عید پر اسرائیلی مظالم کا سلسلہ جاری رہا

غزہ میں 7 اکتوبر سے شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اب تک 33 ہزار فلسطینی شہید جبکہ 76 ہزارسے زائد زخمی ہوچکے


Editorial April 13, 2024
غزہ میں 7 اکتوبر سے شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اب تک 33 ہزار فلسطینی شہید جبکہ 76 ہزارسے زائد زخمی ہوچکے۔ فوٹو: فائل

مقبوضہ فلسطین کے علاقے غزہ میں عید کے دنوں میں بھی اسرائیلی افواج کی جانب سے بمباری کا سلسلہ جاری رہا۔

غزہ میں 7 اکتوبر سے شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اب تک 33 ہزار فلسطینی شہید جبکہ 76 ہزارسے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب غزہ میں کھنڈرات میں جھولوں کے بغیر عید کا تہوار منایا جا رہا ہے۔ فلسطینی بچوں نے کھنڈرات میں تبدیل چھت کو جھولا بنایا۔

فلسطین میں اسرائیلی بمباری اور غزہ میں ڈھائے مظالم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں،لاکھوں فلسطینی شہریوں کوخوراک کے عدم تحفظ کا سامنا ہے جبکہ 2 سال سے کم عمر کے 31 فیصد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔دنیا بھر کے مسلمان ممالک کی طرح فلسطین میں بھی عید کا سماں ہے لیکن ہر مسلمان کی آنکھ اشکبار ہے اور خوشی کے اس موقعے پر لوگ فلسطینیوں سے اظہار محبت اور اظہار یکجہتی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

دہشت گردی کی جو مثال اس وقت اسرائیل نے قائم کی ہے وہ تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔عالمی برادری کا دہرا معیار دیکھیے کہ کئی دہائیوں سے جاری اسرائیلی بربریت کے جواب میں اسے حماس کا حملہ اور فلسطینیوں کا خود کا دفاع دہشت گردی لگنے لگا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جان چاہے مسلمانوں کی جائے یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی، مساوی طور پر تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔

اسرائیل نے غزہ پر ظلم کی انتہا کرتے ہوئے تمام انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا دیں، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ برطانیہ، یورپ اور امریکا جو خود کو انسانی حقوق کے تحفظ کے علمبردار مانتے ہیں، مسلسل اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ امداد تو غزہ بھی بھیجی ہے جو کہ اسرائیل کی جانب سے پوری کوشش ہے کہ فلسطینیوں تک نہ پہنچے، لیکن مسلم امہ کے حکمران خاموش تماشائی کیوں بنے ہوئے ہیں؟

اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم پر دنیا کا دہرا معیار سامنے آ چکا ہے، وہی مغرب جو یوکرین روس کی جنگ میں تو روس کی مذمت کرتے نہیں تھکتا اور پوری دنیا پر زور ڈال رہا ہے کہ یوکرین روس جنگ میں یوکرین کی مالی و عسکری نہیں تو کم از کم اخلاقی مدد تو ضرور کی جائے لیکن جب فلسطین کی باری آتی ہے تو یہی مغرب جو مظلوم کا ساتھی ہونے کا دعویدار ہے اس کا دوغلا پن ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطین پر اسرائیل دن رات بمباری کر رہا ہے، معصوم بچوں کو شہید کر رہا ہے، غزہ اس وقت مکمل طور پر اسرائیلی بمباری سے زمین بوس ہو چکا ہے،سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ اسرائیلی بمباری سے شہید ہو چکے ہیں۔

