غزل
پسِ سکوت، پئے گفتگو پڑے رہیں گے
ہم ایسے سوختہ لب بے نمو پڑے رہیں گے
نہیں سمیٹیں گے جسموں کی دھجیاں ہم لوگ
بٹیں گے ٹکڑوں میں اور چار سو پڑے رہیں گے
نہیں اتارے گا اب وہ فلک سے شخص کوئی
جو اب نہ بولے تو بے آبرو پڑے رہیں گے
نہیں ملے گا اذیت کا اندمال انہیں
یہ پھول باغ میں بے رنگ و بو پڑے رہیں گے
ہمیں سکھایا گیا ہے قناعتیں کرنا
درِ امید پہ ہو کر لہو پڑے رہیں گے
جمی رہیں گی نگاہیں اداس جھیل کے پار
شکستہ پنکھ سرِ آبجو پڑے رہیں گے
(عبدالرحمان واصف۔ کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
کوئی اپنا ہوجاتا ہے
تو اندازہ ہوجاتا ہے
رونے سے کچھ اور نہ ہوتو
دل تو ہلکا ہوجاتا ہے
دوسری بار محبت کرلوں؟
یعنی ایسا ہوجاتا ہے
تجھ سے کوئی بات کروں تو
لوگوں کو کیا ہوجاتا ہے؟
ٹھیک نہیں ہے جیسا ہونا
اکثر ویسا ہوجاتا ہے
خواب ادھورے رہ جاتے ہیں
بندہ بوڑھا ہوجاتا ہے
(عثمان ناظر۔اٹک)
۔۔۔
غزل
لہو سے نقش عبارت نہ میرے کام آئی
ان آنسوؤں کی سفارت نہ میرے کام آئی
مری لحد پہ عبث بوجھ کس نے ڈال دیا
یہ پتھروں کی عمارت نہ میرے کام آئی
رہا نجس کا نجس ہی کہ میل تھا دل میں
مرے بدن کی طہارت نہ میرے کام آئی
کبھی ہوئی جو اشاعت جریدۂ دل کی
خرد کی کوئی ادارت نہ میرے کام آئی
بہار میں بھی خزاں کا سماں رہا مجھ میں
صبا کی کوئی مدارت نہ میرے کام آئی
مری دکان میں اجناس تھے سبھی انمول
سو کوئی رسمِ تجارت نہ میرے کام آئی
وہاں پہ چشمِ بصیرت نے میرا ساتھ دیا
جہاں پہ چشمِ بصارت نہ میرے کام آئی
یہ حکمِ یار تھا فریاد ہو سرِ محفل
خموشیوں کی جسارت نہ میرے کام آئی
اٹھا دیا گیا مرنے کے بعد پھر مجھ کو
سقوطِ دل کی شرارت نہ میرے کام آئی
ہر ایک زاویے سے جھانکتا ہے عکس ترا
سو آئینوں کی زیارت نہ میرے کام آئی
میں تشنہ لب رہا، ساقی رہا کہ رند رہا
وہ میکدوں کی صدارت نہ میرے کام آئی
یہ مطربانہ حیات اتنی خوش گلو ہے امرؔ
اجل کی کوئی بشارت نہ میرے کام آئی
(امر روحانی۔ ملتان)
۔۔۔
غزل
راستہ پوچھنے والے کو سفر سے پہلے
چھوڑ آئے ہو کہاں راہ گزر سے پہلے
لاش پہچان میں جب آ نہ سکی تب سوچا
جنگ کس شکل میں تھی نقد و نظر سے پہلے
یہ الگ بات کبھی ذکر نہیں کرتا مگر
میرے رستے میں کئی خیمے تھے گھر سے پہلے
یہ دباؤ مرا ہم عصر نہیں جو مجھ میں
گھلنے آ جاتا ہے مرہم کے اثر سے پہلے
حرف قائم ہوا آواز کی بنیادوں پر
لحن شائستہ نہ تھا زیر و زبر سے پہلے
وقت پر کیسی کڑی آن پڑی ہے کہ زمان ؔ
لوگ تسلیم ہوئے اپنے ہنر سے پہلے
(دانیال زمان۔ خوشاب، پنجاب)
۔۔۔
غزل
میرا افلاک پہ گھر ہو یہ ضروری تو نہیں
مجھ پہ دلبر کی نظر ہو یہ ضروری تو نہیں
داستاں کتنی ہی صدیوں کی سنی ہے لیکن
داستانوں میں اثر ہو یہ ضروری تو نہیں
اس کو آنکھوں میں بسا رکھا ہے میں نے یارو
اس کو میری بھی خبر ہو یہ ضروری تو نہیں
دشت میں پیاس بجھانا بھی ضروری ہے مگر
تشنگی مدِ نظر ہو یہ ضروری تو نہیں
تم کو خوشیاں بھی ملیں گی مرے پیارے احمدؔ
زندگی خاک بسر ہو یہ ضروری تو نہیں
(احمد حجازی ۔لیاقت پور ،ضلع رحیم یار خان)
۔۔۔
غزل
دشت ہیں تو چمنستان بھی ہوتا ہو گا
کوئی خطّہ ترے شایان بھی ہوتا ہو گا
جیسے میں ہوتا ہوں اِن چاندنی راتوں میں اُداس
وہ دریچے بھی، وہ دالان بھی ہوتا ہو گا
نہیں وسعت میں سوا مسندِ دل سے اُس کی
ہو گا کچھ، تختِ سلیمان بھی ہوتا ہو گا
میں نے اُس شوخ کو' مشکل ہے ' کہا ،تو بولی
کچھ تمہارے لیے آسان بھی ہوتا ہو گا؟
اور رفتار بڑھاؤ کہ کوئی راہوں کو
دیکھتا ہو گا، پریشان بھی ہوتا ہو گا
