دعوے نہیں صرف عملی کام
ہمارے ہاں محکمے تو موجود ہیں مگر ان کی کارکردگی صفر ہے مگر شکر ہے اس بار مون سون کا موسم ۔۔۔
پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے موسموں میں بھی شدت بڑھ رہی ہے گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے گلیشیر پگھل رہے ہیں اور ان کے پگھلنے سے کہیں دریاؤں میں پانی کے اضافے سے سیلابی صورتحال کا سامنا ہے تو کہیں دریا سوکھ کر صحرا کا منظر پیش کر رہے ہیں، کیونکہ ہمارے پاس پانی کو اسٹاک کرنے کے لیے ذرایع نہیں ہیں۔
انڈیا ہمارا پڑوسی ملک ہے جس کی تاریخ آزادی بھی وہی ہے جو ہماری ہے مگر اس کی ترقی کی رفتار ہم سے کئی گنا زیادہ ہے آج وہاں ڈیموں کی بڑی تعداد موجود ہے اور جائز ناجائز طریقے استعمال کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے مزید منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، مگر ہم غفلت کی میٹھی نیند سو رہے ہیں۔ 2010-11ء کا سیلابی ریلا ہو یا 2012ء کی شدید بارشوں کی تباہ کاریاں، کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
ہمارے ہاں محکمے تو موجود ہیں مگر ان کی کارکردگی صفر ہے مگر شکر ہے اس بار مون سون کا موسم شروع ہونے سے پہلے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور پرویژنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ نے کچھ پرو ایکٹیو ہونے کی کوشش کی ہے جس کی ایک مثال 11 جون کو منعقد ہونے والی مون سون 2014ء کنسلٹیٹیو کانفرنس (Moon Soon 2014 Consultative) جس میں سندھ گورنمنٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈپارٹمنٹ نے منعقد کیا اور اس میں مختلف شہروں کے کمشنرز نے بتایا کہ انھوں نے اپنے شہروں کے پلان بنا لیے ہیں اور ڈسٹرکٹ سطح پر بھی متوقع ہونے والی تباہی سے بچنے کے لیے اداروں کا تعاون جاری ہے۔
سکھر، خیرپور، لاڑکانہ، بھنبھور وغیرہ سے مختلف ڈپٹی کمشنرز نے یا ان سے متعلقہ لوگوں نے اپنی کاغذی کارروائی کو لوگوں کے سامنے پیش کیا مگر بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ تمام تر کارروائی زبان غیر میں پیش ہوئی تو ہم شرح آرزو کیا کرتے الفاظ کا ایک گورکھ دھندہ ہو اور عام فہم انداز نہ ہو تو ساری بات سر سے گزر جاتی ہے۔ جناب اعلیٰ وہاں سب اپنے تھے ہم سب کو معلوم ہے کہ الحمداللہ سب قابل لوگ ہیں مگر یہ کارروائی اپنی زبان میں ہوتی تو مزید سوالات سامنے آ سکتے تھے۔
دوسری خاص بات جو ہمیں محسوس ہوئی وہ یہ تھی کہ پلان تو بن گئے ضروریات بھی سامنے آ گئیں مگر ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کون سی حکمت عملی اپنائی جائے گی یہ بات خفیہ ہی رہی، کیونکہ پلان بنانا اچھے ہوٹلوں میں لوگوں کو جمع کر کے بریفنگ دینا کام نہیں ہے۔ کام یہ ہے کہ ان منصوبوں کے مطابق کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے پیش رفت ہو سکے اور تمام متعلقہ ادارے آپس میں مربوط ہوں تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے بڑا کام کیا۔
ہمارے اداروں کا تو یہ حال ہے کہ انسانی جانیں ضایع ہو رہی ہیں اور ہم اپنی بلا دوسروں کے سر ڈال کر اپنی بے گناہی ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں ایئر پورٹ جل رہا تھا مگر یہ کیسے سیکیورٹی پروف انتظامات تھے کہ آگ بجھانے کا سامان پورے شہر میں دستیاب نہیں اداروں کی کارکردگی کا پتہ ہی ہنگامی صورتحال میں چلتا ہے ورنہ تو سب اچھا ہے کی رپورٹ ہی ہوتی ہے۔ سول ایوی ایشن ایک اتھارٹی ہے ایک مستحکم ادارہ ہے اس نے پہلے سے پیش بندی کیوں نہیں کی تھی جب کہ ایک عام آدمی کو بھی معلوم ہے کہ اس دہشت گردی کی فضا میں کچھ بھی ہو سکتا ہے تو سول ایوی ایشن والے کس لیے خواب غفلت میں پڑے رہے۔
مزید حیرت یہ ہے کہ اس بھاری مینڈیٹ والی عوامی جمہوری حکومت نے کئی دن گزر جانے کے باوجود کسی ذمے دار کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا کراچی کو جان بوجھ کر تباہ کرنے کی پالیسی پر عمل ہو رہا ہے۔ سرمایہ دار یہاں سے بھاگ رہے ہیں اب ایسی وارداتوں کے بعد غیر ملکی فضائی کمپنیوں نے بھی اعلان کر دیا ہے کراچی میں رات کی فلائٹس بند کر دی گئی ہیں۔ اب دیکھیں آگے آگے ہوتا ہے کیا۔ ٹریول ایجنسی ایک صنعت اختیار کر رہی تھی ہزاروں، لاکھوں لوگ اس سے وابستہ ہیں کارگو شپمنٹ کے ذریعے اربوں کھربوں کا سامان باہر آتا اور جاتا ہے اس کی تباہی کا ذمے دار کون ہے۔
کیا سب کے ضمیر سو گئے ہیں ہمارے وزیر داخلہ تو واقعی کہیں سو گئے تھے کہ ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے، بڑی مشکل سے دستیاب ہوئے آئے اور جھلک دکھلا کر چلے گئے۔ دہشت گردوں کا کام تھا دہشت پھیلانا سو انھوں نے پھیلا دی ہمارا کام حفاظت کرنا تھا ہم کر نہ سکے اسی لیے کسی وزیر باتدبیر باضمیر نے استعفیٰ نہیں دیا۔ شاہ زیب کھڑا دہائیاں دیتا رہا لواحقین کے ساتھ مل کر چلاتا رہا کہ کچھ لوگ کولڈ اسٹوریج میں پھنسے ہوئے ہیں ان کو بہ حفاظت باہر نکالا جائے، مگر ہر ادارہ اپنی بلا دوسرے پر ڈال رہا تھا آخر ان بے گناہوں کی سوختہ لاشیں ہی باہر آئیں کیا مکان پیسہ ان لواحقین کا نعم البدل ہو سکتا ہے؟ جب آپریشن ختم ہو گیا تھا تو کیوں نہ ہر جگہ چپے چپے کی تلاشی نہیں لی گئی جب میڈیا کے ذریعے اطلاع مل گئی تھی کہ کچھ لوگ کولڈ اسٹوریج میں پھنسے ہوئے ہیں تو بروقت کارروائی کر کے انھیں زندہ سلامت کیوں نہیں نکالا گیا۔؟
یہ وہ سوال ہیں جو ایک عام آدمی کے ذہنوں میں مچل رہے ہیں مگر ان کا جواب دینے والا کوئی نہیں۔ سب اپنی سیاست چمکانے میں لگے ہوئے ہیں خوف خدا ہی دلوں سے ختم ہو چکا ہے تو پھر تباہی مقدر بن جاتی ہے جو ذمے داران تھے وہ تو یہ کہہ کر سرخرو ہو گئے کہ یہ ہمارا کام نہیں تھا یہ وفاق کا کام تھا۔ آپ کی بات درست سہی مگر یہ تھا تو سندھ میں جس کے آپ وزیر اعلیٰ ہیں۔ آپ کا کام تھا کہ لوگوں کو بچانے کے لیے جو بن پڑتا وہ کرتے وفاق کا عالم تو اور نرالا تھا وہاں آگ بجھانے والے آلات ہی نہیں تھے۔
آفیسروں کی مراعات کا سلسلہ تو نہ ختم ہونے والا ہے مگر اداروں میں کام کرنے والوں اور دنیا بھر کے آنے اور جانے والے مسافروں کی حفاظت کے لیے آگ بجھانے والے آلات ہی نہیں تھے۔ مختلف چینلز اپیلیں کرتے رہے کہ اگر کسی کے پاس فوم، جوتے، جیکٹیں وغیرہ ہیں تو ایئرپورٹ پہنچا دی جائیں مگر موت کھڑی زندگی پر ہنس رہی تھی کیسے ان لوگوں نے جان دی ہو گی اس سے تو بہتر تھا دہشت گردوں کی گولی سے ہی مر جاتے اپنوں کی دی ہوئی موت بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے اپنے پیاروں سے ملنے کی تڑپ فونز پر مسلسل رابطہ امید کو ناامیدی میں بدلتے دیکھ کر وہ تو وقت سے پہلے ہی مر گئے ہوں گے۔
اگر ساری کارروائی کسی پلاننگ سے کر لی جاتی تو آپریشن مکمل ہونے کے بعد بھی سارے علاقے کو دیکھ لیا جاتا کہ کوئی پھنسا ہوا تو نہیں ہے۔ آگ بجھانے کے بروقت اقدامات کر لیے جاتے تو ان گھرانوں کو صبر آ جاتا۔ کاش کاش مگر اب رونے پیٹنے کا کیا فائدہ۔ بس ابھی بھی وقت ہے ہم اپنی اپنی جگہ اپنی اصلاح کر لیں جو انگلی دوسروں کی خامیوں کی نشان دہی کر رہی ہے وہ خامی اپنے اپنے اندر تلاش کریں اس کو دور کرنے کی کوشش کریں تا کہ آیندہ ایسے سانحات نہ ہوں۔ اب عوام کو بلند و بانگ دعوؤں کی ضرورت نہیں عملی ثبوت چاہئیں۔