فلسطینی بے روزگاری بھارت کے لیے کتنی فائدہ مند
ایک کارکن کے بقول اپنے گھر میں بے روزگاری سہنے سے بہتر ہے کہ بیرونِ ملک قسمت آزمائی جائے
سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کی چھاپہ مار کارروائی کے ردِعمل میں جہاں اسرائیل نے فوری طور پر غزہ پٹی کی مکمل ناکہ بندی کردی وہیں اسرائیلی صنعت و زراعت سے وابستہ مقبوضہ علاقوں کے لگ بھگ ایک لاکھ فلسطینی کارکنوں کے اجازت نامے بھی منسوخ کر دیے۔
مختلف معاشی شعبوں میں کام کرنے والے تین لاکھ ساٹھ ہزار اسرائیلی شہریوں کو بطور ریزرو فوجی طلب کر لیا گیا ۔ جنگ پھیلنے کے خوف سے پریشان تقریباً سترہ ہزار غیر ملکی کارکن اور پانچ لاکھ اسرائیلی شہریوں نے عارضی طور پر ملک چھوڑ دیا۔ چنانچہ اسرائیلی معیشت میں اس وقت ساڑھے سات لاکھ سے زائد آسامیاں خالی پڑی ہیں۔
جنگ سے پہلے لگ بھگ دس ہزار تھائی کارکن اسرائیلی معیشت میں محنت طلب کام کر رہے تھے۔ مگر سات اکتوبر کو حماس کے حملے میں جنوبی اسرائیل میں ہلاک ہونے والوں میں انتالیس تھائی محنت کش بھی شامل تھے۔حماس نے جن ڈھائی سو سے زائد شہریوں کو یرغمال بنایا ان میں بھی بتیس تھائی کارکن شامل تھے۔اگرچہ انھیں جلد ہی حماس نے رہا کر دیا مگر دیگر تھائی مزدور سراسیمگی کے عالم میں کام ترک کر کے وطن لوٹ گئے۔البتہ گزشتہ ہفتے تک ان میں سے نصف واپس آ گئے ہیں۔
اس خلا کو پر کرنے کے لیے اسرائیلی کمپنیوں کے مطالبے پر حکومت نے ابتدائی طور پر لگ بھگ ستر ہزار غیر عرب کارکنوں کو کینیا ، ملاوی ، ایکویڈور ، سری لنکا اور بھارت سے بلانے کا فیصلہ کیا کیونکہ فلسطینی کارکنوں کی اسرائیل میں کام کرنے کی ممانعت سے معیشت کو ماہانہ تین ارب شیکل (پچھتر کروڑ ڈالر ) کا خسارہ درپیش ہے۔
سات اکتوبر کے واقعات سے لگ بھگ پانچ ماہ قبل اسرائیلی وزیرِ خارجہ ایلی کوہن نے دلی کا دورہ کیا اور اسرائیلی تعمیراتی شعبے کے لیے بیالیس ہزار کارکن بھرتی کرنے کے سمجھوتے پر دستخط کیے۔ چنانچہ لکھنؤ اور روہتک سمیت بھارت کے مختلف شہروں میں بھرتی مراکز کے باہر راج مستریوں ، ویلڈروں، رنگ سازوں، الیکٹریشنز، پلمبروں، ڈرائیوروں اور کھیت مزدوروں کی قطاریں لگ گئیں۔
ہریانہ اور اتر پردیش کی بی جے پی حکومتوں نے دسمبر میں اسرائیل کے لیے کارپینٹرز ، ٹائیل فٹرز ، راج مستریوں اور لوہاروں کی دس دس ہزار آسامیوں کے لیے میڈیا کو اشتہارات دیے۔ امیدواروں کو بتایا گیا کہ انھیں ساڑھے چھ ہزار شیکل ( سولہ سو ڈالر ) تک تنخواہ ملے گی۔جب کہ بھارت میں اس قسم کے ہنرمند زیادہ سے زیادہ تین سو ڈالر ماہانہ کے مساوی کماتے ہیں۔ان ہنرمندوں کے انٹرویو اسرائیلی کمپنیوں کے نمایندوں نے کیے اور منتخب کارکنوں کو فوراً تقرر نامہ بھی تھما دیا گیا۔
اگرچہ مودی حکومت مسلسل ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے کہ بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔مگر کوویڈ کی وبا کے بعد اس معیشت میں بے روزگاری کی شرح آٹھ فیصد ہے۔یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلبا میں فراغت کی شرح پندرہ فیصد اور اٹھارہ سے پچیس برس کے نوجوانوں میں بیالیس فیصد تک پہنچ چکی ہے۔چنانچہ ہزاروں گریجویٹ ملازمتی مواقعے نہ ہونے کے سبب ڈلیوری بوائے بننے پر بھی آمادہ ہیں۔
