جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمن
جماعت کی داخلی سیاست سے جڑے افراد کو حافظ نعیم الرحمن سے بہت سی سیاسی امیدیں ہیں
حافظ نعیم الرحمن کا جماعت اسلامی کا نیا امیر بننا یقینی تھا ۔ کیونکہ موجودہ قیادت میں جو آپشن موجود تھا، اس میں حافظ نعیم الرحمن ہی بہترین چوائس تھے۔
پچھلے کئی برسوں سے انھوں نے اپنے آپ کو ایک بڑی قیادت کے طور پر پیش کیا تھا اور بالخصوص ان کی سوچ اور فکر کا بنیادی نقطہ شہریوں کے مسائل او رمعاملات کے حل میں پہلے سے موجود روائتی سیاست یا حکمت عملیوں کے مقابلے میں خود کو نئی جہتو ں کے طور پر پیش کرنا تھا۔
جماعت کی داخلی سیاست سے جڑے افراد کو حافظ نعیم الرحمن سے بہت سی سیاسی امیدیں ہیں کہ وہ جماعتی داخلی سیاست میں کچھ نئی تبدیلیوں کے ساتھ خود کو بھی اورجماعت کی بھی نئی شکل بنانے میں کلیدی کردار ادا کریں گے ۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی بنیادی طور پر اپنی سیاسی اور بالخصوص انتخابی سیاست سے جڑی بقا کی جنگ لڑرہی ہے ۔کیونکہ پچھلے کئی دہائیوں سے جماعت اسلامی انتخابی سیاست میں تنہائی کا شکار ہے۔
اس وقت جماعت اسلامی کی جو بھی سوچ ہے اور جو کچھ سابق امیر جماعت اسلامی کی حکمت عملی تھی اس میں یقینی طور پر تبدیلی کے امکانات موجود ہیں کیونکہ جماعت کی سیاسی حکمت عملیوں یا طور طریقوں پر خود جماعت کے اپنے اندر بھی بہت سے سوالات بھی ہیں اور تحفظات بھی ہیں ۔اسی طرح جو کچھ آج قومی سیاست میں داخلی ، علاقائی اور خارجی محاذ پر ہورہا ہے اس میں جماعت اسلامی خو دکہاں کھڑی ہے او ر کس حد تک وہ خود کو تمام حالات میں ایک بڑے فریق کے طور پر پیش کرے گی۔
جماعت اسلامی میں یہ احساس موجود ہے کہ ہم انتخابات کی سیاست میں کیونکر سیاسی تنہائی کا شکار ہیں اور مجموعی طور پر ان کو اس میدان میں نئی سیاسی حکمت عملیوں کی ضرورت ہے۔ جماعت نے انتخابی سیاست میں دونوں ماڈل کو اختیار کیا جن میں انتخابات میں اتحادی سیاست کا بھی اور اپنی علیحدہ شناخت پر انتخاب لڑنے کا بھی اور یہ ہی دو ماڈل میں سے مستقل طور پر کسی ایک ماڈل کا انتخاب کرنا ان کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ۔
جماعت اسلامی نے ماضی میں مذہبی جماعتوں پر مشتمل اتحاد '' متحدہ مجلس عمل '' کی بنیاد پر بھی انتخاب لڑا اور سیاست کی ۔یہ مذہبی جماعتوں کا ایک مشترکہ اتحاد تھا اس اتحاد نے جماعت اسلامی کو مضبوط کم اور کمزور زیادہ کیا یا یہ لوگ مولانا فضل الرحمن کی اقتدار سے جڑی سیاست میں ایک بڑے معاون کے طور پر استعمال ہوئے ۔ اسی طرح اسلامی جمہوری اتحاد بھی اس وقت کی اسٹیبلیشمنٹ کا ہی ایک کھیل تھا اور جماعت اسلامی نے بھی اس عمل میں ان کے لیے سہولت کاری کا کردار ادا کیا۔
ایک تجربہ قاضی حسین احمد کی صورت میں اسلامک فرنٹ کی بنیاد پر بھی کیا گیا جو ابتدائی سطح پر ہی ناکامی ہی دوچار ہوگیا او راس منصوبہ کو جماعت کی داخلی سیاست میں کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے نتیجہ میں اس منصوبے کو بندکردیا گیا ۔اس وقت مذہبی سیاسی کارڈ یا اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت سے جڑے کارڈ کے مقابلے میں جماعت اسلامی کو ایک آزاد، خود مختار اور قومی معاملات کے حل میں ایک مضبوط سیاسی اتحاد کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور اس اتحاد میں اس کو اپنی سیاست میں اس تاثر کی بھی نفی کرنا ہوگی کہ وہ اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت سے جڑی جماعت ہے۔
اس وقت جو قومی سیاست کا منظر ہے اس میں جو بڑے بڑے مسائل جن میں گورننس، سیاست ، جمہوریت، آئین ، قانون کی حکمرانی ، اسٹیبلیشمنٹ کی مداخلت، منصفانہ اور شفاف انتخابی نظام ہے اس میں بنیادی نوعیت اور غیر معمولی اقدامات کی مدد سے تبدیلیاں درکار ہیں اور جماعت کو ثابت کرنا ہوگا کہ ان مسائل کے حل میں ان کو نظرانداز کرکے سیاسی یا حکومت آگے نہیں بڑھ سکے گی ۔
حافظ نعیم الرحمن اب محض کراچی کے امیر نہیں رہے بلکہ ان پر پورے ملک کی ذمے داری ہے ۔ اس ذمے داری میں محض کراچی کے مسائل سے باہر نکل کر پورے ملک کے مجموعی مسائل کے ساتھ خود کو بھی جوڑنا اور پارٹی کو بھی ان مسائل سے جوڑ کر ایک متبادل سیاسی نظام یا ترقی کا عملی ماڈل پیش کرنا ہی بڑا چیلنج ہے بالخصوص نئی نسل کو کیسے وہ جماعت اسلامی کی طرف لاسکتے ہیں اور کیونکر آج کی نئی نسل جماعت اسلامی کا عملی انتخاب کرے اس پر جماعت کو ضرور غورکرنا چاہیے۔
مسائل کی نوعیت سیاسی ، جمہوری ، انتظامی ، قانونی ، معاشی اور سیکیورٹی جیسے امور سے ہی جڑی ہوئی ہے ۔ نئی نسل ایک ایسا پاکستان چاہتی ہے جہاں اسے سیاسی او رمعاشی دونوں بنیادوں پر ترقی کرنی ہے اور جس میں بلاوجہ مذہبی کارڈ کھیل کر ان کے حقیقی مسائل کو نظرانداز کرنے کی پالیسی نئی نسل کوقبول نہیں ۔یعنی جماعت اسلامی کے سیاسی بیانیہ میں قومی مسائل کی عملی جھلک نمایاں طور پر نظر آنی چاہیے او راس سوچ کو پیدا کرنا ہوگا کہ مسائل کا حل ان کے پاس بھی ہے ۔
اسی طرح جماعت اسلامی کو اپنے خدمت خلق کے شعبہ اور سیاسی شعبہ کو علیحدہ علیحدہ بنیادوں پر چلانا چاہیے اور جو لوگ بھی سماجی خدمت کے شعبہ جات سے منسلک ہیں ان کو عملی سیاست یا عہدوں سے دور رکھا جائے ۔جماعت اسلامی کو اپنی سیاسی ترجیحات میں مقامی حکومتوں کے نظام کو بنیادی فوقیت دینی چاہیے او راگر جماعت اسلامی مقامی حکومتوں کے نظام میں اپنی اہمیت منواتی ہے تو اس کے لیے صوبائی اور قومی سطح کی سیاست میں راستہ مل سکتا ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے نظام کا تسلسل اور اس نظام کی خود مختاری اور موجودگی کو یقینی بنانا ان کی سیاسی ترجیحات کا اہم حصہ ہونا چاہیے ۔لیکن اس کے لیے ان کے پاس ایک مضبوط مقامی حکومتوں کے ماڈل کا خاکہ ہونا چاہیے او راسی بنیاد پر ان کی سیاسی جدوجہد کی عملی شکل بھی نظر آنی چاہیے ۔انتخابی سیاست میں جیت کی صورت میں ان کی فوری واپسی ممکن نہیں اس کے لیے ان کو واقعی ایک بڑی جنگ لڑنی ہے۔
لیکن اس جنگ کو لڑنے میں اگر وہ درست سیاسی حکمت عملی، سیاسی سمت اور راستوں کا تعین کرلیں جس کی بنیاد ایک مضبوط جمہوری اور سیاسی نظام ہے تو ان کی بات کو آگے جاکر سمجھا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے دیکھنا ہوگا کہ نئے امیر جماعت خود اپنی سیاسی ٹیم کا انتخاب کیا کرتے ہیں یا یہ ٹیم روائتی ہوگی یا اس میں نوجوان طبقہ ہوگا جو نئے امیر کی سیاسی سوچ کے ساتھ او رحالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔نئے امیر جماعت ایک جارحانہ مزاج رکھتے ہیں لیکن ان کو تدبر کے ساتھ اور موثر سیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر جماعت اسلامی کا سیاسی او رجمہوری تشخص کو پیش کرنا ہے ۔
اس وقت جو سیاسی کشیدگی یا تناو ہے یا جو اختلاف کی جگہ سیاسی دشمنی نے لے لی ہے اس میں بھی جماعت اسلامی کو آگے بڑھ کر اس خلیج کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ نئی جماعت کی قیادت کو ایک بڑی گول میز کانفرنس کی مدد سے جس میں تمام سیاسی جماعتوں ، سول سوسائٹی ، میڈیا اور وکلا کی مدد سے چند بنیادی نقاط پر اتفاق پیدا کرنا اور بڑ ی جدوجہد کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ماضی کی سیاسی غلطیوں کا اعتراف کرکے حال او رمستقبل میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہم خود کو غیر سیاسی قوتوں کی سیاست او رایجنڈے سے دور رہیں گے اور سیاسی خود مختاری او رجمہوری سیاست پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
جماعت اسلامی کو یقینی طور پر پاپولر سیاست درکار ہے اور اچھی بات ہے کہ نئے امیر بھی خود جوان ہیں جوانوں کی ہی نمائندگی کرتے ہیں ۔لیکن ان کو چاہیے کہ وہ اپنی سیاست میں محاذآرائی ، ٹکراو ، تناو اور ہیجانی کیفیت پیدا کرنے کی بجائے مضبوط سیاسی حکمت عملیوں کی بنیاد پر آگے بڑھیں اور اگر وہ خود کو ان حالات میں موجود بحران کے تناظر میں ایک بڑ ے کردار کے طور پر پیش کرسکے تو آگے بڑھنے کا راستہ مل سکتا ہے۔
جماعت کو روائتی سیاست او رپس پردہ قوتوں کی عملی سیاست کے نظام کو چیلنج کرنا ہے اور ایک متبادل سیاست کی آواز کو بیدار کرنا ہے ۔ وہ بطو رامیر جماعت نئی نسل کے راہنما ہیں۔ کراچی کی سطح پر جو عملی سیاست انھوں نے کی ہے اس سے اگرچہ و ہ انتخابی سیاست میں کوئی بڑا معرکہ پیدا نہیں کرسکے لیکن سیاسی سطح پر اس سوچ کو انھوں نے ضرور قائم کیا ہے کہ وہ جماعت کو اپنے موجودہ بحران سے باہر نکالنے کا عزم رکھتے ہیں ۔