دو بدو … مگر کب تک

ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی کو کئی احباب بار بار 1970 کے الیکشن کے زمانے سے تشبیہ دیتے ہیں



خلقت شہر کا عمومی مزاج ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ اسے روز نت نئے تماشے کی طلب رہتی ہے۔ تماشا اس کا بنے یا اس کا ، اس سے خاص فرق نہیں پڑتا لیکن تماشا ضرور ہو۔ بقول احمد فراز:

ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے

خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے

سیاسی میدان میں گزشتہ کئی سالوں سے اس قدر رزم آرائی رہی ہے کہ تماشوں کا تسلسل کبھی ٹوٹا ہی نہیں۔ بلکہ گزشتہ دو اڑھائی سال سے تو یہ سلسلہ جیسے ٹربو چارج ہو گیا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے بعد پی ڈی ایم کا دور بھی کچھ کم دلچسپ نہ تھا۔

الیکشن کی آمد ، انعقاد اور ما بعد الیکشن بھی یہ سلسلہ کہیں نہیں ٹوٹا۔ تازہ ترین ہنگامہ خیز واقعہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کا خط، اس پر سپریم کورٹ فل کورٹ اجلاس، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی وزیراعظم سے ملاقات اور حکومت کا ایک انکوائری کمیشن بنانے کا فیصلہ۔ خلقت شہر اپنی اپنی مرضی کے مطابق ہر نئے تماشے کو اپنانے میں کوتاہی نہیں کرتی لیکن خلقت شہر کے ایک خاصے بڑے حصے پر اب تھکن کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں یعنی fatigue۔ تاہم جن کی توانائی اور طلب جواں ہے، ان کا عالم یہ ہے:

دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جان فراز

مل گئے تم بھی تو کیا اور نہ جانے مانگے

ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی کو کئی احباب بار بار 1970 کے الیکشن کے زمانے سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اس زمانے میں علیحدہ ہونے والے مشرقی پاکستان کے معروف ترین لیڈران سیاسی رزم آرائی کو کس نظر سے دیکھتے، اس رزم آرائی میں لازمی کسی کی جیت اور ہار پر ایک یا دونوں فریقوں کے اصرار نے حالات کو کہاں لا کھڑا کیا؟ سیاسی محاذ آرائی کے ہنگام مشرقی پاکستان کے لیڈرز کے نزدیک اس وقت پاکستان کے اہم ترین مسائل کیا تھے؟ اس کھوج میں معروف صحافی محمود شام کی کتاب رو برو ( پبلشر قلم فاونڈیشن لاہور) کو کھنگالنے کا موقع ملا۔ ان کے سوالوں کے جواب حیرت انگیز تھے۔ مزید حیرت یہ ہوئی کہ آج کی سیاسی محاذ آرائی میں بھی بنیادی مسائل تقریباً وہی ہیں۔

مولانا عبد الحمید بھاشانی مشرقی پاکستان کے معروف ترین لیڈرز میں سے ایک تھے۔ 1969 میں لیے گئے اس انٹرویو کے وقت ان کی عمر 87 برس تھی جس میں سے 29 سال جیل کی نذر ہوئے۔

سوال کیا گیا اپ کے نزدیک پاکستان کا مسئلہ نمبر ایک کیا ہے؟ مولانا نے جواب دیا اس وقت سب سے اہم مسئلہ وہ قحط ہے جو مشرقی پاکستان میں پڑ چکا ہے اور مزید پڑنے والا ہے۔

عام آدمی کو اپنی خوراک کا ایک چوتھائی بھی مشکل سے مل رہا ہے۔ خوراک کا مسئلہ اس وقت سب سے اہم ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ انتخاب کے لیے آئینی بنیاد کی فراہمی ہے۔ہم الیکشن چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں کہ اس دوران قحط سے لاکھوں ہم وطنوں کی جانیں چلی جائیں۔ کہنے لگے کہ ملک پر بیوروکریسی کی مضبوط گرفت وغیرہ کچھ نہیں، وہ لوگ بھی اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ وہ مضبوط نہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ جڑ مضبوط نہیں تو درخت کیسے مضبوط ہوگا۔جڑ مزدور اور کسان ہے، وہ روز بروز کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔

فضل القادر چوہدری مشرقی پاکستان کے ایک اور نمایاں سیاسی لیڈر تھے۔ سوال کیا گیا (1969 میں انٹرویو )کہ پاکستان کا مسئلہ نمبر ایک کیا ہے جواب ملا قومی یکجہتی! اور اس کے بعد وہ خاموش ہو گئے۔

پوچھا گیا یہ قومی یکجہتی کیسے حاصل ہو؟ کہنے لگے تاریخ عالم اس بات کی شاہد ہے کہ ہوس پرست سامراجی طاقتوں نے پہلے ثقافتی میدان میں فتح حاصل کی اور اس کے بعد وہ جغرافیائی تسخیر میں کامیاب ہوئے۔ آیندہ جو کوئی بھی برسراقتدار آئے، اسے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ثقافت اور تمدن نہایت اہم میدان ہیں۔ ہماری ثقافت اور تہذیب کی دوسری ثقافتوں سے شدید جنگ جاری ہے۔ یہ لڑائی ہم نے ہاری نہیں ہے لیکن تاخیر بہت ہو چکی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں