ہماری حکومتیں بھی کیا خوب اہل دانش کے سپرد کی جاتی ہیں، جو کسی بھی ادارے میں اصلاح کے بجائے اس ادارے کو بند کرنا ہی اس کا حل سمجھتے ہیں۔ ہر حکومت اپنے مینڈیٹ سے بہت آگے جاکر پنجاب کے بزرگوں کے آخری ایام کا سکون چھین لینا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا شکار محکمہ تعلیم بنایا جاتا ہے، جو کہ اس امیر طبقے کی آنکھ میں بال کی طرح چبھ رہا ہے۔
تعلیم کسی بھی قوم کا زیور ہوتی ہے اور پرائیویٹ اداروں کےلیے تو یہ سونے کا زیور ہے۔ لیکن افسوس کہ سرکاری اداروں کےلیے یہ ایک بوجھ بنا دی گئی ہے۔ محکمہ تعلیم کے تمام قوانین و ضوابط پرائیویٹ اور سرکاری اداروں پر یکساں لاگو ہوتے ہیں مگر ان پر عمل درآمد صرف سرکاری اداروں میں ہی کیا جاتا ہے اور وہ بھی تعلیم اور تعلیم دینے والوں کی بہتری کےلیے نہیں بلکہ انہیں اس پیشے سے مایوس کرنے اور طلبا کو تعلیم سے دور کرنے کے لیے۔
سرکاری تعلیمی ادارے سرکار کی نفرت و انتقام کا نشانہ نظر آتے ہیں اور پرائیویٹ اداروں کو لاڈ پیار دیا جاتا ہے تاکہ وہ اوپر اٹھیں اور سرکاری ادارے بدنام ہوں۔ یہ سرکاری ادارے جہاں کبھی صاحب ثروت اور غریب، سب کے بچے پڑھتے تھے، اب نہ صرف غریب بلکہ بہت ہی غریب لوگوں کے بچے پڑھتے ہیں۔ متوسط طبقے کو ان سے پیچھے ہٹانے میں بھی سرکاری پالیسیوں کا ہی ہاتھ ہے۔ مفت کتابیں دے کر متوسط طبقے کی عزت نفس پر حملہ کیا گیا۔ اور مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے بچوں کو ایسے سکول میں داخل کروائیں جہاں پر واجبی سے فیس ہو تعلیم کا عمل ہو یا نہ ہو کوئی بات نہیں۔ سرکاری اداروں اور ان میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو احساس کمتری میں مبتلا کردیا گیا ہے۔
اگر سرکاری اداروں کو سرکار تعلیم کےلیے چلاتی تو یہ آج بہترین تعلیم دے رہے ہوتے۔ جب سے محکمہ تعلیم کو تجربہ گاہ بنایا گیا ہے تب سے پرائیویٹ اسکول کھمبیوں کی طرح ابھرے ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پنجاب میں 700 سے زائد سرکاری کالجز ہیں جبکہ 12 اگست 2023 تک پنجاب میں 2515 پرائیویٹ کالجز تھے۔ صوبہ بھر میں ساٹھ ہزار سے زائد پرائیویٹ اسکول ہیں جبکہ سرکاری اسکولوں کی تعداد 52,231 ہے۔ یہ پرائیویٹ اسکولوں کی تعداد ان تجرباتی پالیسیوں سے پہلے آٹے میں نمک کے برابر تھی۔
سرکاری اسکولوں اور کالجوں کو عرصہ دراز سے ایک تجربہ گاہ بنادیا گیا ہے۔ سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کرام کو اس بات میں الجھا دیا گیا کہ ان کی بائیو میٹرک حاضری ہوگی، اتنے بجے تک نہ پہنچنے والے کی بے عزتی بیچ چوراہے پر ہوگی اور غیر حاضری بھی شمار ہوگی۔ بچے پر سختی نہیں کرنی بلکہ اسے سخت الفاظ بھی نہیں کہنے لیکن نتیجہ سو فیصد چاہیے۔ نہ نام خارج کرنا ہے نہ غیر حاضری لگانی ہے، نہ داخلہ روکنا ہے مگر رزلٹ سو فیصد، ورنہ سب کے سامنے بے عزتی ہونی ہے۔ اور سیکڑوں اساتذہ ایسے ہیں جو اس وقت بھی ان ناروا سختیوں اور بے جا بے عزتی برداشت کررہے ہیں۔
ایسے اقدامات کرنے کا مقصد تعلیم میں بہتری ہرگز نہیں تھا بلکہ استاد کی تضحیک تھی کہ اسے ایک قابل نفرت کردار بنا کر پیش کیا جائے اور سرکاری اسکولوں کو بیکار اسکول ثابت کیا جائے۔ ایسا کرنے میں حکومت لاکھ کوششوں کے باوجود کامیاب نہ ہوسکی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہا جاتا ہے اساتذہ پڑھائی کا معیار نہیں بنا پا رہے، اساتذہ اپنی تنخواہ کے بدلے بچوں کو نہیں پڑھا رہے اور ایسے بھی بہت سے اعتراضات جن کو بنیاد بنا کر اسکولوں کی نجکاری کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو غیر ملکی این جی اوز کو ٹھیکے پر دیا جارہا ہے۔ تو اس ضمن میں چند سوال توجہ طلب ہیں جن کے اہل دانش سے جواب مطلوب ہیں۔
- کیا محکمہ پولیس کی کارکردگی سے عوام مطمئن ہیں؟
- کیا عوام محکمہ صحت سے مطمئن ہیں؟
- کیا عوام واپڈا کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟
- کیا عوام محکمہ مال کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟
- اور کیا عوام محکمہ قانون سے مطمئن ہیں؟
- کیا عوام عوامی نمائندگان اور سیاسی شخصیات کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟
اگر نہیں تو کیا یہ سب محکمے بھی عوام کی جیبوں پر بوجھ نہیں؟
استاد کی پہلی اور آخری کرپشن ایک ادنیٰ سے معاوضے کے عوض بہتر طریقے سے پڑھائی نہ کروانا ہے (وہ بھی شاید چند گنے چنے اساتذہ ہیں جو کہ کسی ایسے ہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جب کہ پڑھائی کے علاوہ بھی بہت سے کام ان سے مفت میں کروایا جارہا ہے جو کہ اس کی ملازمت سے تعلق ہی نہیں رکھتے۔)
مگر کیا سیاستدان، ججز، وکلاء، پٹواری، و دیگر ملازمین اپنے شعبے سے انصاف کررہے ہیں؟ آپ کو کھلا چیلنج ہے کہ اساتذہ کے مقابلے میں کسی بھی دیگر شعبے کے ملازمین کا آڈٹ کروالیں اور اثاثہ جات کی جانچ پڑتال کے بعد فقط یہ بتا دیں کہ استاد کا رزق کتنا حلال ہے اور دیگر ملازمین کا کتنا حلال ہے۔
ارباب اقتدار کو سرکاری اسکولوں کی دگرگوں حالت تو دکھائی دے گئی مگر کیا اسکولوں کے علاوہ سب محکمے فرشتوں کے زیر انتظام ہیں؟ کبھی محکمہ مال کے پٹواری کا محاسبہ بھی کرتے نظر آئیں جو کسی غریب کی جمع پونجی کو ایک کاغذ کی نذر کرتے ہوئے نہیں ہچکچاتا۔ اے ارباب اقتدار اور کچھ نہیں تو کبھی ایک دن فقط واپڈا والوں سے یہ ہی پوچھ لیں کہ بلوں پر کاغذ کا بوجھ زیادہ ہے یا پھر ٹیکسوں کا؟ اور برائے کرم اپنے قانونی مشیر کو ہمراہ ضرور رکھیے گا جو آپ کو واپڈا کے بلوں پر موجود نت نئے ٹیکسوں کی معلومات بہم پہنچا سکے۔
ایک اتفاقاً بننے والا حادثاتی استاد بھی اپنی ڈیوٹی یہ سوچ کر حق حلال کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ پیغمبرانہ پیشے سے وابستہ ہے اور اس کو روز محشر اس کا جواب دہ ہونا پڑنا ہے۔
حضور والا آپ کے بچے سٹی اسکول اور بیکن ہاؤس میں پڑھ سکتے ہیں مگر ہر کسی کا بچہ آپ کے بچوں جیسی قسمت کہاں سے لائے؟ اگر آپ کے پاس کسی ایسی دکان کا پتہ موجود ہے تو آگاہ کیجیے وگرنہ حضور جیسا بھی ہے، لولا ہے لنگڑا ہے، یہ نظام تعلیم چلتا رہنے دیجیے۔
سولہویں اسکیل کے ماسٹر صاحب یہ نہیں کہہ رہے کہ انہیں بھی عدلیہ میں کام کرنے والے سولہویں اسکیل کے اسٹینو گرافر کی طرح 65 ہزار روپے کا اضافی الاؤنس دیا جائے، نہ ہی 17 اسکیل کے استاد یہ ڈیمانڈ کر رہے ہیں کہ انہیں بھی 70 لاکھ والی گاڑی لے کر دی جائے۔ 18 اسکیل کے استاد صاحب بھی یہ مطالبہ نہیں کر رہے کہ انہیں 4 کنال کا سرکاری گھر اور ڈیڑھ کروڑ والی فورچونر گاڑی دی جائے۔ انیسویں اور بیسویں اسکیل کے استاد بھی یہ نہیں کہہ رہے کہ انہیں ریٹائرمنٹ پر لامحدود مراعات مفت بجلی، پٹرول اور نوکر دیے جائیں۔ یہ تو صرف اتنا کہہ رہے ہیں کہ نوکری شروع کرتے وقت جو تنخواہ، الاؤنس اور پنشن وغیرہ دینے کا آپ نے وعدہ کیا تھا وہ تو ختم نہ کریں۔ جن شرائط و ضوابط کو مان کر انہوں نے نوکری قبول کی تھی ان کو تو تبدیل نہ کریں۔ نہایت معمولی مراعات کے عوض ساری زندگی اس پیشے کو دینے والے سے آخری عمر میں اس کے بڑھاپے کا سہارا تو نہ چھینیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