انتہا پسندی پر مبنی رجحانات اور دہشت گردی کا چیلنج
سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کرنا ہوگی
قومی سلامتی اور معاشی ترقی کا ایک بنیادی نقطہ معاشرے میں موجود انتہا پسندی پر مبنی رجحانات اور دہشت گردی کا چیلنج ہے ۔ یہ چیلنج نیا نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے ہم اس چیلنج سے نمٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔
کئی دفعہ اس چیلنج میں ہمیں وقتی کامیابیاں بھی ملی ہیں مگر مستقل طور پر ہم ابھی بھی مجموعی طور پر حالات جنگ کی کیفیت کا شکار ہیں ۔کیونکہ ایک طرف معاشرے میں مجموعی طور پر رواداری سمیت برداشت کے کلچر میں کمی ، انتہا پسندانہ رجحانات میں اضافہ ، سیاسی و مذہبی بنیادوں پر بڑھتی ہوئی تقسیم اور ٹکراو کا ماحول، اداروں کی سطح پر ان حالات سے نمٹنے کی حکمت عملی پر تقسیم کے پہلونمایاں ہیں تو دوسری طرف ان مسائل سے فائدہ اٹھا کر انتہا پسندعناصر انفرای یا اجتماعی طور پر ریاست کی رٹ کو چیلنج کرکے دہشت گردی جیسی کاروائیوں کو تقویت دیتے ہیں۔
جو ہمارا داخلی سیاسی ، معاشی اور سیکیورٹی سمیت ادارہ جات کی سطح پر بحران ہے اس نے بھی انتہا پسند عناصر کو موقع دیا ہے کہ وہ ہماری داخلی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے تشدد پر مبنی ایجنڈے کو بڑی طاقت دے کر ریاستی نظام کو کمزور کریں ۔
ایک طرف پاکستان معاشی ترقی سے جڑے امکانات کو پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ علاقائی اور عالمی ممالک سمیت وہاں کے بڑے بڑے کاروباری اور سرمایہ دار طبقہ کو دعوت دی جارہی ہے کہ وہ یہاں کاروبار بھی اور سرمایہ کاری بھی کریں ۔یقینی طور پر اگر باہر کی دنیانے یہاں آکر کاروبار یا سرمایہ کاری کرنی ہے تو ان کی اولین شرط ملک میں امن وامان کی صورتحال ،محفوظ سیکیورٹی اور دہشت گردی کے خاتمہ سے جڑی ہے ۔ کیونکہ کوئی بھی ملک یا انفرادی طور پر فرد اس وقت تک معاشی سرمایہ کاری نہیں کرے گا جب تک اس کو اپنی جان سمیت لگائے جانے والی سرمایہ کاری کے تحفظ کی ضمانت نہیں ہوگی۔
حالیہ کور کمانڈر کانفرنس کا جو مشترکہ اعلامیہ بھی سامنے آیا ہے اس میں جو چند نکات پر فوقیت دی گئی ہے ان میں دہشت گردی کے خاتمہ سمیت سازگار ماحول ، دہشت گردوں کا خاتمہ ، امن وامان کی صورتحال اور ایک منظم حکمت عملی کے تحت ملک میں اداروں کے خلاف چلائی جانے والی منفی مہم اور انتہا پسند رجحانات کے خاتمہ سے جڑی ہوئی ہے ۔ان کے بقول دہشت گردوں کو کسی بھی جگہ سے فعال نہ ہونے کی حکمت عملی پر توجہ دی جائے گی ۔ اسی طرح جس منظم انداز سے ملکی سطح پر اداروں کے بارے میں منفی ماحول کو بنیاد بنا کر مہم چلائی جارہی ہے اس کاخاتمہ بھی ناگزیر ہے ۔
یہ بات درست ہے کہ کچھ عرصہ سے ملک میں انتہا پسندیا دہشت گردوں نے دہشت گردی کو بنیاد بنا کر ہماری داخلی سلامتی کے لیے مسائل کو پیدا کردیا ہے ۔بلوچستان ، خیبر پختونخواہ ، فاٹا ، شمالی وزیر ستان سمیت دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کی آزدانہ کاروائیاں ریاستی نظا م کے لیے نیا چیلنج بن گیا ہے ۔
