امت کو جگانے کے لیے امام الھراوی چاہیے
آخری عشرہ ہے، خیروبرکت اور رحمت ومغفرت کا سامان اِس میں موجود ہے
ماہ رمضان کا آخری عشرہ تیزی سے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ '' جس شخص کو رمضان المبارک کا مہینہ میسر آیا اور اس نے عبادت کے ذریعہ اِس ماہ میں اپنی مغفرت کا سامان نہ کیا وہ بہت گھاٹے میں ہے''۔
اِس لیے جس نے اِس ماہ مبارک کی قدر کر لی اس کے لیے صرف ایک سال کا نہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے توشہ جمع ہوگیا لیکن انسانی فطرت ہے کہ جو نعمت میسر ہو اس کی قدر نہیں ہوتی۔ اِس لیے ایک دوسرے کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے تاکہ کہنے والا اور سننے والا دونوں اِس نعمتِ عظمیٰ کے باقی لمحات کی قدر کر لیں۔
آخری عشرہ ہے، خیروبرکت اور رحمت ومغفرت کا سامان اِس میں موجود ہے۔ جس کی پانچ طاق راتوں میں ایک یقیناً لیلۃ القدر ہے۔ آئیں سب ان طاق راتوں میں پاکستان، عالم اسلام اور پوری دنیا کے لیے دعا کریں۔ خاص طور پر ارض مقدس فلسطین کو اپنی دعاؤں میں ایک لمحے کے لیے بھی نہ بھولیں۔
یہود نے نصریٰ کی آشیرباد سے ارض مقدس میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے تاریخ اس کی مثال دینے سے قاصر ہے۔ یہ ظلم و بربریت رمضان کے مہینے میں بھی بند نہیں ہوا۔ ہم تو بڑے مزے سے اپنے بچوں اور اہل خانہ کے ساتھ بڑے اہتمام سے سحری و افطاری کرتے ہیں، پرسکون ماحول اور بابرکت مہینے میں فرائض و نوافل ادا کررہے ہیں، گھر خوشحال اور مساجد آباد ہیں، لیکن اہل فلسطین کی مساجد محفوظ اور نہ گھر۔ گھر یہودی طیاروں کی بمباری اور ٹینکوں کی گولہ باری سے ملبے کے ڈھیر بن چکے ہیں، تقریباً تمام مساجد شہید ہو چکی ہیں۔
اسپتال اور اسکول منہدم ہو چکے ہیں، روز پناہ گزین کیمپوں کو بمباری کا نشانہ بنایا جارہا ہے پورے غزہ میں کسی بھی فلسطینی کے لیے ایک انچ زمین کا ٹکڑا اور 24 گھنٹوں میں ایک سیکنڈ کا وقت محفوظ نہیں، اسرائیلی درندوں کی بمباری کب، کہاں اور کس وقت شروع ہوجائے کوئی پتہ نہیں، لیکن اس کے باوجود بہادر اور نڈر فلسطینی ملبے کے ڈھیروں کے اوپر اپنے بچوں کے خون اور اپنے آنسوؤں سے روزہ افطار اور سحری کرتے ہیں۔
مساجد کے ملبے پر پانچ وقت نمازوں اور تراویح کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ 24 گھنٹے فلسطینی مسلمان جام شہادت نوش کرنے اور اللہ رب العزت سے ملاقات کے لیے صبر و استقامت کے ساتھ تیار رہتے ہیں۔ چلتے پھرتے ذکر الہی میں مشغول اور اللہ کی بارگاہ میں حاضری کے لیے تیار رہتے ہیں مگر امت مسلمہ کی عمومی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہم ڈھنگ سے ان کے لیے دعا بھی نہیں کر پا رہے ہیں۔
