گوادر کے مسائل
گوادر میں 30 گھنٹے تک ہونے والی بارش نے نئے تعمیر شدہ ڈھانچے کو نیست و نابود کردیا
پاکستان اور چین کی اقتصادی راہ داری کے 65 بلین ڈالر منصوبہ کا مرکزی شہر گوادر ناقص منصوبہ بندی کی بناء پر مسائل کا شکار ہوگیا۔ گوادر میں 30 گھنٹے تک ہونے والی بارش نے نئے تعمیر شدہ ڈھانچے کو نیست و نابود کردیا۔
سی پیک منصوبے کے لیے ہونے والی تعمیرات سے پانی کی نکاسی کے فطری راستے بند ہوگئے۔ طغیانی کی بناء پر بارش کے پانی کو بحیرہ عرب نے قبول نہیں کیا، یوں تباہی گوادر کے شہریوں کا مقدر بن گئی۔
گوادر سی پیک منصوبے سے قبل ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ 2017میں ہونے والی مردم شماری سے پتہ چلتا ہے کہ گوادر شہر کی آبادی صرف 97 ہزار تھی مگر اطراف کے شہروں کے علاوہ مختلف علاقوں سے سی پیک منصوبوں میں کام کرنے والے افراد بھی گوادر میں آباد ہوئے، یوں گزشتہ سال ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق اب گوادر کی آبادی 3 لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آبادی کا 70 فیصد حصہ گوادر کی شہری حدود میں آباد ہے۔
بلوچستان کے بارے میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گوادر میں ہونے والی تعمیرات کا بغور جائزہ لیا جائے تو فوری طور پر واضح ہوتا ہے کہ سی پیک منصوبے کے تحت زیادہ تر سڑکیں تعمیر ہوئی ہیں۔ ان سڑکوں میں میرین ڈرائیو روڈ اور گوادر اسٹیٹ وے ایکسپریس روڈ شامل ہیں۔
یہ سڑکیں زیادہ تر گنجان آباد علاقوں اور غریبوں کی بستیوں سے گزرتی ہیں۔ ان سڑکوں کی تعمیر سے قدیم سیوریج کا نظام بند ہوگیا اور پانی کی قدرتی گزر گاہیں بند ہوگئی ہیں، یوں بارشوں نے تباہی مچائی۔ ایک اندازے کے مطابق بارش کے پانی سے کچے مکانات پر مبنی فقیر کالونی کے 90 فیصد مکانات یا تو مکمل طور پر تباہ ہوگئے یا انھیں جزوی طور پر نقصان پہنچا۔ سرکاری ذرایع کا کہنا ہے کہ پورے علاقے میں 8 ہزار 500 مکانات کی چھتیں ٹوٹ گئیں یا ان کی دیواریں گرگئیں۔
انتھاپولوجی Anthapology کے ماہر اور محقق ڈاکٹر حفیظ جمالی کا تھیسز گوادر پر ہے۔ گوادر کا شمار بلوچستان کے AridZone میں ہوتا ہے جہاں کبھی کبھی بارش ہوتی تھی جس کی بناء پر عوام اور حکومت ایسی ناگہانی صورتحال کے لیے تیار نہیں تھے۔ ڈاکٹر جمالی کا کہنا ہے کہ گوادر کو ایک چھوٹا سا Silver of Landکہا جاسکتا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ زیادہ تر آبادیاں پانی کے فطری راستے پر تعمیر ہوتی تھیں اور بارش کے پانی کی نکاسی کا کوئی نظام نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ آبادی کے بڑھنے اور نئی تعمیرات ہونے کی بناء پر ضروری ہے کہ بارش کے پانی کی نکاسی کا جدید نظام تعمیر کیا جائے۔ گوادر سے تعلق رکھنے والے ایک انجنیئر کا کہنا ہے کہ سی پیک منصوبے کے تحت سڑکوں کی تعمیر کے دوران پانی کے سمندر میں جانے کے تمام راستے بند کر دیے گئے جس کی بناء پر غیر معمولی تباہی ہوئی۔
ایکسپریس ٹریبون میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں گوادر کی ماہی گیر برادری سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ماسی بیگم کا ذکر ہے، وہ کونسلر بھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کا تعلق ماہی گیروں کی برادری سے ہے۔ ان کے دو بیٹے ماہی گیر ہیں۔ ان بارشوں میں ان کا گھر مکمل طور پر تباہ ہوا اور ان کے پاس رہنے کو جگہ نہیں ہے مگر حکومت کے کسی محکمے نے ان کے لیے کچھ نہیں کیا۔
