گلوکارہ زبیدہ خانم کے جادو بھرے گیت
گلوکارہ زبیدہ خانم نے اپنی گائیکی کا آغاز پنجابی فلم شہری بابو سے کیا تھا جس کے فلمساز و ہدایت کار اداکار نذیر تھے
ملکہ ترنم نور جہاں کی موجودگی میں اگر کسی گلوکارہ نے اپنی آواز کا جادو جگایا، زبیدہ خانم تھی، میڈم نور جہاں بھی اس کی تعریف کیا کرتی تھیں۔
زبیدہ خانم کی آواز میں سروں کا رچاؤ بھی تھا اور ایک خاص کھنک بھی تھی جس نے دلوں کو موہ لیا تھا، اس گلوکارہ کو فلمی دنیا سے متعارف کرانے کا سہرا مزاحیہ اداکار آصف جاہ کو جاتا ہے۔
مزاحیہ آرٹسٹ نذر اور دلجیت مرزا کے بعد مزاحیہ اداکار آصف جاہ نے بھی بطور ہدایت کار اپنے کیریئر کا آغاز فلم شیخ چلی سے کیا تھا۔ یہ ایک مزاحیہ رومانٹک فلم تھی، فلم کے موسیقار سلیم اقبال تھے۔
فلم کی کہانی آصف جاہ اور مکالمے ظہیر کاشمیری نے تحریرکیے تھے اور کیمرہ مین مسعود الرحمن تھے۔ فلم کے مرکزی کرداروں میں صبیحہ، اسلم پرویز تھے اور فلم کا ٹائٹل رول آصف جاہ نے ادا کیا تھا۔ زبیدہ خانم کا گایا ہوا گیت جس کے بول تھے:
سیو نی میرا دل دھڑکے
دل دھڑکے نالے اکھ پھڑکے
خاصا مقبول ہوا۔یہ فلم اپنے دور کی ایک کامیاب مزاحیہ فلم تھی، اس گیت کے بعد گلوکارہ زبیدہ خانم صف اول کی گلوکاراؤں میں شمار ہونے لگی تھی۔ موسیقار رشید عطرے، جی۔اے چشتی نے زبیدہ کو خاص طور پر اپنی فلموں میں گوایا ، پنجابی فلموں کے لیے زبیدہ خانم کی آواز سونے پر سہاگے کے مترادف تھی چند پنجابی فلموں کی کامیابی تو زبیدہ خانم کے گیتوں سے جڑی ہوئی تھی۔ چند گیت زبان زدعام تھے:
گلاں سن کے ماہی دے نال میریاں
دوپٹہ بے ایمان ہو گیا
.........
چھڈ جاویں نہ، نہ چناں بانہہ پھڑکے
............
میری چنی دیاں ریشمی تنداں
اور بہت سے اردو فلموں کے گیت جو گلوکارہ زبیدہ کی مقبولیت کا باعث بنے تھے چند مشہور گیتوں کے مکھڑے:
میرا نشانہ دیکھے زمانہ
اے بادلوں کے راہی
کیا ہوا دل پر ستم، تم نہ سمجھو گے بلم
گاڑی کو چلانا بابو
روتے ہیں چھم چھم نین
گلوکارہ زبیدہ خانم نے اپنی گائیکی کا آغاز پنجابی فلم شہری بابو سے کیا تھا جس کے فلمساز و ہدایت کار اداکار نذیر تھے، جن کی اداکارہ بیوی سورن لتا نے انڈیا کی فلم انڈسٹری میں بے شمار فلموں میں کام کیا اور بڑا نام کمایا تھا پھر اداکار نذیر سے شادی کر کے ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا تھا، یہاں میں زبیدہ خانم کے گائے ہوئے اس اردو گیت کا تذکرہ کروں گا جو اپنے دور کی بہت ہی کامیاب ترین فلم تھی اور اس فلم میں زبیدہ خانم کے گائے ہوئے اس گیت نے بڑا تہلکہ مچایا تھا، گیت کے بول تھے:
آئے موسم رنگیلے سہانے جیا نہ ہی مانے
تو چھٹی لے کر آجا بالما
فلم تھی سات لاکھ جس کے پروڈیوسر مصنف اور شاعر سیف الدین سیف اور ہدایت کار جعفر ملک تھے اس فلم میں اداکارہ نیلو پر یہ گیت فلمایا گیا تھا نہ صرف یہ گیت فلم کا ہائی لائٹ بنا تھا بلکہ اس گیت کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے کردار ادا کرنے والی اداکارہ نیلو کو بڑی شہرت ملی تھی اور اس فلم کی کامیابی کے بعد نیلو بھی شہرت کی بلندی تک پہنچ گئی تھی اور اس فلم کے بعد اداکارہ نیلو بھی معروف ہیروئنوں کی صف میں شامل ہوگئی تھی اور دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ زبیدہ خانم کو یہ سریلی آواز قدرت کی طرف سے ملی تھی۔
زبیدہ خانم نے موسیقی کی تعلیم کبھی کسی استاد سے حاصل نہیں کی تھی اس کے والد کو موسیقی کا شوق تھا اس کا تعلق امرتسر سے تھا وہ شادی بیاہ کی محفلوں میں ہیر وارث شاہ گایا کرتے تھے۔ اکثر شادی بیاہ میں زبیدہ خانم بھی اپنے باپ کے ساتھ جایا کرتی تھی۔ گائیکی کا یہ شوق زبیدہ خانم کو بچپن ہی سے اپنے باپ کو گاتے دیکھ کر پیدا ہوا تھا اور پھر یہ بھی شادی کی تقریبات میں کمپنی کے زمانے ہی سے گانے لگی تھی۔
اس کی آواز بھی پھر گھر گھر گونجنے لگی تھی اور اس دوران زبیدہ خانم کو ریڈیو پاکستان لاہور سے گانے کے لیے بلایا گیا اور لاہور ریڈیو کے ایک سینئر موسیقار عبدالحق قریشی نے پہلی بار اسے لاہور ریڈیو سے موسیقی کے پروگرام میں گوایا۔
پہلا گیت ہی بڑا مشہور ہوا تھا جس کے بول تھے جیا گائے ترا ررارم، مشہور اداکارہ سورن لتا نے اسے سنا اور پھر سورن لتا ہی کی وجہ سے زبیدہ خانم کا فلمی دنیا سے تعارف ہوا اور پھر پہلی بار فلم شہری بابو میں اس نے ریڈیو کا یہی گیت زبیدہ خانم کو فلمی دنیا کی طرف لایا اور سورن لتا کو یہ کریڈٹ جاتا ہے جس کی وجہ سے فلمی دنیا کو ایک دلکش آواز کا تحفہ ملا پھر زبیدہ خانم آہستہ آہستہ معروف ترین گلوکاراؤں کی صف میں آگئی تھی اور فلمی دنیا میں چھاتی چلی گئی تھی۔
موسیقار خورشید انور، رشید عطرے، بابا چشتی اور اے۔حمید جیسے ہر نامور موسیقار نے زبیدہ خانم کی مدھر آواز سے فائدہ اٹھایا۔ اسی دوران زبیدہ خانم کی ملاقات مشہور ہدایت کار و فلم ساز جعفر شاہ بخاری کے چھوٹے بھائی کیمرہ مین ریاض بخاری سے ہوئی اور پھر چند ملاقاتوں کے بعد دونوں نے ایک دوسرے کو اپنا شریک زندگی بنا لیا تھا۔
شادی کے بعد زبیدہ خانم نے اپنے شوہر کی خواہش کے مطابق گلوکاری کو آہستہ آہستہ خیرباد کہہ کر خالص گھریلو عورت کا انداز اختیار کرلیا تھا اور وہ لاہورکی پہلی گلوکارہ تھی جس نے اپنے شوہر کی خواہش کے مطابق اپنی گائیکی کو اپنی شہرت کے دوران ہی خیرباد کہہ دیا تھا۔ یہاں میں گلوکارہ زبیدہ خانم کی گائی ہوئی ایک نعت کا بھی تذکرہ کروں گا جو فلم نور اسلام کے لیے ریکارڈ کی گئی تھی اور اس نعت کو اس دور کے اداکار نعیم ہاشمی نے لکھا تھا، نعت کے بول تھے۔
شاہ مدینہ یثرب کے والی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
شاہ مدینہ شاہ مدینہ
اس نعت کو گلوکارہ زبیدہ خانم، گلوکار سلیم رضا اور بہت سی آوازوں کے ساتھ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ پھر یہ نعت اتنی مقبول ہوئی کہ گھر گھر میلاد کی محفلوں میں بھی بڑی عقیدت سے گائی جانے لگی تھی۔ زبیدہ خانم کی اداکارہ یاسمین سے بڑی دوستی تھی۔ مشہور فلمساز و ہدایت کار شوکت حسین رضوی نے میڈم نور جہاں کو طلاق دینے کے بعد اداکارہ یاسمین کو اپنی شریک حیات بنا لیا تھا اور زبیدہ خانم یاسمین سے ملنے اکثر و بیشتر شاہ نور اسٹوڈیو میں جایا کرتی تھیں اور دونوں سہیلیاں مل کر اپنی یادیں تازہ کیا کرتی تھیں۔
میری ایک ملاقات گلوکارہ زبیدہ خانم سے شاہ نور اسٹوڈیو میں ہی ہوئی تھی۔ وہ بہت ہی سادہ طبیعت کی خاتون تھیں، زبیدہ خانم کے ایک بیٹے فیصل بخاری سے بھی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ فیصل بخاری نے بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بحیثیت فوٹوگرافر اپنے کیریئر کا آغازکیا۔
ابتدا میں اس نے اپنے والد ریاض بخاری کے ساتھ اپنے کیریئر کا آغاز کیا پھر وہ بحیثیت کمرشل پروڈیوسر منظر عام پر آئے اور ان دنوں کمرشل پروڈیوسر کی حیثیت سے ہی بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ ان دنوں فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہے اور فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے افراد اب ٹیلی وژن ڈراموں کی طرف آگئے ہیں، اب ڈراموں کی انڈسٹری عروج پر ہے اور فلمی دنیا پس منظر میں چلی گئی ہے۔