مقامی پولیس کیوں نہیں

کراچی پولیس کی جرائم کی روک تھام میں مکمل ناکامی کا اب یہی حل ہے کہ مقامی پولیس کا نظام قائم کیا جائے


عثمان دموہی April 07, 2024

پاکستانی عوام میں معاشی حوالے سخت بے چینی اور بے زاری پائی جاتی ہے، ملک میں بدقسمتی سے چوری، ڈاکا اور لوٹ مار کے ماحول کو مزید گرما دیا ہے۔

ویسے تو پورے ملک کے شہروں میں رہزنی کے واقعات عام ہیں مگر بدقسمتی سے اس وقت کراچی کے عوام اس عذاب سے سخت پریشان ہیں۔ گھروں، دکانوں میں ڈکیتیاں اور سڑکوں پر کھلے عام لوٹ مار روز کا معمول بن گیا ہے۔ ان وارداتوں کا سلسلہ رمضان کے مقدس مہینے میں بھی کم نہیں ہو سکا ہے بلکہ صورت حال یہ ہے کہ ان وارداتوں میں عام دنوں سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے پھر سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ان وارداتوں میں مرنے والوں کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہوگئی ہے جب کہ اس سال کے ابتدائی تین مہینوں میں اب تک کل ملا کر پچاس افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔

بینکوں سے رقم نکالنا اور رقم لے کر چلنا عوام کے لیے مشکل عمل بن چکا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں سندھ حکومت بالکل لاچار اور مجبور نظر آتی ہے۔ پولیس کیا کر رہی ہے؟ وہ چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں کو روکنے میں کیوں ناکام ہے؟

اس سوال کا نہ تو حکومت سندھ کی جانب سے کوئی جواب آ رہا ہے اور نہ ہی پولیس کا محکمہ ہی اس کی کوئی وضاحت کر رہا ہے البتہ سندھ حکومت کے سابق نگران وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے ناقص انوسٹی گیشن کی وجہ سے چوریوں اور ڈکیتیوں میں ملوث مجرمان رہا ہو جاتے ہیں اگر انھیں قرار واقعی سزا ملے تو ضرور شہر میں بہتری آ سکتی ہے۔

ان کے ہی مطابق شہر میں جہاں یہ وارداتیں زیادہ ہو رہی ہیں وہاں گٹکا، ماوا، آئس جیسی منشیات کی فروخت بھی بلا روک ٹوک جاری ہے۔ سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ چوریوں، ڈکیتیوں کی وارداتوں میں اب تک کئی پولیس کے اہلکار رنگے ہاتھوں گرفتار ہو چکے ہیں۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ جب پولیس ہی رہزن بن جائے تو پھر عوام کو تحفظ کون دے گا؟

پولیس کے کرائم میں ملوث ہونے کے واقعات یقینا حکومت سندھ کی نظر میں ہوں گے تو پھر اس کی روک تھام کے لیے وہ کیا کر رہی ہے، ویسے اب تک تو وہ کچھ کرتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ پولیس کا محکمہ سیاست زدہ ہو چکا ہے۔

پولیس میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں جاری ہیں، یہ نہیں دیکھا جاتا کہ امیدوار کا کیریکٹر کیسا ہے، صرف سفارشوں اور رشوتوں پر بھرتیاں جاری ہیں۔ ایسی بھرتیاں ہی یقینا خطرناک ثابت ہو رہی ہیں کیونکہ بعض پہلے سے کرائم میں ملوث افراد بھی پولیس کا حصہ بن چکے ہیں اور یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے ہنوز جاری ہے۔

سفارشوں اور رشوتوں کی بنیاد پر تعلیمی محکمے میں بھی استادوں کے بھرتی کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے اور محض نااہل استادوں کی وجہ سے تعلیمی شعبہ انحطاط پذیر ہے۔ اس وقت کراچی جس تشویش ناک صورت حال سے گزر رہا ہے اس کا تدارک ضروری ہے۔ جرائم پیشہ افراد کے پولیس کے محکمے میں داخل ہونے کی وجہ سے نیک نام پولیس اہلکار بھی بدنام ہو رہے ہیں۔

