معتوب کتابیں …پہلا حصہ
پاکستان کے نامور صحافی، مصنف اور آزادیٔ صحافت کے علم بردار ضمیر نیازی کا اصل نام ابراہیم جان محمد درویش تھا
عقیل عباس جعفری کو میں ان کے لڑکپن سے جانتی ہوں، انھوں نے ایسا قد و قامت نکالا کہ آج ڈاکٹر عقیل عباس جعفری ملک کے ایک نامور محقق کے نام سے معروف ہیں۔ اس مرتبہ'' معتوب کتابیں'' کے عنوان سے دنیا کی 140 کتابوں پرگزرنے والی روداد ستم ہمارے سامنے ہے۔ اپنی یہ کتاب انھوں نے ضمیر نیازی کے نام کی ہے۔ کون ضمیر نیازی؟
پاکستان کے نامور صحافی، مصنف اور آزادیٔ صحافت کے علم بردار ضمیر نیازی کا اصل نام ابراہیم جان محمد درویش تھا اور وہ 8 مارچ 1927کو بمبئی میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 1942 میں '' ہندوستان چھوڑ دو'' کی تحریک سے اپنی جدوجہدکا آغازکیا اور صحافت کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے جہاں انھوں نے روزنامہ ڈان سے اپنے صحافتی کیریئرکا آغاز کیا۔
1965 میں وہ روزنامہ بزنس ریکارڈر سے منسلک ہوئے اور پھر اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی اخبار سے وابستہ رہے۔ ضمیر نیازی نے 1986 میں Press in Chains کے نام سے پاکستانی صحافت پرگزرنے والی پابندیوں کی داستان تحریر کی۔ یہ کتاب بے حد مقبول ہوئی اور اس کے متعدد ایڈیشن اور تراجم شایع ہوئے۔ اس کے بعد جناب ضمیر نیازی نے 1992 میں Press Under Siege اور 1994 میں Web of Censorship کے نام سے مزید دو کتابیں تحریر کیں جن میں صحافت پر حکومتی اور مختلف تنظیموں کے دباؤ اور پاکستان میں سنسر شپ کی تاریخ رقم کی گئی تھی۔
ان کی دیگر تصانیف میں باغبان صحرا، انگلیاں فگار اپنی، حکایات خونچکاں اور پاکستان کے ایٹمی دھماکے کے ردعمل میں لکھی گئی تحریروں کا انتخاب زمین کا نوحہ شامل ہیں۔ 1994 حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا جسے اگلے برس کراچی کے 6 اخبارات پر پابندی عائد ہونے کے بعد انھوں نے احتجاجاً واپس کردیا تھا۔
انھیں جامعہ کراچی نے بھی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کرنے کا اعلان کیا تھا مگر انھوں نے اسے قبول کرنے کے لیے گورنر ہاؤس جانے سے انکار کر دیا تھا۔ ضمیر نیازی 11 جون 2004 کو کراچی میں وفات پاگئے اور ابوالحسن اصفہانی روڈ پر واقع قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
وہ دنیا بھر میں سنسر کا نشانہ بننے والی کتابوں کی روداد "Books in Chains, Libraries in Flames"کے نام سے لکھنے کے خواہش مند تھے، مگر زندگی نے انھیں مہلت نہیں دی۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا'' زمانہ بیت گیا، کچھ اور ہی کام ہوتے رہے، کچھ کاہلی اور زیادہ تر نااہلی، بہرحال اب بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔ وجہ؟
دوستو ختم ہوئی دیدۂ تر کی شبنم
اب کوئی اور کرے پرورش لوح و قلم
یہ کتاب جناب ضمیر نیازی کی اسی خواہش کی تکمیل ہے۔
کتابوں اور علم کی ترسیل پر پابندیوں کی کہانی بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود انسان کی کہانی۔ بقول ضمیر نیازی'' تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ظالم اور غاصب ہمیشہ فکر انسانی سے خائف اور ہراساں رہے ہیں۔ تلوار انسانوں، مصنفوں اور دانش وروں کو تو قتل کر سکتی ہے لیکن فکر و تحریر میں زندہ و تابندہ رہتی ہے۔''
چین میں ایک بادشاہ گزرا ہے جس کا اصل نام ونگ چنگ اور معروف نام شی ہوانگ ٹی تھا، جس کے معنی ہیں پہلا شہنشاہ۔ وہ چاہتا تھا کہ دنیا کی تاریخ کا آغاز اس کے عہد سے ہو۔
اسی سبب سے اس نے اپنے ملک کی گزشتہ تاریخ اور بادشاہوں کا ذکر ختم کرنے کے لیے حکم جاری کیا کہ ایسی تمام کتابیں نذرآتش کردی جائیں، جن میں ماضی کا ذکر ہو۔ اس حکم کی زد میں کنفیوشس کی کتابیں بھی آئیں۔ موصوف نے حکم جاری کیا تھا کہ جو لوگ موجودہ زمانے کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے ماضی کی اہمیت بڑھائیں گے انھیں ان کے اہل خانہ سمیت قتل کر دیا جائے گا۔
ڈاکٹر ارشد معراج نے اپنے ایک مضمون '' مشہور زمانہ ممنوعہ کتب'' میں لکھا ہے کہ یہی نہیں کہ اس نے صرف یہ حکم جاری کردیا تھا بلکہ اس پر عمل بھی کیا اور سیکڑوں عالم فاضل جنھوں نے اپنی محبوب کتابوں کو چھپانے کی کوشش کی زندہ دفن کردیا گیا۔''
''اس میں کوئی شک نہیں شی ہوانگ ٹی نے پرانی کتابوں کو جلوا کر اور ان کے پڑھنے والوں کو زندہ دفن کروا کے بڑی بربریت کا ثبوت دیا لیکن اس کا سب کیا کرایا اسی کے ساتھ ختم ہو گیا۔ پچاس سال کے اندر اندر اس کا زوال اور خاتمہ ہو گیا، خاندان نیست و نابود ہو گیا اور تمام ممنوعہ کتابیں خصوصاً کنفیوشس کے زمانے کی تعلیم و ادبی تصانیف زمین کھود کھود کر نکال لی گئیں اور انھیں پھر عزت کا درجہ حاصل ہوا۔''
قبل از مسیح تاریخ میں اسکندریہ کے کتب خانے کا قیام بھی ایک اہم سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔ یہ عظیم کتب خانہ تیسری صدی قبل ازمسیح میں 330 قبل مسیح سے 323 قبل مسیح کے دوران بطلیموس دوئم نے مصر میں قائم کیا تھا جسے اس کے بیٹے فیلادیلفوس نے اپنے علم پروری اور کتابوں سے دلچسپی کے باعث بہ ت جلد اس قابل بنا دیا تھا کہ ایتھنز کی علمی و ثقافتی مرکزیت وہاں سمٹ آئی تھی اور علم و فضل کے دلدادہ دور دور سے اس علمی مرکز کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔
بتایا جاتا ہے کہ اس کتب خانے میں تقریباً دس لاکھ کتابیں موجود تھیں۔لیکن سات صدیوں کے لگ بھگ قائم رہنے والے اس کتب خانے کا انجام بڑا عبرت ناک ہوا۔ 48قبل مسیح میں جب جولیس سیزر نے اسکندریہ کا محاصرہ کیا تو تباہی اس کتب خانے کا مقدر بن گئی۔ رہی سہی کسر اورلین کے عہد میں خانہ جنگی کے دوران پوری کردی گئی۔ یہ کتب خانہ ظہور اسلام سے دو سو سال قبل مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ چکا تھا۔
عباسی عہد حکومت میں مامون رشید نے روم کے کتب خانوں کے تہہ خانوں میں بند کتابیں مال و دولت کے عوض خرید لیں۔ مامون رشید نے بہت بڑے پیمانے پر دارالتراجم قائم کروائے اور تمام علوم و فنون کی کتابوں کا ترجمہ کیا گیا، یہی ترجمہ یورپ کے نشاۃ الثانیہ کی تحریک میں کام آیا۔ اس زمانے میں بغداد علمی مرکز ہونے کی شہرت رکھتا تھا لیکن بدقسمتی سے ہلاکو خان کے حملوں نے اس شہر میں موجود علمی خزانوں کو نذرآتش کردیا جس کے باعث امت مسلمہ کو نقصان سہنا پڑا اور پوری دنیا میں علم کی روایت ختم ہوگئی۔
مشہور مصنف رابرٹ بی ڈاؤنز نے 16 کتابوں کو اپنی ایک کتاب ''کتابیں جنھوں نے دنیا بدل ڈالی'' میں شامل کیا ہے، مگر بدقسمتی دیکھیے کہ ان 16 کتابوں میں سے 4 کتابیں ایسی بھی ہیں جو مختلف ادوار میں پابندی کی زد میں آئیں۔ ان کتابوں میں میکاؤلی کی دی پرنس، ہیرٹ بیچراسٹو کی انکل ٹامز کیبن، ہٹلر کی مین کیمپف اور رابرٹ ڈارون کی آن دی اوریجن آف اسپیشیز شامل ہیں۔
