گندم اور مہنگائی
اگر کبھی مہنگی خریداری ہوئی ہے تو اس کی تحقیقات کر کے آیندہ کے لیے اس کا سدباب کرنا ضروری ہے
پنجاب حکومت کی جانب سے گندم کا سرکاری ریٹ 3900 روپے فی من مقررکردیا گیا ہے۔ بہت سے علاقوں میں گندم کی کٹائی کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔
گندم کٹائی سے قبل ہی حکومت گندم کی فی من خرید کا تعین کر دیتی ہے اور خریداری مراکز قائم کر دیے جاتے ہیں۔ جہاں سرکاری اہلکار گندم کی خریداری کے لیے اپنا کام بڑی تیزی تندہی سے سر انجام دینے لگتے ہیں۔
دوسری طرف ایک بہت بڑا طبقہ ہوتا ہے جسے مختلف نام دیا جاتا ہے کہیں اسے آڑھتی کہا جاتا ہے کہیں وچولے اور کہیں دیگر ناموں سے یہ لوگ مارکیٹوں میں غلہ منڈیوں میں بازاروں میں کھیتوں میں کسانوں، غریب کاشتکاروں کے درمیان ہوتے ہیں۔
کہیں گندم کے ڈھیر کے پاس کھڑے ہو کر کسان کو باورکراتے ہیں کہ ابھی تک تو گندم خریداری کا عمل شروع ہی نہیں ہوا۔ اس سال تو بڑا اچھا بہانہ ہاتھ لگ گیا ہے کہ نئی نئی حکومت آئی ہے، ابھی خزانہ بھی خالی ہے، دیکھو جب ہی ابھی تک ( تادم تحریر) خریداری مراکز میں کارکن ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور خریداری نہیں شروع ہوئی۔
موسمیاتی تبدیلی تمہاری گندم کے اس ڈھیر پر نظر گاڑے بیٹھی ہے۔ دیکھو مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں میں شدید بارشوں میں بڑے بڑے کرین و ڈمپر تک بہہ کر چلے گئے ہیں۔ تمہارے اس گندم کے ڈھیر کا تو پتا بھی نہیں چلے گا۔ بلوچستان میں تیز بارشوں کے سبب سڑکیں تک بہہ گئی ہیں، پل ٹوٹ گئے تو بھلا بتاؤ یہ گندم کا ڈھیر کتنی دیر کی بارش برداشت کر لے گا اور پھر بارش میں ساری گندم بھی خراب ہو جائے گی۔ میرا ڈالا کھڑا ہے میرے ٹرک کھڑے ہیں، مزدور بھی موجود ہیں، بوریاں بھی موجود ہیں، وزن کرنے کی مشین بھی ساتھ لایا ہوں ، ابھی ابھی قیمت لو اور گندم حوالے کرو۔
گزشتہ سال 38 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریداری کا ہدف صوبہ پنجاب میں مقرر کیا گیا تھا جس میں سے محکمہ خوراک پنجاب کی طرف سے 3 مئی 2023 تک 28 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدی جا چکی تھی لیکن اس مرتبہ اب تک معاملہ سست ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آیندہ چند دنوں میں یہ سلسلہ تیز ہو کر رہے لیکن اس وقت بہت سے کاشتکار مایوس ہو کر اونے پونے داموں گندم فروخت کرنے پر مجبور ہیں اور 3900 کے بجائے ان سے نجی افراد یا تاجر وغیرہ 3 ہزار سے 3200 روپے فی من تک گندم خرید رہے ہیں۔
اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ جب سرکاری نرخ مقرر کردیے گئے، خریداری مراکز قائم کر دیے گئے تو ایسی صورت میں دنوں کے بجائے گھنٹوں اور منٹوں میں خریداری کا عمل کیوں شروع نہیں کیا گیا؟
اول اہداف ہی اتنے کم مقرر کیے جاتے ہیں، پاکستان میں اس سال فروری تک 27 لاکھ 58 ہزار 3 سو میٹرک ٹن گندم درآمد کی جا چکی ہے جس کے بارے میں اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عالمی منڈی کے ریٹ سے بعض اوقات مہنگی بھی خریدی گئی تھی۔ بہرحال اس بارے میں بھی مکمل معلومات کا ہونا ضروری ہے، اگر کبھی مہنگی خریداری ہوئی ہے تو اس کی تحقیقات کر کے آیندہ کے لیے اس کا سدباب کرنا ضروری ہے۔
پاکستان میں تقریباً 28 سے 29 ملین میٹرک ٹن گندم کی کھپت ہوتی ہے اور گزشتہ برس پیداوار 26 سے 27 ملین میٹرک ٹن کے درمیان ہی رہی جس کے باعث گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان گندم درآمد کر رہا ہے، گزشتہ سال ستمبر 2023 سے جنوری 2024 تک نجی سیکٹر نے 19 لاکھ80 ہزار ٹن گندم درآمد کرلی تھی۔ اس سال بھی ہو سکتا ہے کہ ستمبر سے دوبارہ نجی شعبہ گندم درآمد کرنا شروع کردے۔
بعض حلقوں کے تحت یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ آٹے کی 10 کلو تھیلے کی قیمت میں کمی ہوگئی ہے۔ گزشتہ برس حکومت سندھ کی جانب سے 10 کلو آٹے کی سستی فروخت کا عمل شروع ہوا تھا جوکہ ایک لحاظ سے مکمل مقدار میں رہا اور اس میں بڑی قباحتیں بھی سامنے آئیں، مثلاً دکاندار نے جان پہچان کے لوگوں کو 3 سے 4 آٹے کی 10 کلو والی تھیلیاں فراہم کر دیں جس کے باعث سیکڑوں افراد اکثر آٹے کی خریداری سے محروم رہے۔
اس کے علاوہ غیر معیاری آٹے کی شکایات بھی سامنے آتی رہیں، گندم، آٹا چونکہ اب انتہائی حساس ترین معاملہ قرار پا چکا ہے کیونکہ بہت سی اشیا کی تیاری میں آٹا اہم ترین جزو کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ 2022 کے سیلاب کے موقع پر بہت سے گوداموں میں بارش کا پانی داخل ہونے کے سبب سرکاری گندم خراب ہو گئی تھی۔
حیرت کی بات ہے نجی تاجر جن کے پاس ذرایع بھی نہیں ہوتے اتنے زیادہ انتظامات بھی نہیں ہوتے لیکن پھر بھی ان کی گندم کا ایک دانہ بھی ضایع نہیں ہوتا، لہٰذا سرکاری سطح پر جو گندم ضایع ہوتی ہے یا چوری ہو جاتی ہے اس کے ذمے داروں کو فوری سزا دی جائے تو آیندہ ایسی کوئی خبر شایع نہیں ہوگی لہٰذا زیادہ سے زیادہ گندم ذخیرہ کی جائے اور سرکاری نرخ کے مطابق ہر کاشتکار کو ادائیگی کی جائے۔