لیڈی ریڈنگ اسپتال کے 100 سال
پشاور کا تاریخی اسپتال لاکھوں افراد کے لیے حفظان صحت کا مرکز رہا ہے
لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور کے قیام کو سو برس مکمل ہونے والے ہیں۔ ایلس ایڈتھ آئزکس (لیڈی ریڈنگ) نے، جو ہندوستان کے وائسرائے روفس آئزکس کی پہلی بیوی تھی، 1924ء میں اس اسپتال کی بنیاد رکھی۔ تعمیر کا کام 1927ء میں مکمل کر لیا گیا۔ اس تعمیری حصے کو اب بولٹن بلاک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسپتال میں توسیع کی گئی جو اب 200 کنال پر مشتمل ہے۔
اپنے قیام کے بعد سے لیڈی ریڈنگ اسپتال خطے کے لاکھوں افراد کے لیے حفظان صحت کا مرکز رہا ہے۔ گذشتہ دہائی میں جب یہاں دہشت گردی عروج پر تھی تو یہی فرنٹ لائن اسپتال تھا اور بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے زخمیوں کو یہیں سے طبی امداد فراہم کی جاتی تھی۔ لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ترجمان محمد عاصم کے مطابق، ''1927ء میں بننے والے جرنیلی اسپتال سے مشہور یہ اسپتال آج بھی خیبر پختون خوا کے مختلف اضلاع کے دوردراز علاقوں اور افغانستان سے کافی تعداد میں آنے والے لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔
1927ء میں جب اس اسپتال کا تعمیراتی کام مکمل ہوا تو اس وقت اس کے بولٹن ہال میں 150 بستروں کی گنجائش تھی، آج یہاں 18 سو بیڈز کی سہولت موجود ہے۔ اسپتال میں آرتھوپیڈک، سرجری یونٹ، گائنی، پیڈز اور صوبے کا واحد نیورو سرجری یونٹ کام کر رہا ہے جہاں روزانہ تقریباً چھ ہزار مریض آتے ہیں۔'' ترجمان کے مطابق 2020ء میں نئی عمارت، 500 مزید بیڈز اور جدید مشینری کا اضافہ ہوا جس کے بعد اسپتال میں 25 آپریشن تھیٹرز، انٹرنیشنل ریڈیالوجی اور جدید دور کی دیگر تمام طبی سہولیات موجود ہیں۔
بنیادی طور ایل آر ایچ کو انتظامی حوالے سے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے نمبر پر ڈین کا عہدہ آتا ہے جو ایکٹ کے مطابق تمام تر ٹیچنگ ٹریننگ، انسپیکشن اور تمام یونٹس کے اکیڈمک سرگرمیوں کا سربراہ ہوتا ہے، ڈاکٹروں کی ٹریننگ اور کیپیسٹی بلڈنگ پر نظر رکھتا ہے اورہمہ وقت جدید تربیت کی فراہمی، نئے علم اور ٹیکنالوجی سے ڈاکٹروں کو آگاہ رکھتا ہے۔
اسی طرح میڈیکل ڈائریکٹر کی بہت اہم ذمہ داری ہوتی ہے، وہ اسپتال میں ہرآنے والے اور داخل مریضوں کی 'کلینیکل کیئر' یعنی علاج معالجے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اسپتال کا ہر یونٹ اور ہر ڈاکٹر، میڈیکل ڈائریکٹر کو جواب دہ ہوتا ہے، مریضوں کو بہتر طبی امداد میں ایم ڈی کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔
اسپتال ڈائریکٹر ایل آر ایچ کا انتظامی ہیڈ ہوتا ہے جو کہ ڈین اور ایم ڈی آفس کو ہر قسم کی سپورٹ اور افرادی قوت مہیا کرتا ہے۔ تمام انتظامی امور جس میں ایچ آر، فارمیسی، میٹریل مینجمنٹ، ان پیشنٹ، ہاؤس کیپنگ، سیکیورٹی، میڈیا ،کوالٹی انشورنس، نرسنگ، آئی ٹی، بائیو میڈیکل، انجینیئر ورک، الیکٹرک وغیرہ جیسے شعبہ جات ہاسپٹل ڈائریکٹر کو رپورٹ کرتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ ہاسپٹل ڈائریکٹر اسپتال کے انتظامی شعبوں کی نگرانی کرتا ہے۔
