فریادی
حاکمان وقت مضطرب و فکر مند کہ بگڑے ہوئے معاملات کو سیدھا کرنے، سنوارنے اور مستحکم کرنے کی کیا سبیل کریں
وطن عزیز آج اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، ہر شعبہ زندگی زوال کا شکار ہے۔ نہ معیشت مستحکم ہے، نہ سیاسی استحکام ہے اور نہ ہی عدلیہ کی آزادی کا بھرم قائم ہے۔
حاکمان وقت مضطرب و فکر مند کہ بگڑے ہوئے معاملات کو سیدھا کرنے، سنوارنے اور مستحکم کرنے کی کیا سبیل کریں۔ عوام بے چین، مایوس اور ناامید کہ ان کے مسائل و مشکلات میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور حکومت کے پاس ان کی پریشانیوں کو دور کرنے اور انھیں آسودہ زندگی فراہم کرنے کا کوئی واضح منصوبہ یا پالیسی نہیں کہ کس طرح عوام کے غم غلط کیے جائیں گے۔
انتخابات سے قبل کروڑوں غریب لوگوں سے ان کی غربت، پسماندگی، بے روزگاری اور گرانی دور کرکے خوش حالی لانے کے جو بلند و بانگ دعوے کیے گئے تھے وہ کب اور کیسے پورے ہوں۔ سیاسی و معاشی ماہرین کی یہ پختہ رائے ہے کہ معاشی استحکام کے بغیر نہ عوامی مسائل بالخصوص غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی ملک میں سیاسی استحکام آ سکتا ہے۔
اس کے برعکس معاشی عدم استحکام سے غربت میں اضافے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جیسا کہ عالمی بینک کی ایک تازہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران 1.8 فی صد کی معمولی شرح نمو اور 26 فی صد بلند شرح مہنگائی کے باعث مزید ایک کروڑ پاکستانی خط غربت سے نیچے جا سکتے ہیں۔
عالمی بینک نے اپنی دو سالہ پاکستان ڈیولپمنٹ آؤٹ لُک رپورٹ میں واضح طور پر کہا ہے کہ پاکستان اپنے بڑے میکرو اکنامک اہداف حاصل نہیں کرسکے گا اور نہ ہی بنیادی بجٹ ٹارگٹ حاصل کر پائے گا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں شرح غربت 40 فی صد کی موجودہ بلند ترین سطح پر رہنے کا امکان ہے، 9.8 کروڑ کے لگ بھگ پاکستانی پہلے ہی غربت کا شکار ہیں اور مزید ایک کروڑ افراد خط غربت کے قریب قریب کھڑے ہیں۔
رپورٹ میں مزید یہ بتایا گیا کہ زرعی پیداوار میں اضافے کا غریب طبقے کو فائدہ پہنچنا چاہیے تھا مگر مہنگائی اور مختلف شعبوں میں محدود تنخواہوں کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں مزدوروں کی دیہاڑی میں صرف پانچ فی صد اضافہ ہوا ہے جب کہ مہنگائی کی شرح 30فی صد سے زائد تھی۔ عالمی بینک نے خبردار کیا ہے کہ روزمرہ کے بڑھتے ہوئے اخراجات، اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں اضافے اور علاج معالجے میں تاخیر کا باعث بن سکتے ہیں۔
عالمی بینک کی مذکورہ رپورٹ میں مالیاتی خسارے کی جو بات کی گئی ہے اس میں 18 فی صد حصہ سرکاری اداروں کا شامل ہے جن پر سال 2022 میں ایک ہزار 1303 ارب کے اخراجات آئے۔ عالمی بینک نے پی آئی اے، پاکستان اسٹیل ملز اور این ایچ اے کے نقصانات کم کرنے اور انرجی سیکٹر کے ساتھ پنشن اور سول سروس میں اصلاحات کو ناگزیر قرار دیا ہے۔
عالمی بینک کی متذکرہ رپورٹ اس بات کی عکاس ہے کہ وطن عزیز اس وقت بدترین مالی و اقتصادی بحران کا شکار ہے، تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور مالیاتی خسارے میں مسلسل گمبھیر اور سنگین مسائل ہیں۔ قرضوں کا دباؤ مزید بڑھتا جا رہا ہے کہ پرانے قرضے اتارنے کے لیے مزید قرضوں کا حصول ناگزیر ہوتا جا رہاہے۔
رمضان المبارک میں گراں فروشی عروج پر رہی، پھل فروٹ سے لے کر دیگر ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتیں کنٹرول کرنے کے حکومتی دعوے نقش بر آب ثابت ہوئے۔ عام آدمی کے لیے سحری و افطاری کا انتظام کرنا ممکن نہ رہا، تو رمضان سے جڑا عید الفطر کا تہوار غریب و متوسط طبقے کے لیے ایک کڑی آزمائش بن جاتا ہے۔
مہنگائی کے عفریت نے غربت و متوسط طبقے سے عید کی خوشیاں چھین لی ہیں، پورا ملک غربت کی لپیٹ میں ہے کراچی جو ملک کا معاشی حب کہلاتا ہے اور سب سے زیادہ ریونیو دینے والا ملک کا سب سے بڑا شہر ہے یہاں کے شہری اسٹریٹ کرائمز سے لے کر گرانی کے عذاب تک سب خاموشی سے جھیل رہے ہیں اور حاکمان وقت کو کوئی احساس نہیں ہے۔
مارکیٹ سروے کی ایک رپورٹ کے مطابق کپڑوں، جوتوں اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں 30 سے 50 فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔ 25 فی صد گھرانے عید کی خریداری سے محروم ہیں۔ غیر مسلم ممالک میں مذہبی تہواروں کے موقع پر تاجر حضرات اشیا سستی کر دیتے ہیں تاکہ غریب آدمی خوشیوں میں شریک ہو سکے جب کہ ہمارے ہاں تہواروں پر لوٹ مار کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔
آخر غریب آدمی کب تک غربت و مہنگائی کی چکی میں پستا رہے گا؟ آخر کب تک اسے حکمرانوں کے اللے تللے کا بوجھ اٹھانا پڑے گا؟ کب تک اس کی زندگی میں پسماندگی، بیماری اور جہالت کے اندھیرے چھائے رہیں گے؟ حکمران فریادی عوام کی فریاد کا ازالہ کب کریں گے؟