پٹرول کی قیمت میں اضافہ معیشت پر منفی اثرات

نئی حکومت تو دعوے کرتی تھی کہ مہنگائی کم کریں گے اور آمدن میں اضافہ کیا جائے گا لیکن یہاں سب کچھ الٹ دکھائی دے رہا ہے


Editorial April 02, 2024
نئی حکومت تو دعوے کرتی تھی کہ مہنگائی کم کریں گے اور آمدن میں اضافہ کیا جائے گا لیکن یہاں سب کچھ الٹ دکھائی دے رہا ہے۔ فوٹو: فائل

وفاقی حکومت نے اگلے پندرہ دنوں کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان کردیا ہے۔ پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 9 روپے 66 پیسے اضافہ کیا گیا ہے۔ پٹرول کی نئی قیمت 289 روپے 41 پیسے ہو گئی ہے۔ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں 3 روپے 32 پیسے کمی کی گئی ہے۔

نئی حکومت تو دعوے کرتی تھی کہ مہنگائی کم کریں گے اور آمدن میں اضافہ کیا جائے گا لیکن یہاں سب کچھ الٹ دکھائی دے رہا ہے۔ مہنگائی بڑھ گئی ہے اور آمدن میں اضافہ نہیں ہوا۔ پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے اشیائے خورونوش سمیت زندگی کی ہر ضرورت کی چیز مہنگی ہوجائے گی۔

پٹرول، بجلی اورگیس ان میں سے کسی ایک کی قیمت میں اضافہ ہو جائے تو مہنگائی سر چڑھ کر بولنے لگتی ہے۔ اب تو ایک نہیں دو نہیں بلکہ تینوں کی قیمت میں بیک وقت اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عوام کو مہنگائی کی کس شدت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دوسری جانب پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن نے پٹرول کی فروخت پر ایک بار پھر مارجن بڑھانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن نے وزارت خزانہ کو ارسال کردہ ایک خط میں بجلی کی قیمت، شرح سود اورکراچی انٹربینک آفرڈ ریٹ، لیبرکی لاگت، فرنچائز کی فیس میں اضافے کو مارجن بڑھانے کے مطالبے کا جواز بنایا ہے۔

خط میں ایرانی پٹرولیم مصنوعات کی یلغارکو بھی ڈیلرزکے نقصان کا سبب قرار دیا گیا۔ سیلز ٹیکس کی بحالی اور ڈیلرز مارجن بڑھائے جانے کی صورت میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ کا خدشہ ہے۔ اس سے قبل ستمبر 2023 میں بھی ڈیلرز نے مارجن میں فی لیٹر 7 روپے کا اضافہ کرایا تھا اور ڈیلرزکا مارجن 1.65 روپے سے بڑھ کر 8.65 روپے فی لیٹرکردیا گیا تھا۔ اس وقت غریب طبقے کی صورت حال قابلِ رحم ہے۔ اشیائے ضروریہ کے دام آسمانوں پر پہنچے ہوئے ہیں، وہیں بجلی اورگیس کی قیمتیں بھی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہیں۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا، رمضان المبارک کے آخری عشرے کا آغاز ہوچکا ہے، عیدالفطر نزدیک ہے۔ غریبوں کے لیے ماہ صیام میں مہنگائی ہولناک اذیت کی شکل اختیارکر لیتی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے کرایوں میں بھی ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے جو کہ غریب آدمی کے لیے مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ہی بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافے نے جہاں انڈسٹری کا پہیہ روک دیا ہے، وہیں صنعت کاروں، تاجروں، مزدوروں اور عام شہریوں کے لیے بجلی کے بلوں کی ادائیگی سب سے بڑا معاشی مسئلہ بن چکی ہے۔

قیمتوں میں اس اضافے نے نا صرف عام آدمی کو متاثر کیا ہے بلکہ ملک بھر میں کاروبار اور صنعتوں کو بھی متاثرکیا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا معیشت کے دیگر شعبوں پر بھی شدید اثر پڑا ہے۔ ٹرانسپورٹیشن کی صنعت اس اضافے سے شدید متاثر ہوئی ہے۔ سامان اور خدمات کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں،کیونکہ کاروباروں کو نقل و حمل کی اضافی لاگت برداشت کرنی پڑ رہی ہے۔ اس اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔

اس کی ایک بنیادی وجہ تیل کی عالمی منڈی میں قیمت میں اتار چڑھاؤ ہے، چونکہ پاکستان درآمدی تیل پر بہت زیادہ انحصارکرتا ہے، اس لیے بین الاقوامی منڈی میں کوئی بھی تبدیلی مقامی قیمتوں پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک اور عنصر جس نے اس اضافے میں اہم کردار ادا کیا ہے وہ ہے امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی۔ چونکہ تیل کی زیادہ تر درآمدات ڈالر میں ہوتی ہیں، روپے کی قدر میں کمی نے پاکستان کے لیے تیل کی درآمد کو مزید مہنگا کردیا ہے۔

حکومت نے پٹرول پر اضافی ٹیکس بھی لگا دیا ہے جس سے صارفین پر مزید بوجھ پڑگیا ہے۔ ٹیکسوں میں اضافے کے حکومتی فیصلے کا مقصد ریونیو پیدا کرنا تھا لیکن اس کی صورت میں عوام کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ آئی ایم ایف گردشی قرضے کی ادائیگی چاہتا ہے اور حکومت مجبور ہے کہ یہ پیسہ صارفین کی جیبوں سے نکلوائے ۔ پاکستان میں بجلی کا بل نہ ہوا جادو کی چھڑی ہوگئی، جسے گھما کر حکومت اپنے معاملات بھی چلا رہی ہے اور اب اُس نے مختلف محکمے بھی چلانے شروع کردیے ہیں۔ خواص جو حکمران ہیں یا اوپر سے نیچے تک حکمرانی کے مزے لے رہے ہیں انھیں تو ہر چیز مفت مل جاتی ہے۔

بجلی، گیس، پٹرول، مکان، نوکر چاکر سب سرکار کے خرچ پر، یعنی اُن کا بوجھ بھی عوام اٹھاتے ہیں۔ حکمران طبقات کی پالیسیوں کی بدولت پاکستان کے محنت کشوں اور کسانوں کی پیداکردہ دولت صرف مٹھی بھر اشرافیہ کی تجوریوں میں بھر چکی ہے، قرضوں کی ادائیگی کے لیے ایک بار پھر محنت کش عوام کی قربانی دیکر قرضے ادا کیے جارہے ہیں جب کہ ان قرضوں اور جاری معیشت سے پاکستان کی کل دولت کا اسی فیصد سے زائد صرف پانچ فیصد اشرافیہ کی ملکیت ہے۔

ارکان قومی وصوبائی اسمبلی وسینیٹ ممبران کو ماہانہ تقریبا ایک لاکھ 26 ہزار لیٹر پٹرول مفت دیا جاتا ہے اس کو فوری بندکیاجائے نیز ججز، بیوروکریسی کوبھی مفت پٹرول کی سہولت واپس لی جائے ۔مانا کہ پچھلے کچھ عرصے کے دوران عالمی منڈی میں تیل قیمتوں میں بڑھوتری دیکھنے میں آرہی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تمام تر بوجھ غریب عوام کے کاندھوں پر منتقل کردیا جائے۔ ہمیشہ یہی کیا جاتا ہے۔

حکومت پر جب کوئی بار آتا ہے تو وہ بنا سوچے سمجھے وہ تمام تر بوجھ غریب عوام کے کاندھوں پر لاد دیتی ہے۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ کب عوام کے دلدر دُور ہوں گے۔ اُن کے لیے تو پچھلے 5، 6 سال سنگین اور ڈراؤنے خواب کے مانند رہے ہیں، جس میں اُن سے صرف چھینا ہی گیا ہے۔ انھیں حکومتی سطح پر لوٹنے کی نظیر بہ مشکل تمام ہی دِکھائی دے گی۔ 2018سے اب تک کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو عوام پر ہوئے ظلم و ستم کی داستانوں کی طویل فہرست نظر آئے گی۔ 2018میں برسراقتدار آنے والوں سے قوم نے بہت سی توقعات وابستہ کرلی تھیں، کچھ ہی ماہ بعد عوام کے تمام ارمانوں پر اوس پڑگئی۔