اس وقت لیڈی ریڈنگ اسپتال 32 سپشیلٹیز، 12 بڑے آپریشن تھیٹرز جب کہ 5 آئی سی یو اور 1800 بیڈز پر مشتمل خیبرپختون خوا کاسب سے بڑا اسپتال ہے۔ اگردیکھا جائے تو ایل آر ایچ کی او پی ڈی میں روزانہ کی بنیاد پر تین سے چار ہزار جب کہ ایمرجنسی میںتین ہزار مریضوںکا معائنہ کیا جاتا ہے۔ ایل آر ایچ کا ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ جدید ترین طبی سہولیات سے آراستہ ہے۔ بین الاقوامی معیارکی حامل ایمرجنسی میں 300 تک بیڈز ہیں جو کسی بھی ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کے لئے تمام طبی سہولیات سمیت مختلف آپریشن کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس تاریخی اسپتال میں صوبے کا سب سے بڑا گائنی ڈیپارٹمنٹ ہے جہاں روزانہ 50 سے 70 بچوں کی پیدائش ہوتی ہیں اور کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں تمام بیک اپ رکھنے کی صلاحیت اس میں موجود ہے، جیسے بڑے آپریشن، آکسیجن کی فراہمی یا آئی سی یو جیسی سہولت بر وقت فراہم کی جاتی ہے۔
ایل آر ایچ 'میڈ سرج بلڈنگ' جدید طرز و طبی سہولیات سے آراستہ ہے۔ یہ 500 بیڈز، 18 آئی سی یو بیڈز،9 سپیشلیٹز، 25 او آر ایس اور دو بڑے پبلک کیفیٹیریا پر مشتمل ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے میڈ سرج میں بم دھماکوں، ڈرون اور بارودی سرنگ کے زخمیوں کے لئے الگ ریکوری روم مختص کیا گیا ہے جہاں ان زخمیوں کو مکمل صحت یابی تک رکھا جاتا ہے۔ ایل آر ایچ پیڈز اور 'پیڈکارڈیک وارڈ' 58 بیڈز پر مشتمل ہے۔ امسال دو لاکھ تک بچوں کو ایمرجنسی طبی امداد فراہم کی گئی جب کہ تقریباً ایک لاکھ مختلف آپریشن کئے گئے۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال صوبے کا وہ واحد اسپتال ہے جہاں ہر سال 20 لاکھ سے زائد مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ ایل آر ایچ نے کورونا وائرس کے دنوں میں اہم کردار ادا کیا، شاید ہی کوئی اسپتال ہو جس نے کورونا کے لاکھوں مریضوں کا علاج کیا ہو، یہاں کورونا کے لیے الگ وارڈ مختص کیا گیا جس میں بر وقت مفت طبی سہولیات مہیا کی گئیں۔
یہ ہسپتال ہر قسم کی جدید مشینری آلات سے آراستہ ہے یہاں جدید ایکس رے، سٹی سکین، ایم آر آئی، الٹرا ساؤنڈ مشین موجود ہے، جس کے لیے الگ الگ ماہر عملہ 24 گھنٹے اپنے فرائض سر انجام دیتا ہے۔ لیڈی ریڈنگ اسپتال کی لیبارٹری بین الاقوامی معیار کی جدید ترین لیبارٹری ہے جہاں ہر قسم کے ٹیسٹ بہت ہی کم قیمت پر بلاتعطل چوبیس گھنٹے کیے جاتے ہیں۔ ایل آر ایچ کا شمار ان اسپتالوں میں ہوتاہے جہاں سب سے زیادہ پی ایچ ڈی ہولڈرز عملہ موجود ہے۔ اسپتال میں تقریباً پانچ ہزار عملہ کام کرتا ہے جس میں ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈکس، سپورٹ سٹاف سمیت انتظامی افسران شامل ہیں۔
