پاکستان کے صحافی سیاستدان
صحافت اور سیاست، دو ایسے شعبے ہیں جنھیں دولت اور شہرت کے حصول کا شاٹ کٹ تصور کیا جاتا ہے
صحافت اور سیاست، دو ایسے شعبے ہیں جنھیں دولت اور شہرت کے حصول کا شاٹ کٹ تصور کیا جاتا ہے۔پاکستان میں بھی ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جنھوں نے صحافت سے سیاست میں نمایاں مقام پایا وہ حکومت کا حصہ بھی رہے۔
صحافت سے سیاست میں داخل ہونے والے افراد کی فہرست بنائی جائے تو مولانا کوثر نیازی سر فہرست ہوں گے۔مولانا کوثر نیازی نے عملی زندگی کا آغاز جماعت اسلامی کے ترجمان اخبار'' تسنیم''سے کیا۔ پھر اپنا رسالہ ہفت روزہ ''شہاب'' شروع کیا۔ بھٹو صاحب کے دور میں وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے ا ورزیر اطلاعات و نشریات تک پہنچے۔ فیض احمد فیض پاکستان ٹائمز کے پہلے ایڈیٹر رہے،وہ حکومت پاکستان میں ثقافت کے کنسلٹنٹ تعین ہوئے۔
جاوید جبار نے بھی صحافت سے عملی زندگی کا آغاز کیا بعدازاں وہ بھی سیاست میں داخل ہوئے اور اطلاعات و نشریات کا قلمدان بھی سنبھالا۔ سندھ کے قاضی عبدالمجید عابد نے بھی صحافت کی سیٹرھی سے سیاست میں قدم رکھا اور وفاقی وزیر بنے۔ واجد شمس الحسن کا ابتدائی ذریعہ روزگار بھی صحافت تھا۔ مشاہد حسین سید بھی صحافت سے زقند لگا کر سیاست کے چمکدار ستارے بنے ،نواز شریف کابینہ میں وزیر اطلاعات کا قلمدان سنبھالا۔ ایاز امیر نے بھی سیاست اور صحافت دونوں پلٹروں میں اپنا وزن ڈال رکھا ہے۔
حسین حقانی نے بھی اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک صحافی کے طور پر کیا۔ پنجاب حکومت کے مشیر بنے پھر سری لنکا میںبھی سفیر رہے اور بعد میں پیپلز پارٹی کے دور میں وفاقی سیکریٹری اطلاعات و نشریات بنے ۔ جب زرداری پہلی بار صدر پاکستان بنے تو انھوں نے حسین حقانی کو امریکا میں پاکستان کا سفیر لگایا۔شیری رحمان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وزیر اطلات و نشریات بھی رہیں، بعد ازاں انھیں امریکا میں پاکستان کا سفیر بھی بنایا گیا۔انھوں نے بھی صحافت کے زینے سے سیاست میں کامیابی حاصل کی۔وہ وزیر اطلاعات بنیں۔
ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بھی صحافت سے سفارت تک کا سفرکیا اور پھر واپس آ کر صحافت میں ڈیرے جما لیے ہیں ۔ ارشاد حقانی مرحوم نے بھی اپنا نام صحافت میں کمایا۔پھر ملک معراج خالد کی نگران کابینہ میں وزیر اطلاعات بنے۔ نجم سیٹھی صاحب نے بھی صحافت سے سیاست کے میدان اور تجزیہ نگاری سے وزارت اعلیٰ کی ذمے داریوں تک کے اس سفر میں کئی اتار چڑھائو دیکھے۔ نجم سیٹھی کی اہلیہ جگنو محسن بھی ایک معروف صحافی اور تجزیہ نگار رہیں۔ عطا الحق قاسمی نے بھی صافت سے سیاست میں قدم رکھا، وہ سفیر بھی رہے بعد ازاں وہ پاکستان ٹیلی ویڑن کے ایم ڈی اور چیئرمین بھی رہے۔
شیریں مزاری نے بھی صحافت سے سیاست تک زقند لگائی ۔شیری رحمان تحریک انصاف کی سرگرم رکن رہیں اور عمران خان کے دور حکومت میں وفاقی وزیر بھی بنی۔ ابصارعالم بھی صحافت سے سیاست اور حکومت کی راہداریوں تک پہنچے اور چیئرمین پیمرا بنے۔
معروف دانشور اور صحافی عرفان صدیقی نے بھی صحافت سے سیاست میں قدم رکھا اور وہ نواز شریف کابینہ کے رکن بھی رہے۔مشتاق منہاس نے بھی صحافت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا بعد ازاں سیاست میں قدم رکھا اور آزاد کشمیر حکومت میں وزیر اطلاعات تعینات ہوئے۔فہد حسین بھی صحافت سے سیاست میں آئے اور پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران شہباز شریف کابینہ میں وزارت کا عہدہ حاصل کیا۔
نگران وفاقی حکومت کے وزیر اطلاعات و نشریات مرتضی سولنگی نے بھی اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا۔پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وہ ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل تعینات ہوئے۔ وہ اپنے بے لاگ تبصروں کے مشہور ہیں۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کو محترم مقام ملنا ہم سب کے لیے ایک خوش آیند علامت ہے۔