پولیس کے اعلیٰ افسران نے اپنے محکمے کو بدنامی سے بچانے کے لیے بعض وارداتوں والے علاقوں کے ایس ایچ اوز کو معطل کرنے کی روایت شروع کی ہے جس کے مثبت اثرات مرتب ہونے کے قوی امکانات ہیں۔

اب سندھ کے وزیر داخلہ نے بھی شہر میں ڈکیتیوں کی روک تھام کے لیے نوٹس لیا ہے انھوں نے اتوار کو گلشن معمار میں ڈاکوؤں کی فائرنگ سے اسٹیٹ ایجنٹ کی ہلاکت اور کار میں سوار دوسرے شخص کے زخمی ہونے کی واردات کا نوٹس لیتے ہوئے وہاں کے تھانے کے ایس ایچ او کی معطلی کا حکم دیا تھا مگر بدقسمتی سے پولیس نے اسٹیٹ ایجنٹ کی ہلاکت کو ذاتی رنجش کا واقعہ قرار دینے کی کوشش کی ہے۔

یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ایسی وارداتوں میں زخمیوں اور ہلاک شدگان کے سرکاری اسپتالوں میں علاج میں غفلت کے باعث اموات اور پولیس کی جانب سے قانونی کارروائی میں تاخیر کی روش عام ہے جس سے ہلاک افراد کے لواحقین قانونی کارروائی کے بغیر ہی میتوں کو گھر لے جانے لگے ہیں۔

کراچی میں بڑھتی ہوئی چوریوں اور ڈکیتیوں کو روکنے کے لیے سیاسی رہنما پہلے سے یہ مطالبہ کرتے آ رہے ہیں کہ کراچی پولیس میں غیر مقامی اہلکاروں کی شمولیت کی وجہ سے یہ وارداتیں رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں کیونکہ غیر مقامی اہلکار اس شہر کے مخصوص حالات سے واقف نہیں ہوتے، پھر ان کے غیر مقامی ہونے کی وجہ سے ان کی اس شہر میں دلچسپی بھی کم ہی ہوتی ہے جب کہ ان کے مقابلے میں مقامی افراد چونکہ اسی ماحول میں پلے بڑھے ہوتے ہیں وہ اسے اپنا ہی شہر سمجھتے ہیں۔ پھر ان کا اپنا خاندان رشتے دار اور محلے دار سب ہی ان سے بہتر کارکردگی کی توقع رکھتے ہیں چنانچہ وہ اپنے شہر کی خدمت کرنے میں ذرا نہیں ہچکچاتے اور اس شہر کا نقصان اپنا ہی نقصان سمجھتے ہیں۔

مقامی پولیس کا مطالبہ بہت پرانا ہے۔ جن دنوں نائن زیرو متحرک تھا یہ مطالبہ بڑی شدت سے اٹھایا جاتا تھا مگر اب تو شہر کا ماحول بدل چکا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کی موجودہ قیادت نے شہر میں قتل وغارت گری کا سلسلہ ختم کرا دیا ہے ۔وہ بھی شہر میں مقامی پولیس کا مطالبہ کر رہی ہے، اس کے علاوہ جماعت اسلامی، سنی تحریک اور نیشنل عوامی پارٹی سمیت کئی سیاسی پارٹیاں بھی یہی مطالبہ کر رہی ہیں۔

کراچی پولیس کی جرائم کی روک تھام میں مکمل ناکامی کا اب یہی حل ہے کہ مقامی پولیس کا نظام قائم کیا جائے حالانکہ یہ عمل بہت تکلیف وہ بھی ہے اور کچھ لوگوں کی نظر میں ناپسندیدہ بھی ہوگا مگر پھر آخر اس مسئلے کا کیا مستقل حل ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں