عدلیہ کی آزادی جمہوریت کی بقا
سپریم کورٹ کے جونیئر جج سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس مقرر کیا گیا
عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کی ذمے داری چیف جسٹس آف پاکستان اور چھ ججوں پر منتقل ہوگئی ہے۔ تین سو کے قریب وکلاء جن میں جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی کے صاحبزادے بھی شامل تھے چیف جسٹس کو اس معاملہ کا ازخود نوٹس لینے کی عرضداشت جمع کروانے کے بعد تصدق جیلانی نے کمیشن سے دستبرداری کا فیصلہ کیا ۔
اب امید ہے کہ اسلا م آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو ہراساں کرنے والے عناصر کا سدِباب ہوجائے گا۔ مگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی عدالتی امور میں ایگزیکٹو کی مداخلت برداشت نہ کرنے کے عزم اور فیض آباد دھرنا کیس کے پیراگراف 53 کے تحت قانون سازی کے لیے وزیر اعظم کی توجہ مبذول کرانا اس معاملے کے انتہائی اہم نکات ہیں۔
گزشتہ 76 برسوں کے دوران انتظامیہ نے عدلیہ کو بار بار ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں جدید نظام انصاف کی بنیاد پڑی۔ انگریز سرکار نے اس بیانیہ کو تخلیق کیا کہ ان کی عدالتیں ہر فرد کو انصاف فراہم کرتی ہیں مگر تاریخ کے جائزے سے ثابت ہوتا ہے کہ انگریزوں کی عدالتوں نے ہندوستانیوں کے آپس کے تضادات میں تو انصاف فراہم کیا مگر جن حریت پسندوں نے بنیادی انسانی حقوق اور آزادی کے لیے انصاف حاصل کرنے کی جرات کی وہ سزاوار ہوئے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی اصلاحات سے عظیم ریفارمر راجہ رام موہن رائے خاصے متاثر تھے۔
انھوں نے اخبارات کے ذریعے سماجی بیداری کا فریضہ انجام دیا مگر جب کمپنی کی حکومت نے اخبارات کی اشاعت کے لیے پرمٹ کا قانون نافذ کیا اور اخبارات پر سنسر عائد کیا گیا تو راجہ صاحب نے کلکتہ کی سپریم کورٹ اور برطانیہ کی سب سے بڑی عدالت کے دروازے کھٹکھٹائے مگر انصاف نہ ملا۔ گزشتہ صدی کے حریت پسند بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی زندگی بچانے کے لیے بیرسٹر محمد علی جناح، پنڈت جواہر لعل نہرو سمیت بہت سے لوگوں نے آوازیں بلند کیں مگر انگریز حکومت نے یہ اپیلیں مسترد کردیں۔
انگریز حکومت نے انڈین سول سروس کے اراکین کو عدلیہ میں تقررکرنا شروع کیا، یوں مخصوص بیوروکریٹک اپروچ کے حامل افراد کو جج مقرر کیاگیا، یوں ہندوستان کے بٹوارہ کے بعد انگریزوں کی تربیت یافتہ بیوروکریسی نے نئے ملک کا نظام سنبھال لیا۔ اس بیوروکریسی میں چوہدری محمد علی ، غلام محمد اور اسکندر مرزا جیسے لوگ بھی تھے جن کے ذہن میں عدلیہ اور اخبارات کی آزادی اور انسانی حقوق کے تحفظ کا تصور ہی نہیں تھا۔
جب پہلے چیف جسٹس جسٹس عبدالرشید ریٹائر ہوئے تو اس وقت بنگال سے تعلق رکھنے والے جسٹس اکرم سینئر ترین جج تھے مگر اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے ایک بنگالی جج کو چیف جسٹس مقرر کرنے سے انکار کیا اور برطانیہ کی حکومت کو خط بھیج دیا کہ کسی انگریز جج کو اس عہدے پر تعینات کرنے کے لیے نامزد کیا جائے۔ جسٹس اکرم کسی انگریز جج کی اطاعت قبول کرنے کو تیار نہیں تھے، وہ اہم ترین عہدے سے دستبردار ہوئے۔
غلام محمد نے ایک جونیئر جج جسٹس منیر کو چیف جسٹس مقرر کیا۔ جسٹس منیر نے عدلیہ کی تاریخ میں سب سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کی منشاء کے مطابق فیصلے کرنے کی روایت ڈالی، یوں آئین ساز اسمبلی توڑنے کے گورنر جنرل غلام محمد کے فیصلے اور پھر جنرل ایوب خان کے اقتدار سنبھالنے کے فیصلوں کو قانونی جواز فراہم کیا گیا، یوں عدلیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے فیصلوں کی بنیاد پڑ گئی۔
مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس رستم کیانی نے ایوب خان کے مارشل لاء کے قوانین سے متاثر ہونے والے افراد کی دادرسی کی۔ ان پر ہرقسم کا دباؤ ڈالا۔ ان کی کردار کشی کی مہم چلائی گئی مگر جسٹس کیانی کے عزائم متاثر نہ ہوئے البتہ انھیں جسٹس منیر نے سزا کے طور پر سپریم کورٹ نہیں بھیجا۔ ایوب خان کے دور میں عدلیہ پر مکمل طور پر گھیراؤ جاری رکھا گیا۔ جب جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاء لگایا تو جسٹس حمود الرحمن چیف جسٹس تھے۔
انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جیلانی کے والد ملک غلام جیلانی بنگال کے حق میں آواز بلند کی تو ملک غلام جیلانی کو مارشل لاء قوانین کے تحت نظربند کردیا گیا۔
ملک غلام جیلانی کی صاحبزادی عاصمہ جیلانی نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا۔ جسٹس حمود الرحمن کی عدالت میں مقدمے کی سماعت ہوئی مگر معزز جج صاحبان نے کئی مہینے تک مقدمہ کی سماعت کی اور جب یحییٰ خان کی حکومت ختم ہوئی تو پھر سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلے میں مارشل لاء کے نفاذ کو غیر آئینی قرار دیا مگر بھٹو دور میں عدالتوں کوریگولیٹ کرنے کی روایت برقرار رہی۔ ججوں کے تقرر اور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں اور چیف جسٹس کے تقرر کے لیے جونیئر ججوں کا تقرر معمول بن گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے ججوں کو ہائی کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔ جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تو مارشل لاء کورٹ قائم ہوئیں۔
سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے سابقہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو عدالتی قتل قرار دیا اور اپنے فیصلہ میں لکھا کہ سپریم کورٹ میںبھٹو صاحب کے خلاف فیصلہ عدالتی قتل تھا۔
اب جنرل ضیاء الحق کے دور میں ججوں کی نگرانی شروع ہوئی 'اسی تناظر میں ان ججوں کو پی سی او کے تحت برطرف کیا جو مارشل لاء عدالتوں کے خلاف فیصلے دیتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے سیاست دانوں کے احتساب کے لیے قائم کی گئی عدالتوں میں ہائی کورٹ کے ججوں کے ساتھ فوجی افسروں کو بھی تعینات کیا تھا ،مگر جمہوری حکومتوں نے بھی عدلیہ کی آزادی کے تصور کو تقویت نہیں دی۔
سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دورِ اقتدار میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت چاروں صوبوں کے چیف جسٹس عارضی تھے۔ سپریم کورٹ نے جسٹس اسلم زاہد کو سندھ ہائی کورٹ سے ہٹا کر وفاقی شریعت کورٹ کا جج مقرر کردیا تھا۔ جسٹس اسلم زاہد نے ایک دفعہ کہا تھا کہ وہ شریعت کورٹ میں کئی ماہ تک خالی بیٹھے رہے۔
سپریم کورٹ کے جونیئر جج سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے 1996 میں الجہاد ٹرسٹ کیس میں ایک معرکتہ الآراء فیصلہ دیا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر سینیارٹی کی بنیاد پر ہوگا اور اب صوبوں کے چیف جسٹس صوبوں کے قائم مقام گورنر کے فرائض انجام نہیں دیں گے مگر جنرل پرویز مشرف نے عبوری آئینی حکم (P.C.O) نافذ کر کے کئی ججوں کو ریٹائر کردیا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے وکلاء نے تاریخی تحریک چلائی۔ اس تحریک کے نتیجے میں چیف جسٹس افتخار چوہدری اپنے عہدہ پر بحال ہوئے اور پرویز مشرف کو اقتدار چھوڑنا پڑا مگر پھر افتخار چوہدری نے اسٹیبلشمنٹ کا ایجنڈا سنبھال لیا۔
پاناما کیس میں پھر عدالتیں ریگولیٹ ہوئیں۔ میاں نواز شریف نااہل قرار پائے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سول اسپتال کوئٹہ خودکش حملہ اور فیض آباد دھرنا کیس میں تاریخی فیصلے دیے تھے۔ وکلاء تنظیموں کے علاوہ انسانی حقوق اور صحافیوں کی تنظیموں نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی مکمل حمایت کی اور وہ فتحیاب ہوئے۔
شوکت عزیز صدیقی کو ڈکٹیشن قبول نہ کرنے پر برطرف کیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کے فیصلہ کے پیراگراف 53 میں خفیہ ایجنسیوں کی حدود کے تعین کے لیے قانون سازی پر زور دیا تھا۔ امید ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی شکایت کی سماعت کرنے والا بنچ ان فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو اس ضمن میں قانون سازی کی ہدایت کرے گی۔ جمہوری نظام کی بقا آزادئ صحافت اور آزاد عدلیہ میں ہی ممکن ہے مگر ان اہداف کا حصول تمام سیاسی جماعتوں، پیشہ وارانہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مشترکہ جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