بات کچھ اِدھر اُدھر کی لاکھوں میں تین

رقم کہاں گئی؟ بینک کس نے لوٹا؟ کیا انھیں پیشہ ور ڈکیتوں نے حیرت انگیز منصوبے کا حصہ بنالیا تھا، یا کچھ اور تھا؟


Rafi Allah Mian June 14, 2014
رقم کہاں گئی؟ بینک کس نے لوٹا؟ کیا انھیں پیشہ ور ڈکیتوں نے حیرت انگیز منصوبے کا حصہ بنالیا تھا، یا کچھ اور تھا؟۔ فوٹو پرپل پیچ فیس بک

کیس حل ہوچکا تھا، ڈاکٹر کی جان چھوٹ چکی تھی اور انسپکٹر پاگل ہونے سے بچ گیا تھا لیکن آخری سوال اب بھی باقی تھا۔ انسپکٹر جمشید نے سر کے بال نوچتے ہوئے کہا: آخر ان پاگلوں نے بینک لوٹنے کا پلان بنایا ہی کیوں؟

شیزوفرینیا کے فریض ہاشم نے شرماکر کہا، مجھے 'وہ' بہت اچھی لگتی ہے۔ 'کونِ' انسپکٹر نے پوچھا۔ ہاشم نے سر اٹھاکر خلا میں نگاہیں مرکوز کردیں، اور ہونٹ گول کرلیے۔ ملگجے اندھیرے نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اور سائیڈ اسکرین روشن ہوگئی۔

مینٹل ہاسپٹل کی ملازمہ پلیٹ میں چاول لاکر ہاشم کے پاس بیٹھ کربولی: لو کھاؤ۔ اوہو تم بہت ضدی ہو۔ چلو میں اپنے ہاتھوں سے کھلاتی ہوں۔ میرے ہاتھ ٹوٹیں گے تھوڑی۔ پتا ہے میرے بچے پاگل ہوتے تو انھیں یہاں لاکر داخل کرادیتی۔ کھانا تو ملتا نا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ بینک لوٹ لوں اور اپنے بچوں کو خوب کھلاؤں اور دوسروں کو بھی۔ لیکن میں کتنی پاگل ہوں بینک لوٹنا کوئی آسان کام تھوڑی ہے، بہت جھوکم کا کام ہے۔

یہ ہے آرٹس کونسل میں پیش کیے جانے والے اسٹیج ڈرامے "لاکھوں میں تین" کا ماجرا۔ انسپکٹر جمشید کا کردار ادا کرنے والے رائٹر اور ڈائریکٹر فہیم اعظم کا کہنا ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ دنیا آپ کو وہ کچھ دے جس کے آپ حق دار ہیں تو قدم بڑھائیں اور دنیا کو وہ کچھ دیں جس کی وہ حق دار ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں چھوٹے گاؤں اور قصبات میں ایڈز اور حقوق نسواں کے حوالے سے اسٹیج پلے کرتے کرتے وہ پرفارمنگ آرٹس کی مختلف ابعاد سے روشناس ہوئے اور 'ڈنر ودھ این ایڈیٹ' جیسے پلے نے انھیں پہلی بار شہرت کے ایک نئے زاویے سے متعارف کرادیا اور یہ سفر اسلام آباد سے نکل کر اب کراچی جیسے ادب و ثقافت پرور شہر تک آگیا ہے۔ فہیم اپنے آرٹ کے متعلق کہتے ہیں کہ: جب لوگ میرے ڈراموں اور میری پرفارمنگ سے تفریح حاصل کرتے ہیں تو میں خوش ہوتا ہوں لیکن جب لوگ آئینے کا سامنا کرتے ہیں تو میں اور بھی خوش ہوجاتا ہوں۔
 photo 10264086_340857236039528_1961584444526713435_o_zps952b4026.jpg

"لاکھوں میں تین" ایسا ہی ایک آئینہ ہے جس میں معاشرہ اپنی صورت دیکھ سکتا ہے۔ یہ تین پاگلوں پر مشتمل کامیڈی پلے ہے، جو ایک دن پاگل خانے سے بھاگ نکلتے ہیں اور اپنے پلان کے مطابق ایک بینک لوٹنے پہنچ جاتے ہیں۔ سوچیے ذرا، تین پاگل ہیں اور بینک لوٹتے ہیں، تو ان کے ساتھ کس قسم کی صورت حال پیش آرہی ہوگی۔ کیا حقیقی دنیا میں ایسا ممکن ہے کہ پاگل بینک لوٹنے کا پلان بناکر اس پر باقاعدہ عمل بھی شروع کردیں؟ ایک ایسی ہی ناممکن صورت حال کو آئینہ بناکر لکھاری نے معاشرے کو دکھایا ہے کہ اس کا چہرہ کتنا بدصورت ہے۔ ڈراما ایک ہے لیکن پیغامات کئی ہیں۔ ایک طرف سیاست کو نشانہ بنایا گیا ہے تو دوسری طرف معاشرتی خرابیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔

لیکن اس کھیل کا جو کرب انگیز لیکن دل کو چھولینے والا رْخ ہے، وہ ہے بچوں کے ساتھ ان کے اپنے قریبی رشتے داروں کے ہاتھوں جنسی استحصال۔ اس المیے نے کامیڈی پلے میں ایسی ڈرامائیت پیدا کی ہے کہ ناظرین کلیجہ تھام لیتے ہیں۔ ماموں کے ہاتھوں جنسی زیادتی کی شکار نازو کا المیہ اس اسٹیج پلے کو احساس اور جذبات کے دل دوز سطح تک لے کر جاتا ہے جہاں ناظرین دیکھتے ہیں کہ ایک معصوم بچی ریپ کا شکار ہونے کے بعد کس طرح نفسیاتی طور پر مختلف کرداروں میں ڈھلتی ہے اور 'پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر' میں مبتلا ہوکر چیخنے لگتی ہے اور جو کوئی بھی اس کے قریب ہوتا ہے، اسے اپنا ماموں سمجھ کر اس سے خود کو دور رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ نازیہ کا یہ مشکل ترین کردار دھان پان سی کلثوم آفتاب نے غضب کی پرفارمنس کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس کا ماموں اس کی روح بچپن میں مار چکا ہے اس لیے اب وہ دوسروں کے بہروپ میں ڈھل کر جب بینک ڈکیتی کرنے آتی ہے تو کبھی پولیس اہل کار بن جاتی ہے اور کبھی گلوکارہ۔ کلثوم کی پرفارمنس دیکھ کر آنکھوں میں آنسو روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔

ڈرامے کی بات ہو اور محبت کے پرندوں کی اڑانوں کا ذکر نہ ہو، سمجھ میں نہ آنے والی بات لگتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاگل کی محبت کیسی ہوتی ہے۔ محبت تو خود پاگل پن تک لے کر جاتی ہے؛ لیکن ایک پاگل کیسی محبت کرتا ہوگا، یہ جاننے کے لیے 'لاکھوں میں تین' دیکھنا ضروری ہے۔ ہم بات کررہے ہیں جتن کی۔ جو ہندو ہے اور نازو کی محبت میں گرفتار ہے۔ وہ سب کچھ بھول سکتا ہے لیکن نازو کو نہیں حتیٰ کہ ڈکیتی کے دوران وہ بھول جاتا ہے کہ بینک کس لیے آیا ہے۔ جتن کے کردار میں ایس ایم جمیل کی پرمارمنس دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہ واقعی پاگل نہیں ہے اور محض اداکاری کررہا ہے۔

انسپکٹر جمشید اپنے بال نوچنے لگتا ہے اور ڈاکٹر اپنے مریض کے حق میں اس کے رویے کے خلاف احتجاج کرتا ہے۔ ڈکیتی کے تینوں کردار پکڑے جاچکے ہیں، بینک ملازمین کے مطابق تین ڈاکوؤں نے بینک لوٹا، لیکن پاگلوں کے اس ڈکیت گروہ کے سرغنہ شیزو فرینیا کے مریض ہاشم کے کردار کی ایک چونکانے والی بات یہ ہے کہ جب اس سے تفتیش کی جاتی ہے کہ بینک میں ڈکیتی کرتے ہوئے اس کے ساتھ اور کتنے ساتھی تھے، تو وہ کہتا ہے پانچ، باقی دو جاوید اور شگفتہ تھے۔ انسپکٹر پاگل ہونے کو ہے کہ جاوید اور شگفتہ کون ہیں اور کہاں تھے، کسی نے انھیں کیوں نہیں دیکھا۔ اس مسئلے کو بھی ڈاکٹر حل کرتا ہے جس کا کردار حماد خان نے ادا کیا ہے۔

اس اردو کامیڈی کھیل کے دو اہم اور دل چسپ کرداروں کا ذکر بہت ضروری ہے جنھوں نے اپنی موجودگی سے ڈرامے کو وہ قوت دی، جس کی وجہ سے اس نے ناظرین کو جکڑے رکھا۔ بلوچ گارڈ کے روپ میں فیضان شیخ نے ناظرین کو زیادہ دیر سنجیدہ نہیں رہنے دیا، اور وقفے وقفے سے اپنی خوش گوار انٹری سے ناظرین کو ہنساتے رہے۔ اسی طرح باباجی کا کردار ادا کرنے والے عادی عدیل امجد نے جو پرفارمنس دی، اس کا اس کھیل میں کوئی جواب پیش نہیں کرسکا۔ کھیل کے اختتام پر جب باباجی کا تعارف کرایا گیا تو آرٹس کونسل کا آڈیٹوریم دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا۔ اس کردار کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، یہ تو بس دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

اس پلے کی ہدایات فہیم اعظم ہی نے دی ہیں اور پروڈیوسر محسن اعجاز ہیں جن کی کوششوں سے کراچی میں یہ پلے اسٹیج ہونا ممکن ہوا۔ سب جانتے تھے کہ ایک کامیاب ڈکیتی ماری گئی ہے لیکن تفتیش کا نتیجہ کچھ نکلتا نہیں دکھائی دے رہا تھا، کیوں کہ خود ڈکیتوں کا خیال تھا کہ وہ ناکام ہوگئے ہیں۔ رقم کہاں گئی؟ بینک کس نے لوٹا؟ کیا انھیں پیشہ ور ڈکیتوں نے حیرت انگیز منصوبے کا حصہ بنالیا تھا، یا کچھ اور تھا؟ اس کے قسم کے دل چسپ اورتجسس پیدا کرنے والے سوالات کا جواب تو آپ کو تھیٹر ہال ہی میں مل سکتا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