شام کا صدارتی الیکشن اور حقائق
بحر متوسط، ایشیاء کے مشرق وسطیٰ کو یورپ سے جوڑنے والا یہ سمندر پر سکون ہے۔
بحر متوسط، ایشیاء کے مشرق وسطیٰ کو یورپ سے جوڑنے والا یہ سمندر پر سکون ہے۔ لیکن اس کے کنارے واقع شام کے صوبہ طرطوس کے عوام انتہائی پرجوش دکھائی دیتے ہیں۔ عربی ترانے، ڈرم بجاتے نوجوان رقصاں ہیں۔ تالیاں بجاتے بچے و خواتین بھی نعرے لگا کر انتخابی عمل کی مانیٹرنگ کرنے والے عالمی مبصر مشن کی توجہ اپنی جانب مبذول کروارہے ہیں۔ عالمی مبصر مشن سے وابستہ افراد بانیاس کے پولنگ اسٹیشن کے بعد طرطوس شہر کے باہر سیمنٹ فیکٹری میں قائم پولنگ اسٹیشن پہنچے ۔ جعفرحمود کو وہیل چیئر پر پولنگ اسٹیشن لایا گیا۔ ان کی بیوی نے انھیں سہارا دے کر ووٹ کاسٹ کروایا۔ اس معذور شامی شہری کا کہنا تھا کہ اچھے دنوں کے لیے ووٹ دے رہے ہیں۔ دمشق سے ال لاذقیہ (لٹاکیہ) تک اور وہاں سے بنیاس اور طرطوس تک شام ایک پرامن ملک نظر آیا۔
بانیاس کی مجلس مدینہ (میونسپل کمیٹی یا شہرداری)کے ایک حصے میں مرد ووٹ ڈالتے نظر آئے۔ کئی خواتین سے الیکشن کے بارے میں ان کی رائے پوچھی گئی تو عائدہ عدیمی نے بتایا کہ وہ بہت خوش ہیں اور انھیں فخر ہے کہ وہ پولنگ اسٹیشن صرف دنیا کو یہ بتانے آئی ہیں کہ ان کا ووٹ ثابت کرے گا کہ شام کا قانونی حکمران کون ہے؟ انھوں نے کہا کہ وہ دہشت گردوں کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتیں اور بلاخوف انتخابی عمل میں شریک ہیں۔ دہشت گردی کی وجہ سے نقل مکانی کرکے بانیاس آنے والی عبیر نیوف کی رائے بھی کچھ مختلف نہیں تھی۔
بانیاس میں مدرسہ شیخ صالح العلی کے پولنگ اسٹیشن میں بھی جشن کا سماں ہے۔ 22 سالہ عزیز صالح جامعہ حلب کا طالب علم وہاں کی خراب صورتحال کے باعث بانیاس میں مقیم ہوا۔ شامی نوجوانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نوجوانون کا ووٹ اپنے وطن، وطن کا دفاع کرنے والے غیرت مند سپاہیوں اور جوانوں اوران شہدا کے لیے ہے، جنھوں نے تعمیر وطن اور امن و امان کے قیام کے لیے جدوجہد کی اور وطن پر جان قربان کردی۔ بیلٹ پیپر پر بشارالاسد اور ان کے مقابلے پر الیکشن لڑنے والے ماہر حجار اور ڈاکٹر حسان النوری کی تصاویر بنی ہوئی تھیں، ووٹر کو کسی ایک تصویر کے نیچے بنے خانے میں صحیح کا نشان بنانا تھا۔ ووٹرز کے انگوٹھے پر مخصوص سیاہی لگائی جارہی تھی تاکہ وہ دوبارہ ووٹ کاسٹ نہ کرسکے۔ صبح سات بجے پولنگ کا آغاز ہوا تھا اور شام کے سات بجے تک پولنگ کا وقت مقررکیا گیا لیکن ووٹرز پولنگ اسٹیشنز میں جمع تھے، لہٰذا مزید پانچ گھنٹوں کا اضافہ کیا گیا اور رات بارہ بجے تک پولنگ جاری رہی۔
بانیاس سے طرطوس کا سفر بھی ایک یاد گار سفر تھا۔ دائیں ہاتھ پر بحر متوسط اور دائیں ہاتھ پرسرسبز پہاڑیاں۔ بانیاس میں اور طرطوس تک درمیانی راستے میں ٹنل فارمنگ مقامی افراد کا ذریعہ آمدنی ہے۔ زیادہ تر آلو اور ٹماٹر کی ٹنل فارمنگ کی جاتی ہے۔ پہاڑی پر ایک خوبصورت چرچ نظر آیا تو اس سے چند قدموں کے فاصلے پرایک اچھی سی مسجد بھی دکھائی دی۔ شامی لفظ مسجد استعمال نہیں کرتے۔ مسجد کو جامع کہتے ہیں۔ بانیاس کی بلدیہ کے قریب بھی ایک جامع موجود تھی۔ طرطوس شہر میں سمندر کے قریب بحریہ کی عمارت الشرکت العامہ طرفا طرطوس میں پولنگ اسٹیشن میں بھی گہماگہمی دیدنی تھی۔
یاد رہے کہ ہم جس بھی پولنگ اسٹیشن میں گئے وہاں صدارتی امیداروں کی پولنگ ایجنٹوں اور پولنگ کے عملے سے بھی انتخابی عمل کے بارے میں سوالات کیے۔ نہ تو ووٹرزاور نہ ہی پولنگ ایجنٹوں نے کہیں دھاندلی کی شکایت کی۔ سب انتخابی عمل سے مطمئن تھے، کوئی ایک بھی شکایت سننے کو نہیں ملی۔ ڈاکٹر جمال ابوالعباس اٹلی میں شام کے سفیر ہیں، ان کا تعلق بھی طرطوس سے ہے اور وہ بھی الیکشن میں ووٹ ڈالنے آئے ہوئے تھے۔
غسان محمد، ڈاکٹر حسان النوری کے پولنگ ایجنٹ نے بتایا کہ وہ جمہوریت کے استحکام اور زیادہ عوامی شرکت کے لیے الیکشن میں شریک ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہی جمہوریت کاحسن ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ سیاسی و انتخابی عمل میں شریک ہوں۔ مدیریۃالصحت طرطوس میں خواتین ہی خواتین نظر آرہی تھیں۔ یہاں بہت ہی دلچسپ حقیقت سے آگاہی ہوئی۔ صدارتی امیدوار ماہر حجار سنی عرب مسلمان ہیں اور ان کی پولنگ ایجنٹ جولندا جمالۃ ایک مسیحی خاتون۔ ڈاکٹرحسان النوری بھی سنی عرب امیدوار تھے لیکن ان کی پولنگ ایجنٹ سناء ایک علوی مسلمان عرب خاتون تھیں۔
شامیوں کے لیے یہ ایک تکلیف دہ بات تھی کہ ان سے ان کی مذکورہ نوعیت کی شناخت کے لیے سوال کیا جائے۔ بہرحال ان سے معذرت کی گئی اور انھیں بتایا کہ شام دشمن ممالک شام کی حکومت پر فرقہ واریت کا الزام لگاکر انھیں دنیا بھر میں بدنام کررہے ہیں، اس لیے یہ جاننا بہت ضروری تھا۔ لیکن اس سے زیادہ اہم حقیقت جو معلوم ہوئی وہ یہ تھی کہ شام کی حکومت کے کل 32 وزراء میں سے 21 سنی عرب اور 2 مسیحی عرب ہیں۔ شام کے رئیس الوزراء یعنی وزیراعظم، وزیر دفاع اور وزیر خارجہ ہی نہیں بلکہ اسپیکر مجلس الشعبی (قومی اسمبلی) بھی سنی عرب ہیں۔ اسپیکر ہی الیکشن عمل کے نگران بھی ہیں۔ کرد اور علوی بھی حکومتی نظام میں نمائندگی رکھتے ہیں۔ شام کے معروضی حقائق یہ ہیں لیکن دنیا میں اسے علوی اور شیعہ بنا کر سنی مسلمانوں کو گمراہ کیا جارہا ہے۔
طرطوس کا کنٹونمنٹ علاقہ معسکر باسل الاسد شہید سے لبنان محض 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس علاقے میں 500 شامی خاندان مہاجرین کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔ رقہ، حلب، ادلیب سے تعلق رکھنے والے شامی یہاں بہت مطمئن اور مسرور نظر آئے۔ پاکستان سمیت دنیا میں ایسے افراد کے لیے آئی ڈی پیز (IDPs) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے یعنی Internally Displaced Persons۔
شام کے ان تمام علاقوں میں پولنگ ہوئی جہاں بشار حکومت کا کنٹرول مضبوط تھا۔ گوکہ حلب شہر میں شامی حکومت کا کنٹرول ہے لیکن اس کے نواحی علاقے میں دہشت گرد بدستور مصروف عمل ہیں۔ ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر ووٹرز کی قطار کے قریب مارٹر گولہ آکر گرا تو 6 سالہ بچے سمیت کئی افراد شہید ہوگئے۔ یہ بچہ اپنے بزرگوں کے ہمراہ الیکشن دیکھنے آیا تھا۔ خوش قسمتی سے اس کے والد اور چچا بچ گئے۔ اسپتال میں انھوں نے عالمی مبصرین سے سوال کیا کہ ان کا اور ان کے بچے کا کیا قصور تھا؟ کیا ملک میں پرامن سیاسی انتخابی عمل میں شرکت کرنا جرم ہے؟
بشارالاسد کے مخالف امیدار حسان النوری نے بعد ازاں دمشق میں پریس کانفرنس میں بہت ہی اہم بات کی۔ انھوں نے ذرائع ابلاغ اور مبصر مشن پر واضح کیا کہ شام کے صدارتی الیکشن کو تین صدارتی امیدواروں کے مابین مقابلہ تصور نہ کیا جائے بلکہ یہ شام اور شام کے ان دشمنوں کے درمیان مقابلہ ہے جو شام میں دہشت گردی کروا رہے ہیں۔
ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ صدارتی امیدواروں میں سے جو بھی جیتے گا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تینوں جیت گئے۔ یہی شام کا مجموعی موڈ تھا۔ شام کے الیکشن میں پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ پیغام تھا کہ دہشت گرد وں کو بھلے امریکا کی مدد حاصل ہو، وہ اتنے طاقتور نہیں کہ عوام اور حکومت کے حوصلوں کو شکست دے سکیں۔ شام نے جس طرح دمشق، طرطوس، اللاذقیہ، قصیر اور دیگر علاقوں سے دہشت گردوں کو مار بھگایا ہے، وہ واقعی قابل ستائش ہے۔ آج شام کے بیشتر علاقوں میں عوام پرامن ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