350 کے قریب دھماکوں، ڈرون حملوں اوربارودی سرنگ جیسے سانحات کا واحد مسیحا ایل آر ایچ دہشت گردی سے متاثرہ صوبے کے لاکھوں لوگوں کے لئے سہارا بنا۔ دنیا میں چند ایک ہی اسپتال ہوں گے جہنوں نے اتنی 'ماس ایمرجنسی' کا سامنا کیا ہوگا۔ لیڈی ریڈنگ اسپتال نے صوبے میں دہشت گردی اور بدامنی کے دور میں تقریباً 350 کے قریب دھماکے، ڈرون اور بارودی سرنگ سے متاثرہ لوگوں کو ہر قسم کی طبی سہولیات دیں۔ 2009ء میں پشاور مینا بازار میں کیا گیا بم دھماکہ اور2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر کیا گیا دہشت گردوں کا حملہ جو سب سے بڑے سانحوں میں شمار ہوتے ہیں، سیکڑوں کی تعداد میں زخمیوں کو بہت ہی سیریس حالت میں لیڈی ریڈنگ اسپتال لایا گیا اور اسپتال کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ طبی عملے نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
صوبے کا سب سے بڑا اسپتال ہونے کی وجہ سے یہ نہ صرف پشاور اور اس سے ملحقہ علاقوں کو فوری طبی امداد مہیا کرتا ہے جب کہ یہاں باجوڑ سے لے کر وزیرستان، چترال سے لے کر کرم، یہاں تک کہ مردان اور چارسدہ میں بھی کوئی سانحہ ہوتا ہے تو ایل آر ایچ ہی میں زخمیوں کو لایا جاتا ہے اور اسپتال کے دروازے ہر قسم کی طبی سہولت دینے کے لئے کھلے رہتے ہیں۔ پڑوسی ملک افغانستان سے بھی تشویشناک حالت میں مریضوں کو لایا جاتا ہے۔ ان کا بھی اس طرح سے علاج ہوتا ہے جس طرح اپنے ملک یا صوبے کے لوگوں کا کیا جاتا ہے۔ اسپتال کے طبی عملے نے بھی ان مشکل حالات میں بھر پور ساتھ دیا اور جب حکومت یا اسپتال انتظامیہ کی جانب سے ان کی چھٹیاں منسوخ ہوئیں وہ بغیر تاخیر کے وقت پر اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے رہے۔ دن رات زخمیوں کا علاج کیا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایم ٹی آئی ریفارمز کے بعد ایل آر ایچ کی شکل ہی بدل گئی، جدید مشینری اور ہر قسم کے آلات کی خریداری کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک سے پاکستانی ڈاکٹروں نے اسپتال کو جوائن کیا جن میں ماہر سرجنز اوردوسرے ڈاکٹرز شامل ہیں۔
اب نرسز کی تعداد بھی دگنی کر دی گئی ہے جب کہ دیگر اہم ڈیپارٹمنٹس میں تعیناتیاں کی گئیں جس سے مریضوں کو فائدہ مل رہا ہے۔ انتظامی سہولت اور جدید علاج کے حوالے سے ایل آر ایچ کا شمار پاکستان کے بڑے اور اچھے اسپتالوں میں ہوتا ہے۔
صوبے پر جب بھی کوئی برا وقت آیا، ایل آر ایچ کا عملہ متاثرین کی بھرپور مدد کرتا ہے، اس لئے اسے ''سب سے پرانا، بڑا اور سب سے اچھا اسپتال'' کہا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبے کے سب سے بڑے اسپتال، یعنی مریضوں کی سب سے بڑی امید پر خاص نظر کرم رکھی جائے۔ اس اسپتال کو سیاست سے بالاتر رکھ کر ضروری فنڈز بلا تعطل فراہم کیے جائیں کیونکہ جب مریض کو صوبے کے سب سے بڑے اسپتال میں علاج فراہم نہیں کیا جائے گا تو مریض جائے گا کہاں؟