جو ابھی شاخ پہ ہیں، زندگیوں میں اِن کی
کہیں کھِل جانے کا امکان بھی ہوتا ہو گا
سب نہ ہونے ہی سے نکلا ہے جو کچھ ہے مرے دل
شہر پُر نور ہے، ویران بھی ہوتا ہو گا
ایسا بھُولا ہے وہ رگ رگ کا شناسا کہ کہیں
کوئی اِس طرح کا انجان بھی ہوتا ہو گا
سرخ بادل سے زبیرؔ آگ برستی ورنہ
بستیوں میں کوئی انسان بھی ہوتا ہو گا
(زبیرحمزہ۔ قلعہ دیدار سنگھ)
۔۔۔
غزل
کیا قرینے سے ہمیں آپ نے برباد کیا
بھوک نے قید کی تشویش سے آزاد کیا
زخم خنجر سے لگانے کی روایت تھی یہاں
کسی انسان نے پھر لہجے کو ایجاد کیا
اک وفا دار قبیلے کے ہیں ہم چشم و چراغ
منتخب اس لیے ہے پیشۂ اجداد کیا
اب سرابوں کے تعاقب میں بھٹکتا نہیں کوئی
خیمۂ دشت لہو دے کے ہے آباد کیا
یہ سہولت تو مجھے میرے ہنر نے دی ہے
شعر کی شکل میں احساس کو روداد کیا
عشق حیدر ترے اعجاز کی حد کوئی نہیں
کوئی سلمان بنا، کوئی مقداد کیا
چارہ گر کی یہ عجب عشوہ گری ہے زم زم
درد کے نسخے میں بس درد ہی ایزاد کیا
(مکرم حسین اعوان۔ گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
ہے غم کی بارشوں سے یہی حال دوستو
اِک دن بھی اب لگے ہے مجھے سال دوستو
بادل غموں کا جس طرح مجھ پر برس پڑا
اپنے سناؤں اب کسے احوال دوستو
ساون کی بارشوں سے ہو جیسے تباہ گھر
یہ دل بھی اس طرح ہوا پامال دوستو
نسبت ہی اپنی ذات سے جس نے نہ دی مجھے
اِس بے وفا کا بھی سنائیں حال دوستو
دنیا سے رفتگاں ہوئے ہیں نامور بہت
ہوتا ہے کیا اگر گیا اقبالؔ دوستو
(اقبال جعفر۔وادیِ دُرگ)
۔۔۔
غزل
ایک سے بڑھ کے ایک جھیلے ہیں
زندگی کے عجب جھمیلے ہیں
بن نہیں پائی زندگی سے مِری
ورنہ بچپن سے ساتھ کھیلے ہیں
ہاں خوشی بھی لگاتی ہے چکر
پر یہاں تیز غم کے ریلے ہیں
عید کا دن ہے،ملنے کا دن ہے
اور ہم آج بھی اکیلے ہیں
دوستی میں تمام دوست مِرے
سانپ سیڑھی کا کھیل کھیلے ہیں
میں بھلا ان سے کیا لڑوں حمزہؔ
دوست بھی دشمنوں کے چیلے ہیں
(امیر حمزہ سلفی۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
گاتی ہیں سبھی بلبلیں خوشبو کی زباں سے
شاداب چمن سارا ہے پھولوں کے سماں سے
جینے کی تمنّا میں مَرا جاتا ہوں کب سے
اے زیست تجھے ڈھونڈ کے لاؤں میں کہاں سے
ہر چیز کو تم اپنی ہی نظروں سے نہ پرکھو
بنتا ہے یقیں جب بھی نکلتا ہے گماں سے
کمزور نہ سمجھو کبھی مخلوقِ خدا کو
ٹکرائے گی چیونٹی بھی کبھی کوہِ گراں سے
تم سمجھو نہ،مانو نہ مگر جانتے ہو سب
جو زخم مرے دل میں ہیں، آتے ہیں جہاں سے
تم دل کو ٹٹولو تو پڑا ہو گا کہیں پر
یہ پیار کا جذبہ نہیں ملتا ہے دکاں سے
دنیا میں شہابؔ اُس کا مقدر ہے ترقی
باہر جو نکل آتا ہے ہر سود و زیاں سے
(شہاب اللہ شہاب۔منڈا، دیر لوئر، خیبر پختونخوا)
۔۔۔
غزل
امرا تو امیری ہی دکھانے میں لگے ہیں
غربا تو غریبی کو چھپانے میں لگے ہیں
مردوں کو اٹھانے کے لیے لڑتے ہیں لیکن
افسوس کہ زندوں کو گرانے میں لگے ہیں
احسان کا اک بوجھ گلے ڈال کے محسن
مفلس کو اشاروں پہ نچانے میں لگے ہیں
ہر چال سے جب جیت نہ پائے تو عدو اب
یاروں کو ہی آپس میں لڑانے میں لگے ہیں
وہ خواب سے غفلت کے جو بیدار ہے اک شخص
اب اس کو بھی سب مل کے سلانے میں لگے ہیں
اب وقت یوں بدلا ہے یہاں ایسا کہ سب گدھ
شاہین کو پرواز سکھانے میں لگے ہیں
یہ عارضی دنیا ہے یہاں پھر بھی یہ سب لوگ
ہر روز نئے خواب سجانے میں لگے ہیں
نیّرؔ تیرے اشعار یہاں کون سنے گا
سب لوگ یہاں اپنی سنانے میں لگے ہیں
(ضامن نیّر۔ اسکردو)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی