ہائر ایجوکیشن اور جامعات کا بحران
بیوروکریسی کو زیادہ بااختیار بنا کر وائس چانسلرز کو کمزور رکھا گیا ہے
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یا ہائر ایجوکیشن سے جڑے مسائل سنگین نوعیت اختیار کرچکے ہیں۔ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے پرانی غلطیوں کو بنیاد بنا کر اعلیٰ تعلیم سے جڑے چیلنجز کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔
ہماری جامعات کے حالات میں بہتر تبدیلی کے لیے غیر معمولی اقدامات درکار ہیں۔ مسئلہ محض تعلیم کے معیار کا نہیں بلکہ جامعات کی سطح پر گورننس سے جڑے مسائل ، مالی وسائل کی کمی ، سیکیورٹی کے حالات ، سیاسی مداخلتیں ،جامعات کی سربراہی میں بیوروکریسی کی مضبوطی ،پہلے سے قائم جامعات کو مستحکم کرنے کے بجائے نئی نئی جامعات کا قیام، اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں مسلسل کمی ، وفاق اور صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اختیارات میں کمی، سیکریٹری ہائر ایجوکیشن ، وفاقی یا صوبائی وزرا کی مضبوطی، صنعتوں ،تحقیق کا فقدان ،فکری آزادیوں کا مخصوص تصور سمیت وائس چانسلرز، ڈین ، شعبہ جات کے سربراہوں اور طلبہ و طالبات کے درمیان عملی مکالمے اور رابطوں کی کمی جیسے مسائل سرفہرست ہیں۔
اگرچہ بنیادی نقطہ یہ اٹھایاجاتا ہے کہ جامعات مالی بحران کا شکار ہیں ۔ یہ نقطہ نظر کافی حد تک ٹھیک ہے مگر یہ پورا سچ نہیں ہے ۔ کیونکہ جہاں جامعات کو حکومتی سطح پر مسائل کا سامنا ہے ، وہاں داخلی مسائل بھی سنجیدہ نوعیت کے ہیں او ران کو تسلیم کیے بغیر مسائل کا حل ممکن نہیں ہوگا۔اصل میں ہم اعلیٰ تعلیم کے بارے میں ہی فکری مغالطوں کا شکار ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا جامعات سے جڑا بحران ختم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہوں ، ہائر ایجوکیشن سے جڑے وفاقی،صوبائی وزرا، سیکریٹریز ، ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی افسر شاہی، وائس چانسلرز، پرو وائس چانسلرز، پرنسپلز، ڈین آف فیکلٹیز ، گورنرز، یہ سب مسائل ، تضاد یا ٹکراؤ کی پالیسی میں الجھے ہوئے ہیں۔
ایڈہاک پالیسی کی سوچ نے پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر کو خرا ب کرکے رکھ دیا ہے ۔ پاکستان کی کل جامعات میں سے 32فیصد جامعات میں مستقل وائس چانسلر یا پرو وائس چانسلر ہی نہیں ہیں ۔ جامعات کی سربراہی کو ایڈہاک پالیسی پر چلایا جارہا ہے اور صوبائی حکومتیں اس پالیسی کو تبدیل نہیں کررہی ہیں کیونکہ ایڈہاک وائس چانسلرز کے ذریعے سیاسی بنیادوں پر فیصلے کرانا آسان ہے۔
بیوروکریسی کو زیادہ بااختیار بنا کر وائس چانسلرز کو کمزور رکھا گیا ہے ۔وائس چانسلرز کی تقرری میں بھی میرٹ سے زیادہ سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے، جو بھی سیاسی جماعت حکمران ہوتی ہے ، وہ اپنی سہولت کا وائس چانسلر تعینات کردیتی ہے ۔ جامعات میں سنڈیکٹ کی سطح پر ممبران صوبائی اسمبلی کی شمولیت سے بلاوجہ اس نظام میں سیاسی مداخلتوں کو دعوت دی گئی ہے ۔ ان ممبران اسمبلی کی شمولیت اعلیٰ تعلیم کو موثر بنانے سے زیادہ وائس چانسلرز پر تقرریوں ، تبادلوں اور داخلوں کے نظام میں مداخلت کے سوا کچھ نہیں ہے اس لیے سارا بحران وائس چانسلرز کا پیدا کردہ نہیں ہے۔
