ایسٹ انڈیا کمپنی اور آنکھیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ برصغیر ہندوستان میں طویل عرصے تک وسطیٰ ایشیا اور ترک مسلمانوں کی حکومت رہی
کیا کسی بھی قوم کے لیے قوانین قدرت بدل سکتے ہیں؟ کیا کوئی ملک فطرت کے اصولوں کے خلاف زندگی گزار سکتا ہے؟ دنیا کی چار سے پانچ ہزار سالہ تاریخ صرف ایک سچ کی گواہی دیتی ہے کہ قدرت اور فطرت کے احکامات اٹل ہیں۔ ان سے کسی فرد، قوم یا ملک کو مفر نہیں۔ مجھے مسلمانوں کی تاریخ سے بحیثیت طالبعلم ایک گلہ ہے۔ اس کا محور صرف ماضی پر ہے۔ سچ کی کسوٹی پر ہماری تاریخ اکثر جگہ پر پوری نہیں اترتی۔ نہ اب کوئی اس پر بات کرنے کو تیار ہے۔ جذباتیت کا پہاڑ اب سچ پر مکمل غلبہ پا چکا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ برصغیر ہندوستان میں طویل عرصے تک وسطیٰ ایشیا اور ترک مسلمانوں کی حکومت رہی۔ سچ یہ بھی ہے کہ ان فاتحین کی فوج کی تربیت اور خاص وضع کا اسلحہ مقامی لوگوں سے قدرے بہتر تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے انتظامی اور مالیاتی امور میں اپنے وقت کی مناسبت سے کبھی کبھی بہتری کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ انتقال اقتدار کا کوئی سنجیدہ نظام نہ ہونے کی بدولت برصغیر ہمیشہ سازشی اور لایعنی جنگوں میں مبتلا رہا ہے۔ آپ اُس تمام دور میں عام آدمی کی حالت زار پر غور فرمائیے۔ مجموعی طور پر ان کی حالت بہت ابتر تھی۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ بھی تھا کہ برصغیر کے حاکم مغربی ممالک سے انتہائی نحیف اور لاغر رابطے میں تھے۔ انکو مغرب کی علمی، تجارتی اور سائنسی ترقی کا کوئی شعور نہیں تھا۔ وہ ان کی ایجادات کو بھی اپنے لیے ایک مسئلہ سمجھتے تھے۔ آپ لاہور یا دہلی کا شاہی قلعہ ملاحظہ کریں۔ یہ مغل بادشاہوں کی حکومت کے سطوت کے نشان ہیں۔ مگر صرف اس وقت تک جب تک آپکو پیرس کے شہنشاہوں کے ورسائی کے محل کا شعور نہ ہو۔ میں کسی تہذیب یا کسی عہد کے بادشاہ کا تقابلی جائزہ نہیں کر رہا۔ مگر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے مغل بادشاہ بین الاقوامی رابطوں میں بہت کمزور تھے۔
ایک طاقتور بحری بیڑہ نہ ہونے کی وجہ سے انھوں نے یورپ کی جانب اپنے سفیر اور لوگوں کو بہت کم بھیجا۔ وہ طاقتور تھے، مگر صرف اس بنیاد پر کہ ان کا واسطہ کمزور لوگوں سے تھے جو مالیہ یا ٹیکس ادا کرنے کی ایک مشین سی بنا دیے گئے تھے۔ ان کی حکمت، اس آندھی کو نہ دیکھ پائی جو ان کی ناک کے نیچے پنپ کر ایک طاقتور تجارتی اور فوجی طاقت بن رہی تھی اور وہ تھی ایسٹ انڈیا کمپنی!
