مٹی کی محبت میں

لیاری کی سیاسی قیادت اور سندھ حکومت کس طرح ان سے نبرد آزما ہوں گے؟


Shabbir Ahmed Arman April 28, 2024
[email protected]

خطہ کوئی بھی ہو، ہر خطے کے لوگوں کو اپنی مٹی سے لگاؤ ہوتا ہے، عشق ہوتا ہے، محبت ہوتی ہے، جس کی بنیادی وجہ اس کی جنم بھومی ہے جہاں اس کی پرورش و تربیت ہوتی ہے۔

بچپن، لڑکپن، جوانی، ادھیڑ عمر، بڑھاپا، دکھ سکھ اسی سرزمین سے وابستہ ہوتے ہیں اور بالآخر سب کچھ منوں مٹی تلے دفن ہوجاتے ہیں۔ انہی نسبت کو زمین کی گود کہتے ہیں۔ مجھ سمیت ہزاروں ہونگے، جنھیں اپنی ماں جیسی لیاری سے لگاؤ ہوگا اور اس کی بہتری کے لیے کوشاں ہونگے۔

لیاری میں ہوش سنبھالا تو اپنے اردگرد سسکتے ہوئے غربت کو پایا، اداس آنکھوں میں امیدوں کی کرن کو چمکتا دیکھا جوکرب میں بھی مسکرانا سیکھ چکے تھے۔ ہوش سنبھالتے ہی مختلف اخبارات و رسائل میں لیاری کے بنیادی، سماجی، معاشرتی مسائل پر لکھنا شروع کردیا تھا تاکہ ارباب اختیار ان کے حل کے لیے اقدامات کریں۔

اسی دوران عملی صحافت کی دنیا میں قدم رکھا، مختلف اخبارات و رسائل میں رپورٹر، اسٹاف رپورٹر، نیوز ایڈیٹر، ایڈیٹر رہا اور ساتھ ساتھ کالم نگاری بھی کرتا رہا۔ صحافت سے وابستگی کا یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ بطور صحافی وکالم نگار، لیاری کے بہت سے مختلف سیاسی مناظر دیکھے ہیں، بدلتی ہوئی سیاسی وسماجی صورت حال بھی دیکھی جسے قلم بند کررہا ہوں۔

لیاری نے بہت دکھ جھیلے ہیں۔ مارشل لا ہو یا کہ جمہوریت ہر دور حکومت میں لیاری کے ساتھ سوتیلی ماں جیسی سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے۔

پرانے ادوارکی روداد اپنے بڑوں سے سنا کرتا تھا جو قابل فخر نہیں تھے، البتہ جنرل ضیاء کے مارشل لا دور میں سن شعور کو پہنچا، تو جمہوریت کش اقدامات نے استقبال کیا، لیاری کو جمہوریت پسندوں کے لیے قید خانہ و عقوبت خانہ پایا، مجھے آج بھی اچھی طرح سے یاد ہے کہ لیاری کے علاقے کلاکوٹ میں واقع سردار اللہ بخش گبول پارک کو جہاں فٹبالر میچ کھیلا کرتے تھے اور بچے جھولا جھولتے تھے، کیمپ میں تبدیل کر دیا گیا تھا، جہاں کرفیوکی خلاف ورزی کرنے والوں کو معمولی سزائیں بھی دی جاتی تھی کسی کو مرغا بنا دیا جاتا تو کسی کو پارک کی چاروں طرف دوڑایا جاتا، البتہ علاقہ مکینوں کے لیے کرفیو میں نرمی برتی جاتی تھی، ہمارے محلے شیروک لین کلاکوٹ میں اللہ بخش عرف اللوکی فلم موویزکی دکان تھی جو شادی بیاہ کے موقعے پرکرائے پر فلم چلاتے تھے۔

لیاری بھر میں جمہوریت پسندوں کی گرفتاریاں اور سزائیں معمول تھا۔ آٹھ چوک کے رہائشی جمہوریت پسند ایاز سموں جس کی سیاسی وابستگی پی پی پی سے تھی، اسے بھی ناکردہ جرم میں پھانسی دیدی گئی تھی۔ لیاری کے لوگوں نے ضیائی کوڑے کھائے اور آنسوگیس کے شیل بھی برداشت کیے لیکن جئے بھٹوکا نعرہ ترک نہیں کیا۔

دوسری طرف لیاری میں غنڈہ گردی، منشیات فروش اورکلاشنکوف کلچرکو فروغ حاصل ہوا تھا اور لیاری بنیادی مسائل کے مصائب میں بری طرح جنم زار کا نمونہ بنا ہوا تھا۔ لیاری میں پینے کے پانی کی سپلائی روک دی گئی تھی، نلوں میں گٹرکا پانی آتا تھا، لوگوں نے زندہ رہنے کے لیے اپنے اپنے گھروں میں بورنگ کروائی اور پھر وہ وقت بھی آیا جب زمین کا پانی بھی خشک ہوگیا، لیاری کی مائیں بہنیں پانی کی تلاش میں آدھی رات تک دور دراز علاقوں میں جایا کرتی تھیں۔

