پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
سب’’لے جانے‘‘ کے لیے آتے ہیں لے کر جاتے ہیں اس کرسی سے لے کر اس کرسی تک
حکومت پاکستان(1947) تا (2024) کا ذکر تو پچھلے دنوں ہم نے ایک کالم میں کیا ہے۔جو چل رہی تھی چل رہی ہے اور چلتی رہے گی ایک ہی کہانی اور فارمولے کے تحت اور جو اس وقت سے لے کر آج تک عوام الانعام پر حملہ آور ہے اور حملہ آور رہے گی۔لیکن اس دیوانی مقدمے کا ذکر نہیں کیا تھا جو پاکستان کی عدالتوں میں چل رہا تھا چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔
جس میں بہت سارے بلیک اینڈ وائٹ، بلیک کو وائٹ اور وائٹ کو بلیک کرتے تھے، کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔جس میں لاکھوں من طرح طرح کے ڈیٹرجنٹ،صابن اور واشنگ پاوڈر استعمال ہوا ہے،ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا جس میں کالے دامنوں پر کالے داغ لگائے جاتے ہیں، مٹائے جاتے ہیں کیونکہ یہ تو ''اچھے'' ہوتے ہیں جو معمولی سی رقم سے دور ہوجاتے ہیں لیکن پھر لگ جاتے ہیں۔پھر دور ہوتے ہیں کیونکہ یہ اچھے بھی ہوتے ہیں لیکن ضدی ہوتے ہیں۔کیونکہ دامن کالا ہے اور کالے دامن پر داغ نہ لگتے ہیں نہ مٹتے ہیں۔ اور لگتے بھی ہیں اور مٹتے بھی ہیں کہ زمانوں سے یہ بلیک اینڈ وائٹ اور وائٹ اینڈ بلیک ہو رہا ہے۔
اور پاوڈر کی خریداری نہ جانے کتنے ارب روپے کھاچکی ہے اور یہ سارے روپے صرف اور صرف ان کالانعاموں سے نچوڑے جاتے ہیں جو ہمیشہ ہارتے رہتے ہیں۔ دس پندرہ منشیوں کو بٹھا کر اگر حساب لگایا جائے تو صرف یہی خدا مارے ہیں جن کے چمڑے سے سکے بنتے ہیں باقی جہاں جہاں جو جو بھی سرگرم ہے چاہے وہ بلیک ہوں یا وائٹ۔یہاں سے ''لے جاتے'' ہیں جو جو بھی جس جس کرسی پر جہاں جہاں بیٹھا ہے یا کہیں بھی کسی بھی طرح سرگرم ہے۔
سب''لے جانے'' کے لیے آتے ہیں لے کر جاتے ہیں اس کرسی سے لے کر اس کرسی تک۔اس بینچ سے لے کر اس بینچ تک۔اس کاغذ سے لے کر اس کاغذ تک۔اس بلیک وائٹ سے لے کر اس بلیک وائٹ تک اس ڈیٹرجنٹ سے لے کر اس ڈیٹرجنٹ تک۔دھونے والے،نچوڑنے والے سکھانے والے سب کے سب''لے جاتے'' ہیں، ظاہر ہے کہ اس بات کا جواب اتنا ہی''ایزی'' ہے جتنا داغ لگانا اور دور کرنا ایزی ہے
''سبزہ و گل کہاں سے آتے ہیں''
وہیں سے۔اسی گردن سے۔اسی کھال سے۔ جو نہ بلیک ہے نہ وائٹ اور جو بلیک بھی ہے اور وائٹ بھی۔جن کو صدیوں سے''پیدا'' ہونے کی سزا دی جارہی ہے حالانکہ وہ نہ اپنی مرضی سے پیدا ہوتے نہ ناپیدہوتے ہیں
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
اب یہاں پر ''توہین''کی شمشیر برہنہ پہلے سے سر پر لٹکی نہ ہوتی تو پوچھنا چاہتے ہیں کہ یہ کھیل، یہ ڈرامہ، یہ ناٹک، یہ ٹوپی تماشا اور یہ نوراکشتی۔ کیوں۔ کس لیے اور اس کا حاصل کیا؟
''کیا ملا تجھ کو بتا سالوں کے پیچھے بھاگ کر''
وہ اس شخص کی کہانی تو ہم نے آپ کو سنائی تھی۔ جس کی دو بیویاں تھیں۔دونوں جب لڑتی تھیں اور ایک دوسری پر برتن بھانڈے،جھاڑو چپل یا لکڑ پتھر فائر کرتی تھیں، تو دونوں اطراف سے جس نشانے پر وہ پڑتی تھیں، وہ شوہر نامدار ہوتا تھا۔بیچارے کا سر تو اس پے بہ پے ضربات سے گنجا ہوگیا تھا۔لیکن پھر بیچارے کے چہرے کے بال بھی ''نذرامتحان''ہوگئے۔کیونکہ جب سینئر بیوی کے پاس ہوتا تھا۔اور جب سوتا تھا تو وہ سوتے میں اس کی مونچھ اور داڑھی سے ''کالے'' بال نکالتی تھی کہ اس کا چہرہ اس کی مرضی کے ''مطابق'' لگے جب کہ دوسری جانب جونئیر بیوی اسے اپنے ''مطابق'' بنانے کے لیے سفید بال نوچ لیتی تھی۔ بیچارا حکیموں کے پاس جاتا تھا کہ شاید اسے بال جھڑ اور بال چڑ کا مرض ہوگیا ہے۔
اس فکر میں ایک دن بیچارا''باری'' بھول گیا۔اور اوپر والی کے پاس جانے کے لیے ''سیڑھی'' پر چڑھنے لگا تھا کہ نیچے والی اس پر جھپٹ پڑی اور اسے پیروں سے پکڑ لیا اوپر والی کو پتہ چلا تو اس نے دوڑ کر اوپر سے پکڑ لیا۔سیڑھیوں کے عین درمیان میں بیچارا دونوں طرف سے کھینچاتانی کا شکار تھا۔آخر دونوں فریقوں نے زور لگایا تو کپڑے پھٹ گئے۔تو نتیجہ ظاہر ہے۔ہمارا یہ بیچارا بھی جو نام کا شوہر ہے۔
اس وقت انصاف کی سیڑھی کے درمیان دو طرفہ کھینچاتانی کا شکار ہے اب کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ باقی تو سب کو ''مل'' رہا ہے اور وہ روزانہ جیبیں بلکہ بریف کیس بھر بھر کر لے جارہے ہیں لیکن اس کم بخت سیاہ بخت تیرہ بخت کو کیا ملا؟ہم یہ بھی پوچھ سکتے کہ کیا یہ جو مشہور نظام انصاف ہے یہ صرف سیاسی مقدمات کے لیے بنا ہے۔پچھلے کچھ عرصے سے لگ تویہی رہا ہے کہ اس کا صرف ایک ہی کام رہ گیا ہے۔سیاسی مقدمات،سیاسی موشگافیاں، سیاسی دھلائی اور داغوں کو مٹانا یا ڈالنا۔وہ خدامارے کالانعام جس سے یہ واحد جائے فریاد بھی چھین لی گئی۔
ملک کے باقی سب کچھ پر تو یہ بڑے لوگ قابض تھے ہی۔یہ آخری مقام آہ و فغان بھی ان کے لیے ناقابل رسائی ہوتا جا رہا ہے۔اور یہ توہم بالکل بھی نہیں کہہ سکتے یا پوچھ سکتے کہ کیا یہ جائے فریاد یا مقام آہ و فغان اس لیے ہے کہ یہاں سیاسی ڈرامے یا ناٹک کھیلے جائیں۔یہ ڈرامہ اور ناٹک نہیں تو اور کیا ہے یہاں آج جو چور ہے وہ کل شفاف ہے۔اور جو آج شفاف ہے وہ کل کا چور ہے۔جب انجام کچھ بھی نہیں ہونا ہے تو پھر مطلب کیا؟ جب کالے دامنوں پر کالے داغ ہی ڈالنا ہے یا کالے دامنوں کے کالے داغ دھونا ہے تو
جب ترے بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
کہیں یہ قدیم روم کی طرح عوام کی بدحالی کو کھیل تماشوں سے بہلانے کی تدبیر تو نہیں۔یا کچھ لوگوں کے لیے کمائی اور روزگار کا بندوبست تو نہیں۔؟