نیشنل سیکیورٹی پالیسی ، نیشنل ایکشن پلان ، پیغام پاکستان ، دختران پاکستان پر مبنی ٹھوس پالیسیوں کی موجودگی اور ان پر عملدرآمد کے لیے وفاقی ، صوبائی اور ضلعی سطح پر قائم ایپکس کمیٹیوں کی موجودگی میں دہشت گردی کا دوبارہ ہونا یا دہشت گردوں کا دوبارہ خود کو مضبوط بنانا یا ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنا جہاں ہمیں جنجھوڑتا ہے وہیں کچھ غیر معمولی اقدامات کی طرف بھی ہماری توجہ دلاتا ہے۔ کیونکہ اگر ہم نے دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ جیتنی ہے تو یہ کام سیاسی تنہائی میںیا کسی ایک فریق کی ذمے داری لینے سے ممکن نہیں ہوگا۔
دہشتگردی کا یہ چیلنج ریاستی چیلنج ہے او راس سے نمٹنے کی حکمت عملی بھی ریاستی سطح پر تمام فریقو ں کی فیصلہ سازی میں شمولیت اور عملی سخت گیر اقدامات کے بغیر ممکن نہیں ۔کیونکہ خطرہ یہ ہے کہ اگر ہم نے اجتماعی طور پر انتہا پسند رجحانات ، بڑھتی ہوئی تقسیم اور پر تشدد عمل یا دہشت گردی کا راستہ روکنے کی کامیاب کوشش نہ کی تو بات محض دہشت گردی تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کی ایک بھاری قیمت کمزور سیاسی و جمہوری نظام سمیت کمزور اور بدحال معیشت یا لوگوں کا ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کی بنیاد پر اداکرنا ہوگی۔
جو عالمی ادارے ،ممالک اور افراد پاکستان میں معاشی بنیادوں پر نئے امکانات سے جڑنے کی جن کوششوں کا حصہ ہیں ان کے لیے ناقص سیکیورٹی، دہشت گردی کی بنیاد پر موجود خوف اور غیر یقینی حالات سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم ملک کے داخلی سیاسی مسائل یا جو تقسیم سمیت ریاستی اداروں کے خلاف چلائی جانے والی منفی مہم کو نظر انداز کرکے معاشی ترقی کو یا اس سے جڑے اہداف کو ممکن بناسکتے ہیں ، تو جواب نفی میں ہوگا۔کیونکہ معاشی ترقی کی بنیادی سیڑھی مضبوط سیاسی نظام اور مضبوطی کی بنیاد پر قائم سیاسی و جمہوری حکومت ہے ۔یہ جو ہم سیاسی اور جمہوری مسائل کو نظرانداز کرکے یا ان کی اہمیت کو کم کرکے اپنی پوری توجہ معیشت تک معاملات کو محدود رکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں، وہ ہمیں کسی بھی صورت میں مطلوبہ نتائج نہیں دیں سکیں گے۔
معاشی ترقی کے لیے ہمیں قومی سطح پر جہاں زیادہ سنجیدگی ، ٹھوس بنیادوں پر غور فکر یا حکمت عملی کا تعین درکا رہیں وہیں ہمیں اجتماعی طور پر ملک میں سیاسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈ ونچرز سے باہر نکل کر ریاستی و سیاسی وجمہوری نظام کے پروسیس آگے بڑھنے دیں ۔ایسے لگتا ہے کہ ہماری دہشت گردی سے نمٹنے کی یا تو صلاحیت کا مسئلہ ہے یا ہماری کمزور سیاسی کمٹمنٹ یا عدم ترجیحات کے مسائل تو دوسری طرف دہشت گردی سے نمٹنے کی مکمل ذمے داری ہم ایک ادارے پر ڈال کر خود کو بچانا چاہتے ہیں ۔
المیہ یہ ہے کہ ہم نے پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کو کمزور کردیا ہے یا یہ تمام سیاسی عناصر اس جنگ کے خاتمہ کے لیے کوئی بھی بڑا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں اورایسے لگتا ہے کہ سیاسی عناصر کی ترجیحات میں دہشت گردی سے جڑے مسائل شامل نہیں ۔ سیاسی قیادتیں یہ الزام بھی اسٹیبلیشمنٹ پر لگاتی ہیں کہ علاقائی ، خارجہ پالیسی سمیت دہشتگردی سے جڑے مسائل میں ان کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی اسٹیبلیشمنٹ ان کو اس سے جڑی فیصلہ سازی میں حصہ دینے کے لیے تیار ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی قیادتوں کا موقف ہے کہ دہشت گردی سے جڑے معاملات کی ذمے داری ہماری نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی ہے اور وہ ہی ان پر جوابدہ ہے ۔یہ حکمت عملی غلط ہے او رہم مجموعی طور پر اس تضاد کی ایک بڑی قیمت قومی سیکیورٹی کی ناکامی کی صورت میں ادا کررہے ہیں ۔ اس لیے اس کا ازالہ ہونا چاہیے ۔
اسی طرح اگر ہم یہ ہی سمجھنے ہیں کہ معاشرے میں موجود انتہا پسند رجحانات یا اداروں کے بارے میں چلائی جانے والی منفی مہم کا علاج طاقت کے استعمال سے ہی جڑا ہوا ہے تو اس پر بھی غور ہونا چاہیے۔ ہمیں جہاں ضرورت ہو طاقت کا استعمال کرنا چاہیے لیکن ہر چیز کا علاج طاقت کو بنیاد بنا کر ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے سیاسی حکمت عملیوں اور سیاسی اقدامات کی بنیاد پر بھی ہونا چاہیے۔
دہشت گردی کے خاتمہ میں بیانیہ کی جنگ میں سیاسی حکمت عملی، بیانیہ بنانے کی جنگ کے محرکات یا عوامل کو سمجھ کر سیاسی ،علمی اور فکری حکمت عملی کو بھی اختیار کرنا ہوگا۔یہ جو ہم نے قومی سطح پر بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان بنایا اس میں آج کے حالات کے مطابق کچھ نئی ترامیم ، نئی حکمت عملی او رنئے اقدامات کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہوگا لیکن اس کے لیے ہر سطح پر اور ہرفریق کے ساتھ مشاورت اور فیصلہ سازی کے عمل میں شفافیت کا عمل درکار ہے ۔کیونکہ اگر ہم نے مختلف اہم فریقوں کو نظرانداز کرکے حکمت عملی کو پہلے کی طرح آگے بڑھایا تو نتائج ماضی یا حال سے مختلف نہیں ہوگا۔
سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کرنا ہوگی اور سیاسی جماعتیں اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر ہی جیت سکتی ہیں ۔ ہماری اسٹیبلیشمنٹ ، عدلیہ ، حکومت اور ریاست سے جڑے دیگر تمام سیاسی و غیر سیاسی ، سیکیورٹی کے اداروں کو باہمی طور پر یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمیں کئی محاذوںپر ناکامی ہورہی ہے اور دہشت گردی کا یہ عمل مجموعی طور پر پورے ریاستی نظام کو کمزور کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم داخلی سیاست کے تضادات اور ٹکراو پر مبنی کھیل سے خود بھی باہر نکلیں اور دوسروں کو باہر نکلنے کا موقع دیں تاکہ سیاسی قیادتیں منصفانہ اور شفاف سیاسی نظام یا سیاسی حکومت کی بنیاد پر اس جنگ سے نمٹنے میں کلیدی کردار ادا کرسکیں ۔ دہشت گردی کی یہ جنگ کبھی بھی تضادات اور ٹکراو یا عدم اعتماد پر مبنی پالیسی کی بنیاد پر نہیں جیتی جاسکتی اور ہمیں ترجیحی بنیادوں پر ان تضادات سے باہر نکلنا ہوگا ۔