قصہ سندھ کی گورنری کا …
جب کامران ٹیسوری کو سندھ کا گورنر تعینات کیا گیا تھا، تب راقم الحروف سمیت کئی لکھاریوں کواس تقرر پر تشویش تھی
کامران ٹیسوری کا تعلق سونے کا کاروبار کرنے والے خاندان سے ہے۔ سیاست کا شوق ہوا تو ایم کیو ایم میں وارد ہوئے، ڈاکٹر فاروق ستار ایم کیو ایم سے علیحدہ ہوئے تو وہ بھی ان کے ہمراہ تھے، پھر ایم کیو ایم کے مختلف گروپوں کا الحاق ہوا تو وہ بھی ایم کیو ایم کا حصہ بن گئے۔
جب صدر آصف علی زرداری نے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا نقشہ ظاہرکیا تو پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم سے معاہدہ کیا، ایم کیو ایم نے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کی، پی ڈی ایم نے حکومت بنائی تو ایم کیو ایم کو وفاق میں وزارتیں اور سندھ کی گورنری ان کے حصے میں آئی۔ ایم کیو ایم کی قیادت نے سینئر رہنماؤں نسرین جلیل،کشور زہرا ، خوش بخت شجاعت اور فرحان چشتی وغیرہ کے نام پیش کیے۔
نسرین جلیل کا تعلق ایک معروف خاندان سے ہے۔ ان کے والد نے پی آئی اے کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ نسرین جلیل ڈپٹی میئرکے عہدے پر بھی کام کرچکی ہیں، سینیٹ کی رکن بھی رہیں۔ سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کی چیئر پرسن بھی رہیں۔ ایم کیو ایم کے خلاف فوجی آپریشن ہوا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں تو انھوں نے ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینرکی حیثیت سے مختلف ممالک کے سفراء اور ہائی کمشنر کو خطوط بھیجے تھے۔
اس ضمن میں ان کا ایک خط بھارتی ہائی کمشنرکو بھی بھیجاگیا تھا، یوں ایم کیو ایم کے اندر سے ان کے خلاف مہم شروع ہوئی۔ کشور زہرا کی سیاسی زندگی اے پی ایم ایس او اور ایم کیو ایم میں گزری، وہ کئی بار قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں،کشور زہرا بنیادی طور پر سماجی کارکن ہیں، وہ ایک زمانے میں عظیم ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی قیادت میں کام کرنے والے ادارے ایس آئی یو ٹی میں شامل تھیں اورفنڈ ریزنگ کی مہم میں اہم کردار ادا کرتی رہیں، وہ معذور بچوں کی بہبود کے لیے ہمیشہ کوشاں رہیں۔
کشور زہرا ایک سیکولر جمہوری ریاست کے قیام پر یقین رکھتی ہیں مگر شاید ان کی یہ خوبیاں فیصلہ سازوں کو پسند نہیں آئیں۔ خوش بخت شجاعت کا شمار ایک زمانے میں بہترین مقررین میں ہوتا تھا اور فرحان چشتی کے بھائی خالد بن ولید ایم کیو ایم کے بانیوں میں شامل تھے جو نامعلوم افراد کے حملے میں جاں بحق ہوئے مگر گورنری کے لیے قرعہ فال ان کے نام کا بھی نہیں نکلا اور اچانک کامران ٹیسوری کو سندھ کا گورنر بنا دیا گیا۔
ایم کیو ایم نے انتخابات کے بعد میاں شہباز شریف کی بطورِ وزیر اعظم، آصف زرداری کی بطورِ صدر اور یوسف رضا گیلانی کی بطورِ چیئرمین سینیٹ حمایت کی تھی۔ اس وقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں یہ طے پایا تھا کہ سندھ اور بلوچستان کے گورنروں کے لیے نام مسلم لیگ ن تجویزکرے گی۔ خیبر پختون خوا اور پنجاب کے گورنرز کے نام پیپلز پارٹی کی طرف سے دیے جائیں گے۔ اب یہ خبریں شایع ہو رہی ہیں کہ صدر آصف زرداری کامران ٹیسوری سے خوش نہیں ہیں۔
جب کامران ٹیسوری کو سندھ کا گورنر تعینات کیا گیا تھا، تب راقم الحروف سمیت کئی لکھاریوں کواس تقرر پر تشویش تھی اور یہ خیال تھا کہ ایم کیو ایم کے کئی پرانے رہنماؤں کو نظر انداز کر کے ایک نئے فرد کو اتنا اہم عہدہ دینا، ایم کیو ایم اور صوبے کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ لیکن کامران ٹیسوری گورنر بنے توگورنر ہاؤس کے دروازے عام آدمی کے لیے کھول دیے گئے۔ رمضان المبارک میں عام آدمی کے لیے مختلف تقریبات کا انعقاد ہوا۔
غریبوں میں پیسے اورکپڑے تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ خواتین کے لیے چاند رات کو مہندی لگانے کا انتظام ہوا۔ پھرانھوں نے نوجوانوں کے لیے آئی ٹی کے مختصر عرصے کے کورسز کرانے کا سلسلہ شروع کیا۔ پورے شہر سے ہزاروں طالب علم ان کورسز سے مستفید ہوئے۔ جب بھی گورنر ہاؤس کے سامنے سے گزر ہوا تو جوان طلبہ و طالبات کا ہجوم نظر آیا۔آئی ٹی کورسز بلا قیمت تھے، یوں نوجوانوں کی صلاحیتیں بہتر ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ بعض نوجوان جنھوں نے کورس کیے ہر مہینے 500 ڈالر تک کما رہے ہیں۔