یہ حکومت پیش روؤں سے بالکل مختلف ثابت ہوئی، جس کے دور میں بیانیوں پر اکتفا کیا گیا اور عملی اقدامات کی سطح پر خاموشی کا دور دورہ رہا۔ بڑے بڑے بیانات سننے میں آتے تھے کہ اب حقیقی تبدیلی آئے گی، عوام کے دن بدل جائیں گے اور وہ ترقی اور خوشحالی کے ثمرات سے فیض یاب ہوں گے۔

یہ باتیں محض دعوے ہی ثابت ہوئیں۔ اُلٹا غریبوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا گیا، ہر آنے والا دن اُن کے لیے کڑا امتحان ثابت ہوتا رہا۔ معیشت کو نامعلوم کس فارمولے کے تحت چلایا گیا کہ اُس کا پہیہ جام ہوکر رہ گیا۔ گو کورونا وائرس کے بھی کچھ اثرات ضرور ظاہر ہوئے، لیکن قدرت کے فضل و کرم سے وطن عزیز اس عالمی وبا کے اُن تباہ کُن اثرات سے محفوظ رہا، جو دوسرے ممالک میں دیکھنے میں آئے تھے۔ اس دوران بڑے پیمانے پر نہ سہی، یہاں کاروباری سرگرمیاں جاری رہیں۔

ناقص اقدامات کے باعث پاکستانی روپیہ بے توقیری سے دوچار ہوا، یوں مہنگائی کے ہولناک نشتر قوم پر برستے رہے، غریب سب سے زیادہ متاثر ہوئے، متوسط طبقہ غربت کی نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوا۔بہت سے بڑے بڑے اداروں کو اپنے کاروبار محدود کرنے پڑے، جس کے باعث لاکھوں لوگوں کو بے روزگاری کا عذاب جھیلنا پڑا۔ لوگوں کے برسہا برس سے جمے چھوٹے کاروبار تباہ ہوکر رہ گئے۔

اسی طرح ملک کی اولین 70سالہ تاریخ میں اتنے قرضے نہیں لیے گئے، جتنے چار سالہ دور میں بیرونی اداروں سے حاصل کیے گئے۔ حالات اس حد تک سنگین ہوچکے تھے کہ ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر آپہنچا۔ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت قائم ہوئی، جس نے پہلے راست اقدامات یقینی بناتے ہوئے اس خطرے کو ٹالا۔ پھر نگراں حکومت نے احسن اقدامات یقینی بنائے، جس سے پاکستانی روپے کے استحکام کی راہ ہموار ہوئی۔

اشیائے ضروریہ کے داموں میں زیادہ نہ سہی، کچھ کمی ضرور واقع ہوئی۔ یہ سب ڈالر، سونا، چینی، گندم، کھاد اور دیگر اشیاء کے اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کیے جانے والے مسلسل کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ممکن ہوا جب کہ غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو ان کے ملکوں کو واپس بھیجنے کے فیصلے کے بھی مثبت اثرات ظاہر ہورہے ہیں۔

لاکھوں غیر قانونی پناہ گزین اپنے ممالک کو واپس جاچکے ہیں۔ پٹرول کی قیمت میں اضافہ کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا، اسے واپس لینے کی ضرورت ہے۔ قوم پہلے ہی مہنگائی کے عفریت سے بُری طرح پریشان ہے۔ نومنتخب وفاقی حکومت کو ملک و قوم کو درپیش مشکلات کے حل کے لیے راست اقدامات یقینی بنانے ہوں گے۔

شفافیت پر مبنی اقدامات کرنے ہوں گے۔ نیک نیتی کے ساتھ ملک و قوم کی ترقی اور خوش حالی کے لیے کوششیں کرنی ہوں گی۔ ضروری ہے کہ ڈالر کے نرخ پُرانی سطح پر واپس لائے جائیں۔ مہنگائی کی شرح میں بڑی کمی یقینی بنائی جائے۔ روزگار کے مواقع کشید کیے جائیں۔ غریبوں کی اشک شوئی کا لازمی بندوبست کیا جائے۔ گرانی کو دعوت دینے والے اقدامات سے گریزکیا جائے۔ قرضوں کے بجائے ملکی وسائل سے مسائل کو حل کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں