پیچیدہ ذہنی پیچاک
بات چل رہی تھی نفس اور ان کے مسائل کی۔ ڈھکے چھپے انداز میں ہم نے ان خاص مسائل کا تذکرہ بھی کیا
بات چل رہی تھی نفس اور ان کے مسائل کی۔ ڈھکے چھپے انداز میں ہم نے ان خاص مسائل کا تذکرہ بھی کیا جن کے پیچھے ''جنسیات'' کارفرما ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں کئی لوگوں نے رابطہ کیا ہے، ہم کوشش کریں گے کہ ای میل کے ذریعے آپ کی تشفی ہوسکے۔ ہم پہلے بھی اپنی مجبوری کا تذکرہ کرچکے ہیں کہ اخباری پالیسی کے مطابق مخصوص موضوعات پر صرف ایک حد تک بحث کرسکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ''وہ'' موضوعات تشنہ رہ جاتے ہیں، لیکن جس حد تک ہوسکا آپ کے عمومی نفسیاتی مسائل پر ہم ان ہی کالموں میں گفتگو کرسکیں گے۔
آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ہر آدمی ''انجان'' ہے، آپ جن لوگوں کو جاننے پہچاننے کا دعویٰ کرتے ہیں درحقیقت آپ انھیں بھی نہیں جانتے، نہیں پہچانتے۔ دوسروں کا کیا ذکر ہے، آپ خود اپنے آپ سے بھی واقف نہیں۔ آپ کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتے کہ فلاں اور فلاں حالات میں آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟ مثلاً ایک دوست آپ کی توہین کرتا ہے اور آپ کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچاتا ہے، اس سلسلے میں آپ قدرتی طور پر متعدد طرز عمل اختیار کرسکتے ہیں۔ (1) گالی کا جواب گالی اور تھپڑ کا جواب گھونسے سے دیں گے۔
(2) اس وقت خاموش ہوجائیں اور اپنی توہین کا انتقام کسی دوسرے وقت پر اٹھا رکھیں۔ (3) ہتک عزت اور توہین نفس کا بالکل اثر ہی نہ لیں اور دوڑ کر دوست کو گلے لگا لیں۔ (4) اس وقت یہ پورا معاملہ آپ کو مضحکہ خیز نظر آئے، لیکن دوسرے روز جو آپ بستر خواب سے اٹھیں تو پہلی بات یہی یاد آئے کہ کل ایک دوست نے آپ کی سخت توہین کی تھی اور آپ کا سینہ اشتعال سے لبریز ہوجائے۔ (5) آپ خاموشی کے ساتھ دوست سے کنارہ کشی اختیار کرلیں اور عمر بھر اس سے سیدھے منہ بات نہ کریں۔ (6) آپ اپنی کمزوری محسوس کرکے دوست کے خلاف سازش کریں۔
الغرض ایک مہیج یعنی ایک واقعے سے نمٹنے کے لیے آدمی مختلف طریقے اختیار کرسکتا ہے لیکن پہلے سے پورے بھروسے کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آدمی لازمی طور پر یہ راستہ اختیار کرے گا یا وہ؟ جانور اور انسان میں یہی فرق ہے کہ حیوانی ردعمل کی پیشگوئی بہت حد تک ممکن ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اگر ہم جانور کو ڈرائیں گے تو یا تو وہ حملہ کردے گا یا بھاگ جائے گا لیکن انسان کے بارے میں یہ بات پورے وثوق سے نہیں کہی جاسکتی۔ آپ خود اپنے کسی ممکن طرز عمل یا ردعمل کے بارے میں عام اندازہ لگا سکتے ہیں، حتمی طور پر کوئی بات نہیں کہہ سکتے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی آدمی کے عمل اور ردعمل کا پیشگی تعین نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح ہر آدمی اور ہر انسان پیچیدہ ہے۔
لیکن جہاں تک ذہنی مریضوں کا تعلق ہے تو وہ پیچیدہ تر حیثیت رکھتے ہیں۔ بیرونی یا اندرونی مہیجات اور محرکات کے مقابلے میں ان کا جوابی عمل اور زیادہ الجھا ہوا اور غیر یقینی ہوتا ہے۔ اگر ایک نارمل آدمی مبتلائے محبت ہوجائے تو اگرچہ فوری طور پر اس کا ردعمل بھی وہی ہوگا جو ایک نفسیاتی بیمار کا ہوسکتا ہے یعنی شدید اشتعال یا شدید اضمحلال، لیکن ذہنی صحت مند اور ذہنی بیمار میں فرق یہ ہے کہ نارمل آدمی رفتہ رفتہ حالات سے مطابقت پیدا کرلیتا اور ناکامی محبت کو بخوبی یا بہ مجبوری سہار لیتا ہے لیکن ذہنی بیمار ہمیشہ کے لیے ٹوٹ پھوٹ کر رہ جاتا ہے۔
میں نے عرض کیا کہ ہر واقعے کی نسبت کمزور ذہن رکھنے والے شخص کا ردعمل بے حد پیچیدہ ہوتا ہے۔ اس چیز کو بھی امر واقعہ تسلیم کرلیجیے کہ زندگی جوں جوں پیچیدہ ہوتی چلی جاتی ہے، نفسیاتی پیچاک (Complex) بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اس صدی کو بجاطور پر نفسیاتی امراض کی صدی کہا گیا ہے، ایک طرف پرانے نظام تصورات اپنی اہمیت زائل کرچکے ہیں، اب ان کی حیثیت اہرام مصر سے زیادہ نہیں کہ جن کی قدامت اور عظمت کی تعریف تو کی جاسکتی ہے لیکن ان کو کسی مفید مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا اور دوسری طرف کوئی نیا ہمہ گیر نظام تصورات وجود میں آیا نہیں جس پر لوگ اپنے عقیدے کی بنیاد رکھ سکیں۔
البتہ جن ملکوں میں نئے تصوراتی نظام وجود میں آگئے ہیں مثلاً سوشلسٹ ممالک، وہاں ذہنی کشمکش اور فطری تصادم کے وہ آثار نظر نہیں آتے جو نام نہاد آزاد دنیا (امریکا، یورپ اور ان کے ذیلی ممالک) کی خصوصیت بن گئے ہیں۔ یہاں سوشلزم کی خوبی و خامی سے بحث نہیں، نقطہ بحث یہ ہے کہ کروڑوں افراد سوشلزم اور اس کے نظریات اور تعلیمات پر سچا، گہرا اٹل اور بے لاگ عقیدہ رکھتے ہیں اور اپنی تمام ذہنی اور نفسیاتی مشکلات کا حل سوشلسٹ نظام حیات کو سمجھتے ہیں، ان کا یہی عقیدہ انھیں روحانی ٹوٹ پھوٹ اور ذہنی شکست و ریخت سے بچائے ہوئے ہے۔ فرد بے عقیدہ ہو یا قوم، ممکن نہیں کہ وہ ذہنی خلا میں زندگی بسر کرسکے۔ آج کل یہ ذہنی خلا وسعت پذیر ہے اور اسی لیے نفسیاتی کشمکش تیز سے تیز تر ہوتی چلی جارہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس پرشور دنیا میں ذہنی صحت مندی کی زندگی کس طرح بسر کی جائے؟ یہ ایک طویل بحث ہے، اس وقت تو صرف یہ سمجھ لیجیے کہ ہم میں سے ہر فرد کو اپنی ذمے داری قبول کرنی پڑے گی۔ کردار سازی و تعمیر و تنظیم شخصیت کی جو مشقیں ہم تجویز کررہے ہیں یہ ہمیں اسی ذاتی ذمے داری کا سبق دیتی ہیں۔ عام طور پر جو لوگ کمپلیکسز یعنی اندرونی پیچاکوں میں مبتلا رہتے ہیں، ان میں خوف، وہم، مایوسی، بیزاری، احساس کمتری، تشویش، غصہ، ہیجان، بے اعتمادی اور ضعف ارادہ کو نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ خوف کی بے شمار قسمیں ہیں، وہم کے ان گنت روپ ہیں، مایوسی اور بیزاری کے اظہار کے لاتعداد طریقے ہیں۔
ہر شخص اپنے آپ سے الجھا ہوا ہے اور اس کی یہ الجھن صرف اسی کی ذات سے مخصوص ہے۔ آپ نفسیاتی امراض کے معالجوں کے پاس جائیں گے تو وہ آپ کے لیے سکون بخش یا خواب آور یا سن کردینے والی گولیاں تجویز کردیں گے۔ یہ گولیاں دماغ کے بعض حصوں کو غیر احساس یا ''سن'' کردیتی ہیں اور آدمی وقتی طور پر اپنی ذہنی خلش سے نجات پالیتا ہے لیکن یہ کوئی مستقل علاج نہیں۔ دماغ کے کسی حصے کے غیر حساس بن جانے سے شخصیت کی بنیادی پیچیدگی حل نہیں ہوتی، عارضی افاقہ ضرور ہوجاتا ہے، بنیادی شکایت بدستور باقی رہ جاتی ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ انسانی شخصیت کی ازسرنو تنظیم کی جائے اور پرانے ذہن کے ٹوٹے پھوٹے ملبے سے نیا ذہن بنایا جائے، جب ہی اس پرشور دنیا میں ہم ایک پرسکون شخصیت کے مالک بن سکتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ عمل آسان نہیں۔ اگر نفسیاتی مریض میں یہ صلاحیت باقی ہوتی کہ وہ اپنے ارادے کی قوت سے اپنے طرز فکر کو بدل کر بیرونی حالات اور ضروریات سے مطابقت پیدا کرلے تو اسے ذہنی مریض کون کہتا۔ ذہنی مریض کی شکست کا راز ہی یہ ہے کہ سعی و کوشش کے باوجود وہ خود کو بدلنے سے قاصر رہتا ہے۔ خود اس کے اندر ایک ایسی منفی اور تخریبی قوت یا مدمقابل ارادہ پیدا ہوجاتا ہے جو اصلاح احوال کی تمام کوششوں کو ملیامیٹ کردیتا ہے۔ جب بھی آپ شدید ذہنی الجھنوں میں مبتلا ہوں تو بطور خود ان کا حل تلاش کرنے کے بجائے کسی معتبر کو اپنا رازدار بنالیں اور اس پر بے کم و کاست اپنی مجبوریوں اور کمزوریوں کا انکشاف کردیں۔ حد سے زیادہ دماغی کشمکش اور اندرونی ہیجان کو کم کرنے کے لیے دوسروں کی مدد حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی آدمی دلدل میں دھنس جائے تو ضروری ہے کہ وہ کسی کا ہاتھ پکڑکر باہر نکلنے کی کوشش کرے۔ ''ڈوبتے کو تنکے کا سہارا'' یہ کہاوت ہی نہیں حقیقت بھی ہے۔