مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی یقینی طور پر خطے کےلیے نقصان دہ ہے، لیکن اس حوالے سے مختلف قسم کی آراء کو باریک بینی سے دیکھنا بہرحال ضروری ہے۔
پہلی رائے یہ کہ اس حملے سے نقصان کیا ہوا اور کس فریق کو فائدہ کیا ہوا؟ حملہ کرنے والے فریق کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ قونصل خانے پر ہونے والے حملے کا بدلہ لیا گیا۔ اور اس موجودہ حملے کو یقینی طور پر ملک کے اندر اپنی سیاسی ساکھ اور ملک سے باہر خارجہ امور کے محاذ پر اپنی کامیابی سے تعبیر کیا جائے گا اور یقینی طور پر ایسا ہی کیا جانا مقصود تھا۔
اس حملے کے دوران کم لاگت کے ڈرونز اور میزائلز کا استعمال کرتے ہوئے ایک انتہائی محتاط ردعمل دیا گیا ہے۔ اس بات کو جانچنے کےلیے اہم یہ ہے کہ (بقول عالمی برادری) ایک پوشیدہ نیوکلیئر طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا ملک اگر اسی طاقت پر انحصار کرتے ہوئے اس طاقت پر مشتمل وار ہیڈ کے میزائلز بھیج دیتا (بیوقوفی کرتے ہوئے)، تو بے شک مطلوبہ سرزمین پر نہ بھی گرتا اور فضا میں بھی ناکارہ بنا دیا جاتا تو نقصان بے پناہ ہوسکتا تھا۔ جس خطے پر بھی اس کو ناکام بنایا جاتا وہ خطہ تباہی کی طرف جاتا اور یہ یقینی طور پر اس وقت حملہ کرنے والا فریق نہیں چاہے گا کہ اس سے دنیا میں تنہائی اور سفارتی محاذ پر بھی مشکلات پیش آسکتی تھیں۔ لہٰذا جوابی حملہ کرنے والے فریق نے اس حملے کو بلاشبہ پوائنٹ اسکورنگ اور میدان میں برابری کےلیے استعمال کیا اور وہ اس میں کامیاب بھی رہا۔
کامیابی اس لیے بھی شمار کی جاسکتی ہے کہ جہاں الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے بھی پر جلتے ہیں وہاں میزائل تو کیا ایک شرلی کا رخ بھی مخالف فریق کی طرف کرنا کامیابی گردانی جاسکتی ہے۔ اور عالمِ اسلام میں اس سے پہلے جو دو آرا پائی جاتی تھیں کہ خطۂ فارس پراکسی وار کے ذریعے اپنے مفادات کو ہی ترجیح دیتا ہے، اس حملے کے بعد وہ عالمِ اسلام میں اپنا وقار بڑھا چکا ہے۔
ایک حیران کن تاثر یہ ابھر رہا ہے کہ مسلکی تقسیم کو پس پشت ڈال کر لوگ اس اقدام کو سراہ رہے ہیں۔ وجہ دیگر اہم اسٹیک ہولڈرز کی بے بسی کہی جاسکتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے تمام اسلامی ممالک سفارتی لحاظ سے پوائنٹ زیرو پر کھڑے ہیں۔ وہ اپنا اسکور شروع ہی اس وجہ سے نہیں کرپائے کہ ابھی دل میں برا خیال کرنے کو ہی ترجیح دے رہے ہیں اور 56 اسلامی ممالک کا اتحاد بھی وقت کی گرد میں کہیں دب چکا ہے، جس اتحاد سے خطۂ فارس کو الگ تھلگ رکھا گیا تھا۔ جب کہ خطۂ فارس سے عرصہ ہوا زبانی اعلان کے بعد اب عملی قدم نے عالمِ اسلام میں اس کے وقار کو فائدہ پہنچایا ہے۔ اور شنید یہی ہے کہ خارجہ امور کے محاذ پر اس حوالے سے اپنی ریاست کےلیے ایک کردار کا واضح تعین کیا جائے گا۔
دوسرے فریق کی عسکری طاقت کی قائل پوری دنیا ہے۔ کیوں کہ ہر جائز و ناجائز حربے سے اس کی مدد عالمی طاقتیں کرتی ہیں۔ دو بہترین قسم کے دفاعی نظام اس وقت فریق دوم کی ریاست میں نہ صرف مکمل فعال ہیں بلکہ ان پر کثیر سرمایہ بھی صرف کیا جا رہا ہے۔ اس میں سے ایک نظام کی خاصیت تو یہ ہے کہ وہ ایسے حملہ آور کی نشاندہی کرکے اسے تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ جو آبادی پر گر رہا ہے، اس طرح دیگر میزائل کو غیر آباد علاقوں میں گرنے دینے سے انہیں تباہ کرنے کا خرچ بھی بچایا جاتا ہے۔ لیکن حالیہ حملے میں فریق دوم کے دعوے کے مطابق تمام ڈرونز اور میزائلز کو منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کردیا گیا ہے۔ اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے اور دیگر عالمی محتاط جائزوں کے مطابق اس حملے کو روکنے پر ایک ارب ڈالر سے زائد کے اخراجات آئے ہیں۔ اس حوالے سے اہم نکتہ یہ ہے کہ فریق اول کی جانب سے حملے میں نہ صرف سست رفتار ڈرونز استعمال کیے گئے بلکہ کم لاگت کے میزائلز کا استعمال بھی ہوا۔ سپر سانک میزائل، یا نیوکلیئر وارڈ ہوتا تو پھر حالات کیا ہوتے؟ یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے جس کا جواب عالمی برادری جتنا جلد نکالے گی اتنا ہی خطے کےلیے بہتر ہے۔
اس پورے قضیے میں جو بنیادی نقصان فریق دوم کا ہوا، وہ یہ ہے کہ خطے میں ایک خوف کی فضا قائم تھی۔ اس ایک حملے سے یقینی طور پر کچھ چہ مگوئیاں ضرور ابھرنا شروع ہوگئی ہیں۔ خوف کا ایک بت جو قائم تھا اس میں اگر مکمل دراڑ نہیں تو کم از کم اس چوٹ سے ہلکا سا نشان بہرحال ضرور آیا ہے۔ لبنان سے مصروفِ عمل مزاحتمی گروپ، یمن سے برسرِ پیکار افراد، شام اور عراق سے خطۂ فارس کا ساتھ دینے والے عناصر یقینی طور پر خوف کا بت توڑنے کی مل کر کوشش کر رہے ہیں۔ اور آنے والے وقتوں میں خطۂ فارس کے اس حملے سے اگر مشرق وسطیٰ میں قائم خوف کا یہ بت ٹوٹ گیا تو اس کے نتائج کیا ہوں گے، اس پر یقینی طور پر انکل سام کے طفل کو نہ صرف سوچنا ہوگا بلکہ وہ لمحہ آنے سے پہلے ہی سرزمینِ قبلۂ اول پر جاری ظلم و ستم کو روکنا ہوگا۔ ورنہ ایک دفعہ خوف کا یہ بت ٹوٹ گیا تو پھر اس کو اپنے وجود کی بقاء کے لالے پڑ جائیں گے اور ایسا نہ ہو کہ خطۂ فارس کا یہ حملہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوجائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