مجھے مغرب پرست مسلمان حکمرانوں سے کوئی گلہ نہیں، عالم اسلام کا ایک بھی حکمران اہل فلسطین کے لیے کھڑا ہے نہ ہی کھڑے ہونے کی توقع ہے۔ مگر علمائے کرام آئمہ و خطباء کی دعاؤں میں فلسطین کے مظلوموں کے لیے کیوں وقت نہیں؟
اس رویے اور بے رخی نے مجھ سمیت تمام بے بس مسلمانوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہر نماز کے بعد امام و خطیب سے شکوے بھی کیے جاتے ہیں اور ساتھ اگلی دعا میں جگہ دینے کی درخواستیں بھی۔ بعض آئمہ حضرات سے میں نے جب خود سوال کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ ان کا خیال ہے کہ یہ دعاؤں سے حل ہونے والا مسئلہ نہیں مگر ہمارا رب تو ہم سے وہی سوال کریگا جس پر ہم مکلف ہیں اور امام و خطیب کا تو کام ہی دعا ہے تو بصد احترام اتنا پوچھنا تو ہمارا حق بنتا ہے کہ پھر دعا میں یہ بخل کیوں؟ جب میں یہ سطور لکھ رہا تھا تو میری نظر سوشل میڈیا پر ایک تحریر پر پڑی جس نے میرے دل پر دستک اور تسلی دی۔
تحریر کچھ یوں تھی "اگست 1099 رمضان کا مہینہ، جمعہ کا وقت، بغداد کی مرکزی جامع مسجد میں مسلمانوں کے خلیفہ وقت، المستظہر باللہ جمعہ کے خطبہ کے لیے منبر پر آکر کھڑے ہوئے۔ عین اس وقت اچانک سامنے کی صف میں بیٹھے ایک شخص نے اپنے تھیلے سے ایک روٹی نکال کر کھانا شروع کردی۔ رمضان کے پہلے جمعہ کا خطبہ، اسلامی دارالحکومت کی مرکزی مسجد اور عباسی خلیفہ کے سامنے ایک شخص کا یوں روٹی کھانا، اس عمل کو دیکھ کر لوگ غصہ میں مارنے کو دوڑے۔ پوری مسجد کے لوگ بشمول خلیفہ بھی اس عجیب منظر کو دیکھنے لگے کہ آخر ہو کیارہا ہے؟ کوئی پاگل ہے یا بد تمیز؟ آخر ہے کون؟ لوگوں نے غصے سے پوچھا کہ یہ کیا حرکت کی تم نے؟
اس پر اس شخص نے گرج دار آواز میں بولنا شروع کیا! "تم لوگ میرے رمضان میں یوں کھانا کھانے پر غصہ ہورہے ہو، تم سب کی غیرت اچانک جاگ گئی کہ کیسے ایک شخص نے مسجد میں کھانا کھا کر توہین رمضان کردی لیکن دو ہفتے پہلے بیت المقدس، مسجد اقصیٰ پر صلیبیوں نے قبضہ کرلیا، مسجد میں قرآن مجید کی توہین کی گئی، مگر تم میں سے کسی کی غیرت نہ جاگی۔ یہاں بغداد میں کسی کے روزمرہ کے کام تک نہ رکے حتیٰ کہ میں ایک ہفتے سے خلیفہ سے ملنے کی کوشش کرتا رہا لیکن ان کے محافظوں اور آس پاس گھومتے چمچوں نے ملنے تک نہ دیا۔ تمہیں لگا کہ میں نے یہاں کوئی حرام کام کیا ہے جب کہ میں تو دمشق سے آیا ہوا ایک مسافر ہوں، جس پر روزہ رکھنا فرض ہی نہیں۔ لیکن اے خلیفۃ المسلمین! تم پر تو بیت المقدس کی حفاظت فرض تھی، تم نے کیوں اسے صلیبیوں کے ہاتھ میں جانے دیا؟ تم یہاں خطبہ دے رہے ہو وہاں ہمارے بھائی در بدر پھر رہے ہیں ہماری بہنوں کی عزتیں محفوظ نہیں۔ میں دمشق کا قاضی اور امام الھراوی ہوں۔ میں تمہیں جھنجھوڑنے آیا ہوں کہ آنکھیں کھولو! اقصیٰ کو صلیبیوں سے آزاد کراؤ۔ اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو پھر عورتوں کی طرح گھر بیٹھ جاؤ۔ شیخ الھراوی دیر تک بولتے رہے، لوگ زار و قطار رو نے لگے۔
خود خلیفہ نے روتے ہوئے معافی مانگی اور سلجوق حکمران سے مل کر اقصیٰ کی آزادی کے لیے جدوجہد کا وعدہ کیا۔ یہ شیخ زین الاسلام الھراوی رحمہ اللہ علیہ تھے جو افغانستان کے صوبے ہرات میں پیدا ہوئے اور پھر دمشق جاکر دینی علوم میں وہ مہارت حاصل کی اور قاضی یعنی چیف جسٹس مقرر ہوئے، آپ بڑے عالم اور بہترین خطیب بھی تھے۔ اقصیٰ پر دشمن نے قبضہ کیا تو آپ نے مدرسہ میں بیٹھ کر پڑھنے پڑھانے کے عمل کو موقوف کرکے، امت اور امت کے حکمرانوں کے ضمیر کو جگانے کی مہم کا آغاز کیا۔ ان ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا جو بالآخر کئی سال بعد صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں بیت المقدس کی فتح کی صورت میں نکلا۔
اِس وقت امت مسلمہ کو شیخ زین الاسلام الھراوی ثانی کی ضرورت ہے جو مسلمان حکمرانوں اور سپہ سالاروں کے ضمیر کو جھنجھوڑ سکے اللہ کرے وہ پاکستان سے ہو، اور دور حاضر کا کوئی صلاح الدین ایوبی پاکستان سے تیار کرے۔
اے امت مسلمہ کے سپوتوں گزشتہ جمعہ فلسطین کے شیخ محمود الحسنات نے آنسو بہاتے ہوئے اسلامی تاریخ کا مختصر ترین اور دردناک خطبہ دیا۔ انھوں نے فرمایا "اگر 30 ہزار شہدا کی شہادتیں، 70 ہزار زخمی غازیوں اور 20 لاکھ بے گھر فلسطینی امت کو نہیں جگا سکے تو ان کے لیے میرے الفاظ کے کیا معٰنی؟ اس کے علاوہ میں کیا کہوں اور کس سے کہوں؟ اپنی صفیں سیدھی کرو"۔
سسکیاں لیتے ہوئے امام، زارو قطار رونے والے نمازیوں کو نماز پڑھانے مصلے پر کھڑے ہو گئے۔ اللہ کرے یہی خطبہ امت مسلمہ کے حکمرانوں اور سپہ سالاروں کے لیے شیخ الھراوی کی وہ پکار بنے، مگر اگر نہیں تو ذرا سوچیں خطبے کے یہ الفاظ کیا رنگ لائیں گے۔
یہ شکوہ ہر فلسطینی کے دل پر نقش ہوچکا ہے وہ ہر روز اللہ کے دربار میں امت کی شکایت کرتے ہیں اور بروز محشر بھی اپنا دعویٰ امت کی اس مجرمانہ خاموشی کے خلاف دائر کرینگے اس کے بعد کیا ہوگا؟
کیوں شافع محشر شفاعت کرینگے؟ اور رب ہمیں کیوں معاف کریگا؟ اللہ رب العزت اہل فلسطین کو مثل بدر نصرت عطاء فرمائے۔ بس وہی پرانی درخواست آئمہ و خطبا اور نمازیوں سے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کے باقی شب و روز میں اپنے ان مظلوم بھائیوں کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں۔انشاء اللہ ہمارا رب ہماری دعائیں ضرور سنے گا۔
آخر بحیثیت مسلمان پوری امت مسلمہ کی طرف سے ساؤتھ افریقہ کے غیر مسلم حکمران و ریاست کو عالمی عدالت برائے انصاف میں فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف دعویٰ پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ مگر افسوس اس پر ہے کہ 57 اسلامی ممالک میں یہ جرات بھی کوئی نہیں کرسکا۔