ہمارے ہاں یہ فیشن بن گیا ہے کہ جعامات میں ہر مسلے کا ذمے دار وائس چانسلرز کو قرار دیدیا جاتا ہے ۔ یقینا وائس چانسلرز بھی ذمے دار ہیں مگر جو خرابیاں حکومتی مداخلت بشمول وزیر اعلیٰ ، گورنرز، وزیر، ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور سیکریٹری ہائر ایجوکیشن کی پیدا کردہ ہیں ان کو بھی تسلیم کیا جائے جو بحران کی اصل جڑ بھی ہے۔
ایسے لگتا ہے کہ ہم نے جامعات کو محض ڈگری کے حصول تک محدود کردیا ہے ۔ جامعات میں تحقیق کا جو کام ہورہا ہے،اس کے موضوعات ، معیارات پر سنجیدہ سوالات موجود ہیں اوریہ معاملہ سنجیدہ توجہ چاہتا ہے۔
ہمارے دوست دانشور پروفیسر نعیم مسعود جو خود بھی اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے بہت کچھ لکھتے اور بولتے ہیں ان کے بقول اعلیٰ تعلیم کا سب سے بڑا بحران اس کی سمت کا ہے ۔یعنی ہمیں اعلیٰ تعلیم کے تناظر میں کہاں جانا ہے او رکیسے اس میں دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کو بنیاد بناکر نئی اور جدید جہتوں کو متعارف کروانا ہے۔
وہ خود بھی جانتے ہیں کہ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں کیونکہ پروفیسر نعیم مسعود کو بخوبی اندازہ ہے کہ جو سیاسی مداخلتیں اعلیٰ تعلیم میں موجود ہیں ان کی موجودگی میں اعلیٰ تعلیم میں بڑے سخت گیر اور کڑوے یا ضرورت کے تحت فیصلے کرنے کی خودمختاری کس حد تک موجود ہے۔ اسی طرح ہمارے بہت ہی پیارے استاد اور دانشور بھائی ڈاکٹر محمد نظام الدین جو سابق چیرمین رہے ہیں ہائر ایجوکیشن کمیشن پنجاب کے ان کے بقول اس وقت اگر ہم نے واقعی اعلیٰ تعلیم کے تناظر میں آگے بڑھنا ہے تو ان پانچ بنیادی چیلنجز سے نمٹ کر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔
اول ہمیں اعلیٰ تعلیم میں موجود بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ہوگا او رابھی تو جو صورتحال ہے وہ کافی پیچیدہ ہے کیونکہ بجٹ میںاضافہ کے بجائے مسلسل کمی ہورہی ہے ۔ دوئم ہمیں اعلیٰ تعلیم کے نصاب میں دنیا میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں کے پیش نظر بہت کچھ تبدیل کرنا ہے جو عالمی معیارات، جدید دنیا اور انڈسٹری سے مطابقت رکھتی ہو۔ سوئم اعلیٰ تعلیم کے معیارات کی بہتری میں بڑی سرجری درکار ہے اور اس میں بہتری لائے بغیر ہم داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر اپنی اعلیٰ تعلیم کی ساکھ کو بہتر نہیں بناسکیں گے ۔چہارم ہم کو اعلیٰ تعلیم میں تحقیق کے شعبہ کو نظرانداز کرنے کی پالیسی سے گریز کرنا ہوگا کیونکہ اول تو تحقیق ہو نہیں رہی او رجو ہورہی ہے اس کے معیارات پر بھی سوالات ہیں۔پنجم آج بھی ہماری نئی نسل کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی کی شرح بہت کم ہے لہٰذا جامعات میں غیر معمولی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔
اس وقت ہم جامعات او راعلیٰ تعلیم کے تناظر میں جس بڑے بحران سے گزررہے ہیں اس کا حل ایک دوسرے پر تنقید یا الزامات کی بوچھاڑ کے بجائے سر جوڑ کر سوچ و بچار اور متبادل حکمت عملی کو اختیارکرنے سے جڑا ہونا چاہیے ۔ ہم اعلیٰ تعلیم کے معیارات کو اسی صورت میں بہتر بناسکتے ہیں جب اس مسئلہ کو ہم اپنی قومی ترجیحات کا حصہ بنائیں اور بلاوجہ کی سیاسی اور بیوروکریسی سے جڑی مداخلت کو ختم کرکے جامعات کو خودمختاری اور شفافیت سمیت اعلیٰ معیارات سے جوڑا جائے۔