ان بے روزگاروں کی بڑی تعداد ہر صورت بیرونِ ملک جانا چاہتی ہے۔بھلے روس ہی کیوں نہ جانا پڑے جہاں بہت سوں کو یوکرین کے خلاف جنگ میں جھونکنے کی اطلاعات ہیں۔یا پھر اسرائیل جہاں جنوبی اور شمالی سرحدوں کے قریب کام کرتے ہوئے جان کی سلامتی کا خطرہ ہے مگر تنخواہ پرکشش ہے۔ایک کارکن کے بقول اپنے گھر میں بے روزگاری سہنے سے بہتر ہے کہ بیرونِ ملک قسمت آزمائی جائے۔
اگرچہ حکومت خوشی خوشی افرادی قوت کو اسرائیل جانے دے رہی ہے مگر مزدور یونینوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔دس سرکردہ محنت کش تنظیموں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ کارکنوں کو جان بوجھ کے جنگ زدہ ماحول میں نہ دھکیلا جائے۔کنسٹرکشن ورکرز فیڈریشن آف انڈیا کا کہنا ہے کہ ایسے وقت جب اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی کے سبب افرادی قوت کی قلت کا سامنا ہے۔بھارت کی جانب سے اس خلا کو پر کرنے میں تعاون بد دیانت خارجہ پالیسی کے سوا کچھ نہیں اور یہ پالیسی ایک طرح سے نسل کشی کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔
معروف مزدور رہنما تپن سین کا کہنا ہے کہ سمندر پار محنت کشوں کو بھیجنے میں کوئی حرج نہیں مگر یہ کام فلسطینیوں کی روٹی چھیننے کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔
ایک اور مزدور رہنما کلفٹن ڈی روزیریو کا کہنا ہے کہ جس انداز سے حکومت بھارتی کارکنوں کو بحرانی علاقوں کی جانب دھکیل رہی ہے اس سے انیسویں صدی کی انگریزی سامراج حکومت کی جانب سے بھارتی مزدوروں کو نیم غلامی پر آمادہ کر کے سمندر پار بھیجنے کی روایت کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔اگر جنگی حالات نہ بھی ہوں تب بھی کسی قوم کی سرزمین غصب کرنے والی ریاست کی مدد کرنا بذات خود باعثِ شرمندگی اور ناقابلِ قبول ہے۔
اگرچہ سرکاری ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومت نے بھارتی کارکنوں کو اسرائیل بھیجنے سے قبل ان کی سلامتی کی یقین دہانی حاصل کر لی ہے۔مگر مزدور رہنماؤں نے یاد دلایا ہے کہ دو ہزار اٹھارہ میں اسی مودی حکومت نے اعتراف کیا کہ دو ہزار چودہ میں عراق میں کام کرنے والی چھبیس بھارتی نرسوں کو داعش نے ایک ہفتے تک اغوا کیے رکھا۔ جب کہ انتالیس کارکنوں کو داعش نے اغوا کر کے قتل کر دیا۔جب اسرائیل اپنے ہی شہریوں کو مرنے سے نہیں بچا پارہا تو غیر ملکی کارکنوں کی جانوں کی کتنی اہمیت ہے ؟
دو ہزار سترہ میں نریندر مودی پہلے بھارتی وزیرِ اعظم تھے جنھوں نے ملک کی پچاس سالہ فلسطین نواز پالیسی ترک کر کے اسرائیل کا دورہ کیا۔اس کے بعد نیتن یاہو دو بار دلی کا دورہ کر چکے ہیں۔مودی نیتن یاہو کو اپنا چھوٹا بھائی مانتے ہیں۔بھارت اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار بھی ہے۔
ایسے میں اگر چھوٹے بھائی کی معیشت جنگی بحران سے بچانے کے لیے بڑے بھیا کا سہیوگ درکار ہے تو اس میں آشچرے جنک (حیرت) کیا ہے۔کسی کا خون بہنے سے کسی کے گھر کا چولہا جل رہا ہے تو تیرے میرے کو کیا دقت ہے؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)