ایسٹ انڈیا کمپنی کا اصل نام "گورنر اور لندن کے تاجروں کی کمپنی برائے تجارت" تھا۔ یہ1600ء میں لندن میں وجود میں آئی۔ اس کا برصغیر سے تجارت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ برصغیر اس اجازت نامہ میں درج نہ تھا جس کے تحت اس کمپنی کو ایسٹ انڈینز سے تجارت کرنے کا چارٹر ملا تھا۔ مگر سازگار حالات اور ہمارے حکمرانوں کے ذہنی اور فکری تساہل نے برصغیر کو ان کے قدموں کی دھول بنا دیا۔ یہ کمپنی چائے، نمک، کاٹن سے لے کر افیون تک کی تجارت کرتی تھی۔ اس کا واحد منشور پیسہ کمانا تھا۔
ان کے نزدیک جائز اور ناجائز ذرایع آمدنی میں قطعاً کوئی فرق نہیں تھا۔ کالی مرچ کی تجارت پر ہالینڈ کی کمپنی کا کنٹرول تھا۔ برطانوی تاجر ڈچ کمپنی سے شدید مقابلہ میں تھے۔ برطانوی کمپنی نے "سورت" کے مقام پر اپنے تجارتی بحری جہاز کھڑے کرنے شروع کیے۔ اس وقت تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ یہ بہت تھوڑے عرصے میں پورے برصغیر پر حکومت قائم کر لینگے۔ اس ادارے کے چوبیس ڈائریکٹر اور ایک گورنر تھا جو تمام لندن میں بیٹھے تھے۔ ڈچ اور پرتگالی کمپنیوں سے دشمنی نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک فوج بنانے کا جواز دیا۔
برصغیر کی بدقسمتی کا آغاز ایک معصوم طریقے سے شروع ہوا۔1612ء میں تھامس مور مغل بادشاہ جہانگیر کے دربار میں پیش ہوا۔ جہانگیر نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ کیا۔ یہ دستاویز پڑھنے کے قابل ہے کیونکہ اس معاہدہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ماضی کے حاکم بالکل آج کی طرح اپنی ناک سے آگے دیکھنے میں قاصر تھے۔ جہانگیر کو بالکل اندازہ نہ ہوا کہ اس نے اپنی حکومت کو کتنے بڑے طوفان کے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔ میں اس معاہدہ کی چند شقیں آپکے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ کمپنی اور برطانیہ کے تمام تاجروں کو برصغیر کی ہر بندرگاہ کو استعمال کرنے کی غیر مشروط اجازت دے دی گئی۔ انکو پورے برصغیر میں کسی بھی مقام پر رہنے کی آزادی بھی دی گئی۔
یہ بھی لکھا گیا اس کمپنی کے دشمن (پرتگال) یا کسی اور طاقت کو انھیں نقصان نہیں پہنچانے دیا جائے گا۔ کمپنی کے تاجر پورے برصغیر میں کسی بھی مقام پر خرید و فروخت کرنے کے لیے آزاد ہونگے۔ آخری شرمناک نکتہ یہ تھا کہ اس دوستی اور محبت کے عوض ادارے کے جہاز بادشاہ کے محل کے لیے جو بھی نوادرات اور امیرانہ تحفے لائینگے، انکو خوشی سے قبول کیا جائے گا۔ ہاں ایک اور اہم شرط یہ بھی تھی کہ یہ تمام مراعات صرف ایسٹ انڈیا کمپنی کو حاصل ہونگی اور اس کے علاوہ کسی کو بھی یہ حق نہیں دیا جائے گا۔ اس معاہدہ میں برصغیر کے عام آدمی کے خون چوسنے کی ہر شرط موجود تھی۔ اس کے عوض بادشاہ کے لیے صرف راحت اور فرحت کا سامان مہیا کرنا لازم تھا۔
لندن میں کمپنی کے ڈائریکٹرز کو جب اتنی بڑی خوشخبری سنائی گئی تو انھیں اس کامیابی پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ مگر یہ حقیقت تھی۔ بہت تھوڑے عرصے میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے سورت، مدارس، بمبئی اور کلکتہ میں فیکٹریاں تعمیر کر دیں۔1647ء تک ان کی 23 فیکٹریاں مختلف شہروں میں مکمل ہو چکی تھیں۔ ہر فیکٹری میں برصغیر سے نوے مقامی آدمیوں کو کام کرنے کی اجازت تھی۔ مگر ادارے کا منیجر جسے گورنر بھی کہا جاتا تھا، ہمیشہ انگریز ہوتا تھا۔ یہ تمام فیکٹریاں قلعہ کی مانند تھیں۔ مغل بادشاہوں کی عاقبت نااندیش عنایت اس حد تک بڑھ گئی کہ 1717ء میں کمپنی کے سامان اور مال پر ہر قسم کا ٹیکس بھی معاف کر دیا گیا۔ مگر لندن میں بیٹھے ہوئے بادشاہ اپنے تجارتی اداروں کے مالی مفاد کے معاملے میں بہت زیرک تھے۔
برصغیر میں کامیابی کا رجحان دیکھ کر چارلس دوم نے ایک حکم نامہ جاری کیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو زمین پر قبضہ کرنے، فوج رکھنے، بین الاقوامی معاہدے کرنے، جنگ اور امن کے لیے اقدامات کرنے کی مکمل آزادی دے دی گئی۔ حتی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو کرنسی چھاپنے کا اختیار بھی دے دیا گیا۔ اس کے علاوہ انکو اپنے مفتوحہ علاقوں پر فوجداری عملداری کا نایاب اختیار بھی عطا کر دیا گیا۔ اورنگ زیب عالمگیر نے بنیادی طور پر کمپنی پر اپنی دھاک اور برتری قائم رکھی ہوئی تھی۔ ایک برطانوی بحری قزاق ہنری ایوری نے اورنگ زیب کے خزانے کے بحری جہاز "فتح محمد" اور گنج سوائی کو لوٹ لیا تھا۔ اس خزانے کی مالیت چھ سے سات لاکھ برطانوی پائونڈ تھی۔ نتیجہ میں، اورنگ زیب نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی فیکٹریاں برباد کر ڈالیں۔
تاج برطانیہ نے ہنری ایوری کی سرکاری سطح پر مذمت کی اور مغل بادشاہ سے معافی مانگی۔ میں نواب سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کا ذکر بھی کرنا چاہوں گا جنہوں نے کمپنی کے بڑھتے ہوئے اثر کو محسوس کیا مگر قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ اس کے بعد اس تجارتی جن کے سامنے کوئی بھی نہ ٹھہر سکا۔ شاہ عالم ثانی نے کمپنی سے جنگ لڑی مگر وہ ہار گیا۔ اس کی آنکھیں نکال دی گئیں اور اسے مکمل طور پر رسوا کر دیا گیا۔ انگریز بہادر نے پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ آج آپ برطانیہ کے کسی لارڈ یا پرانی فیملی کی دولت کی بنیاد پر نظر ڈالیں تو وہ برصغیر کی لوٹ مار سے منسلک ہو گی۔ 1857ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو تاج برطانیہ نے قومی تحویل میں لے لیا۔
فکر انگیز بات یہ ہے کہ کیا مغل کمزور تھے یا ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجر طاقتور تھے۔ آپ قدرت کے قوانین پر دوبارہ نظر دوڑائیں۔ آپکو مسلمانوں کی سلطنت کے زوال کے ذمے دار عناصر سمجھ میں آ جائیں گے۔ ہمارا رویہ ہمارا سب سے بڑے دشمن تھا اور ہے۔ آپ آج کے معروضی حالات کا جائزہ لیجیے۔ آپ اپنے ملک کو دیکھیے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی ایک نئی اور جدید شکل آپکے سامنے بھیانک چہرہ لیے کھڑی ہوئی ہے۔ ہمارے ملک کے90 فیصد وسائل پر تیس سے چالیس لوگ قابض ہو چکے ہیں۔ اس بات کو کسی بھی جدید لفظ کا لبادہ پہنا دیں۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ ملکی دولت کے غیر فطری ارتکاز کے بعد چند لوگ کچھ دہائیوں سے ہمارے سیاسی، انتظامی اور نظام عدل پر قابض ہو چکے ہیں۔
کبھی یہ کھیل مارشل لاء کا نام لے کر کھیلا جاتا ہے اور کبھی جمہوریت کا لباس پہن کر۔ مقصد صرف ایک ہے کہ عام لوگوں کو بالواسطہ یا بلا واسطہ صرف ٹیکس دینے کے لیے زندہ رکھا جائے۔ انکو سانس لینے کی اجازت محض اسلیے ہے کہ انھوں نے بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے ہیں۔ پٹرول خریدنا ہے۔ وہ اشیائے خور و نوش خریدنے کے لیے مجبور ہوں۔ اب آپ اس تناظر میں پاکستان اور ہندوستان کے موجودہ تعلقات پر سنجیدگی سے نظر ڈالیے۔
ہندوستان میں چھ سو کے قریب تاجر پورے ملک کی کثیر دولت کے بلا شرکت غیرے مالک بن چکے ہیں۔ وہاں بھی ان تاجروں نے ایک اَن دیکھی ایسٹ انڈیا کمپنی کو وجود دیا ہے۔ انڈیا کے حالیہ الیکشن میں ان کے صنعتی شعبہ نے بی جے پی کا کھل کر ساتھ دیا ہے۔ پاکستان کے حالات بھی تقریباً یہی ہیں۔ دونوں ملکوں کے یہ چند سو لوگ ایک نیا نعرہ لگا رہے ہیں۔ وہ ہے، کہ تجارت سے امن قائم ہو گا۔ ترقی ہو گی اور ہمیں صرف باہمی تجارت ہی کی بدولت استحکام ملے گا۔
موجودہ پاکستانی ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس وہ تمام اختیارات موجود ہیں جو چارلس دوم نے اس وقت اپنی کمپنی کو دیے تھے۔ مگر جھگڑا صرف ایک اختیار نہ ہونے کا ہے۔ یہ لوگ اپنی فوج نہیں بنا سکتے! یہ صرف ایک جگہ بے بس ہیں کہ اس ملک کی فوج ان کی ابرو کے اشارہ پر اس طرح کام نہیں کرتی جسطرح بنگال میں تاجروں کی ذاتی فوج کرتی تھی! صرف اسی وجہ سے ہمارے ملک کی فوج کو ہر طرح سے کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے! میرے پاس غیب کا علم نہیں، مگر ہمارے ملک کی نظر نہ آنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کے مالک یہ بھول رہے ہیں کہ اگر ملکوں کے پاس فوجی طاقت نہ ہو تو دوسرے ملک کے تاجر ان کی آنکھیں نکال کر انھیں نابینا بنا دیتے ہیں! شائد نابینا شاہ عالم ثانی ہی ان کے لیے مشعل راہ بن جائے!