ادیب وصحافی ایم اسلم صدیقی کی یاد میں
لیاری ٹائمز ایم اسلم صدیقی کی یاد دلاتا رہے گا، لیاری والے احسان مند لوگ ہیں
لیاری ٹائمز کے نوجوان ایڈیٹر ایم اسلم صدیقی سے میری پہلی ملاقات ان کے دفتر میں ہوئی تھی ۔ان دنوں میں بھی مختلف اخبارات و رسائل میں لکھا کرتا تھا یہ میرے صحافت کے میدان میں ابتدائی دن تھے۔
ایم اسلم صدیقی کے کہنے پر میں نے بطور رپورٹر لیاری ٹائمز میں شمولیت اختیار کی چونکہ یہ بے باک اخبار تھا ۔ لیاری ٹائمز کی شروعات میں ہی ہمارے ایک لکھاری ساتھی بہرام دہانی کا انتقال ہوا تھا جس کا تعزیتی اجلاس لیاری ٹائمز کے دفتر میں منعقد کیا گیا تھا جس میں لیاری کی کوئی معروف سیاسی لیڈر شریک نہیں ہوا جس کی میں نے بے باک رپورٹنگ کی تھی۔
ابھی بہرام دہانی کا غم تازہ تھا کہ رمضان المبارک کے مہینے میں ایم اسلم صدیقی کی اچانک وفات کی خبر ملی کہ آدھی رات کو ان پر دل کا دورہ پڑا تھا جس سے وہ جانبر نہ ہوسکے تھے ۔ اس پر ہم سب ساتھیوں کو بہت دکھ پہنچا تھا ۔اسلم صدیقی کی وفات کے بعد لیاری ٹائمز بھی بند ہوگیا تھا ۔پھر آہستہ آہستہ ہم لکھاری دوست بھی ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے ۔ اس کالم کو لکھتے ہوئے تمام یادیں تازہ ہوگئی ہیں۔
محمد اسلم صدیقی المعروف ایم اسلم صدیقی کا تعلق لیاری کے علاقے نیو کمہار واڑہ میں مقیم کچھی کمیونٹی سے تھا ۔ 7مئی 1965ء کو نیو کمہار واڑہ میں محمد صدیق کے گھر پیدا ہوئے تھے ایم اسلم صدیقی نے لکھنے کی ابتدا مارچ 1979ء میں کی ، ابتدا میں وہ بچوں کے لیے لکھا کرتے تھے بعد ازاں وہ صحافت کی طرف آگئے ۔ان کی تحریریں ،امن ، حریت ، ٹوٹ بٹوٹ ، ہونہار ،بچوں کا رسالہ ،چاند ستارے ، بچوں کا ڈائجسٹ جیسے نامور اخبارات و رسائل میں شائع ہوتی تھیں ۔یہ وہ زمانہ تھا جب بچے کہانیاں ذوق و شوق سے پڑھتے تھے۔
ایم اسلم صدیقی نے ٹوٹ بٹوٹ ایوارڈ بھی حاصل کیا ۔انہوں نے نوجوان لکھاریوں کے لیے درخشاں رائٹر کلب کی بنیاد ڈالی بعد ازاں اس کا نام تبدیل کرکے درخشاں رائٹر اکیڈمی رکھ دیا ۔اس اکیڈمی نے علم و ادب کی بہت خدمت کی ۔اس اکیڈمی کے بینر تلے درخشاں میگزین کا اجرا کیا ۔جس کا پہلا شمارہ دسمبر 1989ء کو منظر عام پر آیا۔
بعد ازاں انہوں نے اپنے دوستوں اسلم محمود گھانچی ،محمد الیاس کھتری، عطا اللہ لاسی ، عبدالشکور عبداللہ اور ایم سلیمان کے ہمراہ 27مارچ1991ء کو لیاری سے پندرہ روزہ اخبار لیاری ٹائمز کا اجرا کیا ۔ یہ اخبار بہت موثر تھا لیاری کے جملہ مسائل کی بلا خوف و خطر نشاندہی کیا کرتا تھا ،بہت جلد یہ اخبار مقبول عام ہوا اور لیاری کی پہچان بن گیا تھا ۔ راقم الحروف کا یہ دوسرا اخبار تھا جس سے بطور رپورٹر منسلک ہوا تھا۔