گوادر کے ایک نوجوان طالب علم کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں کوئی کلائیمیٹ چینج کے بارے میں آگاہ نہیں تھا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ گوادر اور ضلع مکران کلائیمیٹ چینج میں فرنٹ لائن پر ہے۔ گوادرکی تباہی سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ گوادر کی ترقی کے لیے تمام منصوبوں میں گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔
دوسری جانب گوادر کے ماہی گیروں کا احتجاج تاریخ کا حصہ بن گیا۔ اس احتجاج کو منظم کرنے میں جماعت اسلامی بلوچستان کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن نے اہم کردار ادا کیا۔
مولانا ہدایت الرحمن کا کہنا تھا کہ حکومت نے گوادرکے ماہی گیروں کی بستیوں کو ایک حصار میں بند کردیا تھا اور ماہی گیروں کے سمندر میں مچھلی کے شکارکے لیے جانے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں اور بحیرہ عرب میں غیر ملکی بڑے دیو ہیکل جہازوں کو مچھلی کے شکار میں کھلی اجازت دیدی گئی ہے۔ ان جہازوں میں آٹومیٹک جال لگے ہوتے ہیں اور ان جہازوں کا عملہ سمندر کی تہہ تک موجود مچھلیوں کا شکارکرتا ہے، جب مقامی ماہی گیر جاتے ہیں تو ان کے چھوٹے جال خالی آجاتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کا خاندان سیکڑوں سال سے گوادر میں آباد ہے مگر اہلکار ان سے شناخت طلب کرتے ہیں، یوں ایک سال سے زیادہ عرصے تک مولانا ہدایت الرحمن کی قیادت میں ہزاروں ماہی گیر احتجاج کرتے رہے۔ کوئٹہ اور اسلام آباد کی حکومتوں نے مولانا ہدایت الرحمن سے مذاکرات کیے اور گوادر کے ماہی گیروں کے کچھ مسائل حل ہوئے۔اب مولانا ہدایت الرحمن بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں۔
گوادر میں احتجاج کا ایک اور مسئلہ لاپتہ افراد کا مسئلہ رہا۔ کبھی کبھار تو مہینوں دھرنے جاری رہے جس کے نتیجے میں گوادر کو چین سے ملانے والی موٹر وے بند رہی اور گوادر کی بندرگاہ کو جانے والے راستے بند رہے جس کی بناء پر سارا کاروبار معطل رہا۔ ایک اور مسئلہ دہشت گردی کا ہے۔ دہشت گردی کی وارداتوں سے ساری صورتحال خراب ہوجاتی ہے۔
بلوچستان کے امور کے ماہر اور مصنف عزیز سنگھور کے مطابق گوادر میں ترقی کے بڑے بڑے دعوے کیے گئے۔ بے شک گوادر میں ترقی ہوئی تاہم وہ ترقی ''انڈیجینس لوگوں'' کے لیے نہیں تھی۔ گوادرکی ترقی کے نام پر جو تعمیرات کیے گئے دراصل یہ ترقی ''نوآباد کاروں'' کے لیے تھی، جو حالیہ گوادرکے سیلاب کا سبب بنیں۔ یہ تباہی '' نیچرل ڈیزاسٹر'' نہیں بلکہ ''ہیومن میڈ'' تباہی تھی۔ یعنی غلط پلاننگ کا نتیجہ تھا۔
گزشتہ دنوں وزیر اعظم شہباز شریف کی صدارت میں بلوچستان کے ایک اور میگا پروجیکٹ ریکوڈک کے منصوبہ کے بارے میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا۔ وزیر اعظم نے اجلاس میں ہدایت کی کہ ریکوڈک کو گوادر سے ملانے کے لیے ریل اور سڑک کی تعمیر کے لیے فزیبلٹی رپورٹ تیار کی جائے۔
وزیر اعظم نے بالکل درست کہا۔ چاغی جہاں ریکوڈک کی کانیں ہیں کراچی پورٹ قاسم کے مقابلے میں گوادر سے قریب ہے۔ اس تناظر میں چاغی کو گوادر سے منسلک کرنے کی یہ ایک بہترین تجویز ہے مگر اس تجویز پر عملدرآمد کے ساتھ گوادر کے شہریوں کے مسائل کو حل کیا جائے۔ گوادر میں فوری طور پر صاف پانی کی فراہمی کے نظام کے قیام کے ساتھ سیوریج کا جدید نظام تعمیر کیا جائے اور گوادر کے عوام کا احساس محرومی دور کرنے کے لیے لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہونا ضروری ہے۔