کتابوں پر پابندیوں کا یہ سلسلہ برصغیر میں بھی جاری رہا، تاہم یہاں اس کی صورت حال قدرے مختلف تھی۔ یہاں پہلے پہل اخبارات پابندیوں اور بندش کا نشانہ بنے۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد حکومت نے انڈین پریس ایکٹ 1910 کی طرز پر مختلف قوانین نافذ کیے جن کی زد میں اخبارات کے ساتھ ساتھ کتابیں بھی آنے لگیں۔ یہ کتابیں ہندوستان ہی سے نہیں بلکہ بعض بیرون ملک مقامات مثلاً پیرس، لندن، برلن، سان فرانسسکو، نیویارک، جنیوا اور قسطنطنیہ سے بھی شایع ہوئی تھیں۔
ہندوستان میں زیادہ تر مذہبی اور سیاسی تصانیف پابندی کی زد میں آئیں۔ پہلی بڑی مذہبی تصنیف جسے عوام الناس کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، ڈپٹی نذیر احمد کی ''امہات الامہ'' تھی۔ یہ وہی ڈپٹی نذیر احمد تھے جنھوں نے اپنے شہرہ آفاق ناول ''توبۃالنصوح'' میں دکھایا ہے کہ ناول کا مرکزی کردار نصوح اپنے بڑے بیٹے کلیم کا کتب خانہ کس طرح نذر آتش کرتا ہے۔
نصوح نے کلیم کی جو کتابیں نذر آتش کیں ان میں چرکین، جعفرزٹلی اور جان صاحب کے دیوان شامل تھے۔ اس آتش زدگی کی زد میں نصوح کے ایک اور بیٹے علیم کی دو کتابیں کلیات آتش اور دیوان شرر اور دوسرے بیٹے سلیم کی واسوخت امانت بھی آگئیں مگر جب ڈپٹی نذیر احمد کی اپنی کتاب برسر عام نذرآتش کی گئی تو انھیں اس بات کا ایسا صدمہ ہوا کہ پھر انھوں نے باقی زندگی کچھ نہیں لکھا۔
ہماری اس کتاب میں شامل ''معتوب کتابوں'' کی فہرست بڑی محنت اور جستجو کے بعد تیار کی گئی ہے تاہم تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ بہت سی معتوب کتابیں ایسی بھی ہیں جو کسی ایک ملک میں پابندی کی زد میں آئیں جب کہ دنیاکے باقی خطوں میں وہ باآسانی دستیاب رہیں۔ ہندوستان ہی نہیں خود پاکستان میں بھی ایسی کئی کتابوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جو کسی ایک صوبے میں زیر عتاب آئیں مگر دوسرے صوبوں میں باآسانی فروخت ہوتی رہیں۔
مثلاً صدرالدین ہاشوانی کی سوانح عمری The Truth Always Prevails: A Memoir کا اردو اور سندھی ترجمہ سندھ میں معتوب ہوا مگر وہ دوسرے صوبوں میں دستیاب رہا اور ڈاک کے ذریعے سندھ کے قارئین کو بھی بھیجا جاتا رہا۔ یہی معاملہ محمد حنیف کے انگریزی ناول A Case of Exploding Mangoes کے ساتھ ہوا جس کا انگریزی ورژن تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں فروخت ہوتا رہا مگر اس کا اردو ترجمہ '' پھٹتے آموں کا کیس'' زیر عتاب آگیا۔ مختلف کتابوں اور انٹرنیٹ کی ویب سائٹس کو کھنگالا جائے تو کم و بیش سو کے لگ بھگ ایسی مزید کتابوں کی نشاندہی ہوسکتی ہے جو مختلف ادوار اور مختلف خطوں میں پابندی کا نشانہ بنیں۔
جو قارئین اس نوعیت کی دیگر کتابوں کے نام جاننے یا ان کا مطالعہ کرنے کے خواہش مند ہوں وہ خیالات لاہور کے ممنوعہ کتب نمبر، ارتقا کراچی کے علمی اور ادبی کتابی سلسلہ نمبر3، اثبات، ممبئی کے عریاں نگاری اور فحش نگاری نمبر، نقاط، اسلام آباد کے کتاب نمبر، علی اقبال کی کتاب روشنی کم تپش زیادہ، بک آف لسٹس اور بک آف لٹریری لسٹس اور انٹرنیٹ پر موجود مختلف ممالک کی ضبط شدہ کتابوں کی فہرستیں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
(جاری ہے)