کامران ٹیسوری نے اسٹریٹ کرائمز میں قتل ہونے والوں کے لواحقین کو معاوضے دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ ا س اقدام سے ان کے غم تو کم نہ ہوئے مگرکچھ مالی مدد ہوگئی۔ گزشتہ دنوں گورنر ہاؤس نے موٹر سائیکل رائیڈرزکے اعزاز میں افطار ڈنرکا اہتمام کیا۔ یہ غریب لوگ دن رات محنت کرتے ہیں مگر ان کو انتہائی قلیل معاوضہ ملتا ہے۔ گورنر کامران ٹیسوری نے گورنر ہاؤس کے دروازے پر گھنٹی لگوا دی، ہر شہری کو اس گھنٹی تک رسائی تھی، مقصد یہ تھا کہ جو بھی گھنتی بجائے گا تو گورنر ہاؤس کے اہلکار اس کی مدد کریں گے ۔
گورنر ٹیسوری نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ حیدرآباد، سکھر اور میرپور خاص میں بھی آئی ٹی کے کورسز شروع کیے جائیں گے۔ ان ساری سرگرمیوں کا بوجھ حکومت سندھ کے خزانے پر نہیں پڑا بلکہ کراچی کی تاجر برادری نے بڑے پیمانہ پر عطیات دیے۔ کامران ٹیسوری نے امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر سخت بیانات بھی دیے، شاید پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ بات ناگوار گزری ہوگی۔ کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ کامران ٹیسوری نے نگراں حکومت میں بعض اہم تقرریوں کے لیے دباؤ ڈالا تھا جس سے پیپلز پارٹی کے رہنما ناراض ہیں۔
سندھ کی تاریخ میں دو عوامی گورنرگزرے ہیں۔ ایک رسول بخش تالپور اور دوسرے جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم ۔ رسول بخش تالپورکو ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ کا پہلا گورنر مقررکیا تھا۔ وہ ہمیشہ سے عوامی آدمی تھے، انھوں نے گورنر ہاؤس کے دروازے سیاسی کارکنوں کے لیے کھول دیے۔
1972 میں طلبہ، مزدور،کسان اور خواتین گورنر ہاؤس کے سامنے اپنے مطالبات پیش کرتے تھے اورگورنر ہاؤس کا عملہ لوگوں کی داد رسی کرتا تھا مگر پھر ذوالفقار علی بھٹو اور رسول بخش تالپور میں اختلافات پیدا ہوئے تو رسول بخش تالپور نے اپنی آخری پریس کانفرنس میں یہ تاریخی جملہ کیا تھا '' وہ کوفہ چھوڑ آئے ہیں'' جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم ایس ایم لاء کالج میں اعزازی لیکچر دیتے تھے۔
گورنر بننے کے بعد بھی وہ باقاعدہ لیکچر دینے جاتے رہے۔ انھوں نے سندھ کی یونیورسٹیوں کے چانسلرکی حیثیت سے ان یونیورسٹیوں کے بنیادی ادارے سینیٹ کے اجلاس کی خصوصی طور پر صدارت کی اور کئی کئی گھنٹے سینئر اساتذہ کی معروضات سنیں اور مناسب فیصلے کیے۔
فخر الدین جی ابراہیم نے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان مصالحت کرانے میں بھی کردار ادا کیا۔ 1988میں کراچی میں امن و امان کی صورتحال خراب تھی۔ ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ اغواء برائے تاوان کا کاروبار عروج پر تھا۔ انھوں نے مخیر تاجروں کی مدد سے سی پی ایل سی کا ادارہ قائم کیا اور گورنر ہاؤس میں اس کا دفتر قائم کیا گیا۔
سی پی ایل سی میں جرائم کی مانیٹرنگ کا جدید نظام قائم کیا گیا جس سے کراچی میں حالات بہتر ہوئے۔ جب صدر غلام اسحاق خان نے پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کو برطرف کیا تو فخر الدین جی ابراہیم کو پیشکش کی گئی کہ وہ اپنے عہدے پر برقرار رہیں مگر فخر الدین نے اصولی بنیاد پر استعفیٰ دیدیا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت میں امن و امان، تعلیم اور ترقیات کے تمام شعبے مایوس کن رہے۔ پیپلزپارٹی معاہدوں کا پاس نہیں کرتی ہے، یوں صوبہ سندھ میں مختلف طبقات کے درمیان پیدا ہونے والے تضادات کو اہمیت نہیں دی جاتی۔
ایم کیو ایم کا بھی اب سارا انحصار فیصلہ ساز قوتوں پر ہے، اگر کامران ٹیسوری کو اس عہدے سے ہٹایا گیا تو صوبے میں مختلف طبقات میں خلیج پیدا ہوجائے گی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اور شہری علاقوں کے عوام میں فاصلے بڑھ جائیں گے جس کا نقصان مجموعی طور پر سندھ میں رہنے والے تمام لوگوں کو ہوگا۔ ''جمہوریت بہترین انتقام '' کا نعرہ لگانے والی پیپلز پارٹی کو کشادہ دلی کا ثبوت دینا چاہیے۔