ہسپتال مردہ خانوں میں بدل گئے ہیں، خواتین اور بچوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے ، ہر ایک کو اسرائیل ظلم کا نشانہ بنا رہا ہے اور اتنا ظلم ڈھانے کے باوجود امریکا اور یورپ کی نظر میں فلسطینی ظالم اور اسرائیلی مظلوم ہیں، مغرب جو خود کو آزادی رائے کا علم بردار قرار دیتا ہے اس کے اکثر ممالک میں فلسطین کی حمایت میں احتجاج کرنے اور اسرائیل کو ظالم کہنے پر پابندی لگا دی گئی ہے جو اس بات کا مظہر ہے کہ اس وقت مغرب حقیقی معنوں میں ظالم کا ساتھی ہے اور یہ مغربی دنیا کی شہ ہے جس کی وجہ سے وہ مشرق وسطی کا نقشہ بدلنے کی دھمکیاں لگا رہا ہے۔

اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو ایک کھلے زنداں میں بدل دیا ہے جس کو چاروں جانب سے بند کر کے نہ تو انہیں غزہ کی پٹی سے نکلنے دیا جا رہا ہے اور نہ ہی انہیں خوراک اور میڈیکل کی سہولیات فراہم کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے بھی ہو رہے ہیں اور مسلم حکمران اسرائیل کے اس عمل کی مذمت بھی کر رہے ہیں۔

اس وقت سب سے پہلا کام جنگ روکنا ہے تا کہ اسرائیل کی ظالمانہ بمباری سے فلسطینیوں کو بچایا جا سکے اور اس کام کیلئے امت مسلمہ کو ایک ہونا ہو گا جس طرح مغرب اسرائیل کی حمایت میں سامنے آیا ہے ایسے ہی مسلم ممالک کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے فلسطین کی حمایت میں ایک ہونا ہو گا تاکہ اسرائیل کو یہ پیغام پہنچ جائے کہ فلسطینی اکیلے نہیں ہیں۔

فلسطینی مسلمانوں پر وحشیانہ بم باری کے علاوہ فلسطین میں موجود اسرائیلی فوج بھی مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنے میں مصروف ہے۔

اسرائیلی فوجی آئے روز نہتے، معصوم مسلمانوں کے گھروں میں زبردستی داخل ہو جاتے ہیں اور گھروں میں گُھس کر توڑ پھوڑ کے علاوہ خواتین، بچوں اور بزرگوں کو زدو کوب بھی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، معصوم لڑکوں اور نوجوانوں کو کسی جرم کے بغیر ہی گرفتار کرلیتے ہیں اور اُن پر ہر قسم کا ظلم روا رکھا جاتا ہے۔

ارضِ فلسطین پر عالمی طاقتوں کی ملی بھگت اور عسکری امداد کے ذریعے اسرائیل نامی یہودی ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔گرچہ اسرائیلی ریاست کا قیام مئی 1948ء میں ہولو کاسٹ اور دوسری عالمی جنگ کے بعد عمل میں آیا، لیکن اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان جاری تنازع کی تاریخ اس سے بھی خاصی پرانی ہے۔

مغربی دنیا خود کو سب سے زیادہ تہذیب یافتہ اور امن کی علم بردار قرار دیتی ہے۔ امریکا اور مغربی طاقتوں کی ایما پر اقوام متحدہ جنگوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز بلند کرتی ہے، جب کہ یونیسیف سمیت یو این او کے دیگر ذیلی ادارے خواتین اور بچوں کی فلاح و بہبود کے نام پر بے تحاشا رقم خرچ کرتے ہیں، لیکن فلسطین میں کم و بیش گزشتہ 6ماہ سے اسرائیل کی وحشیانہ بم باری کے نتیجے میں 33ہزار سے زاید اموات پر، جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے، مغربی طاقتوں اور اُن سے وابستہ مذکورہ بالا اداروں کا مصلحت آمیز رویہ ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

دولت مند اسلامی ممالک کے حکمرانوں کا اقتدار امریکا کی تمام باتیں مان لینے اور مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے کے بعد بھی محفوظ نہیں اور امریکا ایک ایک کرکے ان ممالک میں نہ صرف اقتدار میں تبدیلی لارہا ہے بلکہ مختلف حیلوں بہانوں سے خانہ جنگی پیدا کرکے انہیں مکمل تباہ و برباد کررہا ہے اور ان کے تمام وسائل پر قابض ہوتا چلا جارہا ہے۔اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی دولت کا زیادہ حصہ امریکا و یورپ میں بڑی بڑی کمپنیوں اور کاروبار کی شکل میں موجود ہے اور ان حکمرانوں کے معاشی مفادات بھی امریکا و یورپ ہی سے ہیں۔

اس لیے بھی وہ ان ممالک کی مرضی کے خلاف کوئی بات کرنے کو قطعی تیار نہیں۔دولت مند اسلامی ممالک فلسطینیوں کی اس قدر مدد کرتے ہیں کہ انہیں اپنے ممالک میں رہائش و ملازمت دیکر اسرائیلی مظالم سے نجات دلا دیتے ہیں یعنی نہ تو فلسطینی وہاں ہونگے ا ور نہ ہی اسرائیلی مظالم کا نشانہ بنیں گے۔ اسی طرز عمل کے باعث ہی اسرائیل مسلسل اپنی حدود میں توسیع کرتا چلا جارہا ہے ۔

مسلم حکمران اب بھی ہوش کے ناخن لیںاور مرحلہ وار اپنی دولت اور سرمایہ امریکا و یورپ سے نکال کر باصلاحیت اور قدرتی وسائل سے مالا مال غریب اسلامی ممالک میں خرچ کریں جہاں ان کا سرمایہ بھی محفوظ ہوگا اور مسلمانوں کو اس دولت سے طاقت حاصل ہوگی اور چند سالوں میں یہ غریب مسلم ممالک معاشی استحکام حاصل کرلیں گے جس سے مستقبل میں امریکا و یورپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جاسکے گی۔

فی الحال تو حالت یہ ہے کہ دولت مند اسلامی ممالک کے حکمران اپنے اقتدار و سرمائے کو بچانے کیلئے امریکا و یورپ کے مرہون منت ہیں تو غریب اسلامی ممالک امریکا و یورپ کے مقروض ہونے کی وجہ سے خاموش رہنے پر مجبور ہیں۔

موجودہ صورتحال میں زیادہ ذمہ داری تو دولت مند اسلامی ممالک پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اصلاح کریں اور مرحلہ وار اپنی سرمایہ کاری و دولت منتقلی امریکا و یورپ کے بجائے غریب اسلامی ممالک کی جانب موڑ دیں تاکہ یہ غریب اسلامی ممالک یورپ و امریکا کا قرض ختم کرلیں تو یہی ممالک مستقبل میں دنیا بھر میں اسلام کی موثر ترین آواز ثابت ہوسکتے ہیں۔

اسلامی سربراہی کانفرنس میں اس معاملے پر موثر حکمت عملی ترتیب دی جانی چاہیے کہ اقوام متحدہ کا کردار اگر مظلوم مسلمانوں کیلئے اسی طرح کا رہتا ہے تو تمام اسلامی ممالک اقوام متحدہ کو ایک ساتھ خیرباد کہہ دیں کیونکہ اقوام متحدہ کے قیام سے لیکر اب تک یہی ہوا ہے کہ جہاں غیر مسلموں کو مسلمانوں سے آزادی درکار ہے وہاں راتوں رات متفقہ قرارداد منظور کراکر چند دنوں میں اس پر مکمل عملدرآمد کرایا جاتا ہے جیسا کہ مشرقی تیمور اور سوڈان میں کیا گیا لیکن کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرارداد عملدآمد کی منتظر ہے اور جہاں مسلمانوں کو غیر مسلموں کے مظالم سے چھٹکارا اور آزادی درکار ہوتی ہے وہاں اقوام متحدہ کا کردار ایسا ہوتا ہے جیسے یہ ادارہ موجود تک نہ ہو۔اس طرز عمل کے باوجود اقوام متحدہ میں مزید شریک رہنا مسلم ممالک کیلئے فائدے کے بجائے نقصان کا سبب بنتا رہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں