رقم کوئی زیادہ نہیں لیکن اگر کوئی کچھ کرنا چاہے تو اس رقم سے بھی بہت کچھ کرسکتا ہے ۔
ہمیں بنیادی طور پراس ملک کو بھی معاشی طور پر مستحکم کرنا ہے اورلوگوں کو بھی ۔ اس کو بنیاد بنا کر ہمیں حکومتی سطح سے ایسے منصوبے شروع کرنے ہیں جن کی بنیاد خیراتی نہیں بلکہ مستقل ترقیاتی سوچ اور فکر کی عکاسی کرتی ہو جو لوگوں کو خود کفیل بناسکے ۔ یہ جو آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن ہے اس کا خاتمہ ہماری ترجیح ہونی چاہیے ۔