ان کے دوست محمدبخش نے اس کالم کی تیاری کے دوران بتایا کہ'' ایم اسلم صدیقی نے بچوں کے لیے بہترین کہانیاں تخلیق کیں ، نڈر وبے باک صحافی اور یاروں کا یار تھا، جب میں نے ماہنامہ ٹیلنٹ کے نام سے ایک جریدے کا اجراء کرنا چاہا تو اسلم نے ہرممکن حد تک میری رہنمائی کی، یعنی ڈیکلریشن فارم پر کرنے سے لے کر ٹیلنٹ کی لوح بنوانے ،مضامین کی کتابت،پیسٹنگ اور طباعت کے تمام مراحل میںعملی طور پرحصہ لیا، پرنٹنگ پریس کا انتخاب بھی خود کیا، ٹیلنٹ کے ایڈیٹر بھی مقرر ہوئے اور اپنی وفات تک ٹیلنٹ سے وابستہ رہے۔''
ایم اسلم صدیقی کی تحریروں میں حق و سچ کی کاٹ ہوا کرتی تھی۔لیاری کے مسائل کو اجا گر کرنے کے لیے کسی قسم کی مصلحت کا شکار نہیں ہوتے تھے ۔وہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے، اپنی زندگی میں بہت سے سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے ۔بہت سے بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کیا ۔بہت سے لوگوں میں تحریری ذوق پیدا کیا ،انھیں لیاری سے بہت محبت تھی انہوں نے اپنے قلم کو لیاری کے لیے وقف کردیا تھا ۔
زیر نظر تحریر میں لیاری ٹائمز کے شماروں کی کچھ سرخیاں ملاحظہ کریں جس سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس جواں مرگ صحافی کو لیاری کی کتنی فکر تھی اور یہ شخص کتنی سچائی کے ساتھ لیاری کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اس وقت لیاری کے کیا حالات تھے ۔
٭لیاری میں غیر قانونی عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں ، ٭لیاری میں آبادی کے درمیان کیمیکلز کے کارخانے موجود ہیں، ٭لیاری کو ایک بار پھر پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے ،٭لیاری میں پانی کے لیے زبردست مظاہرہ، ٭پینے کے پانی میں زہریلے کیڑے ،٭لیاری میں گندا پانی اور بلوں سے کیڑے مکوڑے آنا معمول بن چکا ہے ،٭لیاری جنرل ہسپتال کی زمین پر کارخانے داروں کا قبضہ ،٭لیاری آج تک تمام بنیادی سہولتوں سے محروم رہا ہے ،٭پرائمری اساتذہ کی آسامیوں کے لیے لیاری سے تمام امید وار نظر انداز ،٭بارشوں کے بعد لیاری میں 80فیصد مین ہولوں کے ڈھکن غائب ہوچکے ہیں ۔
لیاری ٹائمز ایم اسلم صدیقی کی یاد دلاتا رہے گا ۔لیاری والے احسان مند لوگ ہیں ، وہ ایم اسلم صدیقی کی اس شمع کو ازسر نو ضرور روشن رکھیں گے ۔بد قسمتی یہ رہی کہ ایم اسلم صدیقی کی وفات کے بعد یہ اخبار زیادہ عرصے تک نہ چل سکا ۔ایم اسلم صدیقی کے ساتھ ان کے جن دوستوں نے اس اخبار کا اجراء کیا تھا وہ حیات ہیں ، ان سے گزارش ہے کہ وہ اس اخبار کا ازسرنو اجراء کریں تاکہ ایم اسلم صدیقی کا نام زندہ رہے۔
ایم اسلم صدیقی کی خواہش تھی کہ ان کی تحریریں کتابی صورت میں شائع ہوجائیں ۔ لیاری ٹائمز کے اجراء کے بعد انھیں وقت ہی نہیں ملا کہ وہ اپنی کتاب شائع کراسکتے ایم اسلم صدیقی کی کمیونٹی والوں سے گزارش ہے کہ وہ ان کی تحریروں کا مجموعہ شائع کرنے کا انتظام کریں۔ ان کی ساری تحریروں کا مکمل ریکارڈ شاید دستیاب نہ ہو لیکن جو بھی تحریریں موجود ہیں ان کو یکجا کرکے کتابی شکل دی جاسکتی ہے۔