لیاری کی گلیاں اور سڑکیں گٹرکے گندے پانی سے بھرا کرتے تھے، جو تالاب کا منظر پیش کرتے تھے، جس وجہ سے نمازی مسجد میں نہیں جاسکتے تھے،گندا پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہوجاتا تھا۔گندے نالوں میں عدم صفائی کی وجہ سے ان پر گھاس اگ آئی تھی، جو دلدل بن چکے تھے اور بچے ان پر کھیلا کرتے تھے اور بعض بچے ان میں دھنس کر موت کی آغوش میں چلا جایا کرتے تھے ایک بچے کی لاش کو میں نے خود دلدلی نالے سے نکالا تھا ۔

لیاری کی سڑکیں ہو یا گلیاں کھنڈرات کا نمونہ ہوا کرتے تھے۔ اسٹریٹ لائٹ کی تنصیب روک دی گئی تھی پوری لیاری میں اندھیرا کردیا گیا تھا، جس وجہ سے چوری چکاری کی وارداتیں معمول بن گئی تھیں،گندگی کی وجہ سے وبائی امراض پھوٹ پڑے تھے۔

نوجوانوں کے لیے سرکاری نوکری پر غیر اعلانیہ پابندی عائد تھی۔کم فہم نوجوان منشیات فروشی میں لگ گئے تھے جبکہ باہمت نوجوان محنت مزدوری کیا کرتے تھے، ایسے میں علاقہ پولیس مقامی مخبروں کی مدد سے چیرہ دستیاں کرتی تھی، ملزم کی تلاش میں علاقہ پولیس سیڑھیاں لگا کر چادر و چاردیواری کی تقدس کو پامال کرتی تھی اور رہائی کے نام پر خوب رشوت طلب کرتی تھی، اس دلالی میں لیاری کے مقامی اشخاص کا بھی کردار تھا جو علاقے کے معززکہلاتے تھے۔

اس ظلمت کا شکار کئی نوجوان معاشرے سے بغاوت کر کے جرائم کی دنیا میں جا بسے تھے۔ یہ تھا جنرل ضیاء الحق کا دور جو پی پی پی کو ختم کرنے پر تلا ہوا تھا مگر کامیاب نہیں ہوسکا۔

اس کے بعد مختلف حکمران برسراقتدار آئے، جن میں محمد خان جونیجو، میاں نواز شریف، محترمہ بے نظیر بھٹو، معین قریشی، پرویز مشرف، شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی،خاقان عباسی، پرویز اشرف، عمران احمد خان نیازی شامل ہیں، ان کے علاوہ نگراں حکومتیں بھی آتی جاتی رہی ہیں۔

حالیہ دور میں کاکڑ اور شہباز شریف اور اب پھر شہباز شریف کی حکومت ہے جبکہ صوبائی سطح پرگزشتہ پندرہ برس سے پی پی پی کی حکومت رہی ہے اور اب پھر سندھ میں پی پی پی کی حکومت راج کر رہی ہے لیکن لیاری ہر ادوار میں مسائل کی گرداب میں پھنسا رہا ہے۔ بدامنی کے پندرہ سال اہل لیاری کے لیے بھیانک خواب تھا، جسے لیاری گینگ وارکا نام دیا گیا جس میں آپریشن کا سازشی منصوبہ الگ داستان بیان کرتا ہے۔

لیاری پر ڈھائے گئے کن کن مظالم کا ذکرکیا جائے جنہیں بیان کرنے کے لیے کتابیں لکھنی پڑے گی۔ لیاری کے لوگ اب کندن بن چکے ہیں وہ مشکلات میں جینا سیکھ چکے ہیں اور اپنے دوست دشمن کو بھی پہچان چکے ہیں، اب لیاری کے لوگوں کو بے وقوف بنانے کے دن گنے جاچکے ہیں، لیاری نے تمام سیاسی پارٹیوں کو آزما لیا ہے جس میں پی پی پی، مسلم لیگ، جماعت اسلامی، تحریک لبیک پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف شامل ہیں۔

اس وقت لیاری کی مکمل سیاسی باگ ڈور پی پی پی کے ہاتھوں میں ہے جہاں لیاری کی 12یونین کونسلوں میں سے 11یونین کونسلوں کے نمائندوں اور لیاری ٹاؤن کا چیئرمین اور ایم این اے اور ایم پی اے کا تعلق پی پی پی سے ہے۔

دوسری طرف دیرینہ بنیادی اور معاشی و مسائل ہیں دیکھنا یہ ہے کہ لیاری کی سیاسی قیادت اور سندھ حکومت کس طرح ان سے نبرد آزما ہوں گے؟ امید ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا اور سنجیدگی کے ساتھ لیاری کے ساتھ انصاف کیا جائے گا، زخموں پر مرہم رکھا جائے گا،عوام کو اس قابل بنائیں گے کہ وہ بھی شہرکراچی کے دیگر ترقی یافتہ علاقوں کی صف میں شمار ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں