خود انحصاری کا سفر


MJ Gohar May 02, 2024
[email protected]

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قومی معیشت کی کشتی بیچ بھنور میں ہچکولے کھا رہی ہے۔ زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ آیندہ چند برسوں میں قومی معیشت کو مزید جھٹکے لگیں گے۔ مہنگائی کا گراف بلند ہوگا، عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، قرضوں کا بوجھ بڑھتا جائے گا، آئی ایم ایف کا قرض پروگرام کڑی شرائط میں جکڑا ہوا ہوگا، قرضوں پر سود کی ادائیگی کا گراف مزید بلند ہوگا۔

بقول وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ حکومت اپنے تمام اخراجات قرض لے کر پورے کر رہی ہے اور ہمیں اگلے تین برس میں 70 ارب ڈالر قرض چکانا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ امن وامان میں بہتری نہ آئی اور ملک میں سیاسی استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل قائم نہ ہوا تو ہم اسی طرح دائروں میں گھومتے رہیں گے۔ گویا ملکی معیشت حکومت کے ہاتھوں سے ریت کی طرح مٹھی سے نکلتی چلی جائے گی۔

ہم سات دہائیوں سے دائروں میں ہی گھوم رہے ہیں۔ ہمارا اب تک کا تمام سفر ترقی معکوس کی مثال ہے۔ نتیجتاً اندرونی اور بیرونی ہر دو محاذوں پر ہمارا سفر لرزہ براندام ہے۔ معاشی استحکام کے لیے لازم ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو اور امن و امان قائم ہو۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد بننے والی (ن) لیگ اور پی پی پی کی مخلوط حکومت میں دونوں بڑی جماعتوں نے بڑے بڑے عہدے اپنے پاس رکھ لیے لیکن ملک کے سیاسی و معاشی استحکام کے لیے بڑے اور مشکل فیصلوں کے ساتھ باہمی اتفاق رائے بھی ضروری ہے اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔

گزشتہ ہفتے جب وزیر اعظم شہباز شریف کراچی کے دورے پر آئے تو یہاں کے بزنس گروپ نے ان سے ملاقاتیں کیں اور معاشی ترقی کے ضمن میں واضح طور پر کہا کہ اقتصادی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔ بزنس مینوں نے مشورہ دیا کہ جب مسلم لیگ (ن) اپنی مخالف جماعت پی پی پی کے ساتھ مل کر حکومت بنا سکتی ہے تو اسے بانی پی ٹی آئی کی طرف بھی ازخود دست تعاون بڑھانا چاہیے۔ اسی طرح اپنے ہمسایہ بھارت کے ساتھ بھی اقتصادی تعاون میں پیش رفت کرنی چاہیے۔ وزیر اعظم اور ان کا خانوادہ تو خود بزنس کا وسیع تجربہ رکھتا ہے۔

بڑے میاں صاحب تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں، خود شہباز شریف کا یہ دوسرا دور حکومت ہے، لیکن وہ ملک کو معاشی استحکام سے دوچار نہ کر سکے۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اعلیٰ سطح پر کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے، احتساب کے کڑے نظام تمام طبقوں کے اتفاق و اتحاد کے بغیر ملک میں سیاسی استحکام آ سکتا ہے اور نہ ہی وطن عزیز کو معاشی و اقتصادی بحرانوں سے نکالا جا سکتا ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ ہم برادر اسلامی ملک سعودی عرب اور ایران کے ساتھ سرمایہ کاری کے فروغ اور معاشی تعاون کے لیے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس ضمن میں سعودی وزیر خارجہ کی قیادت میں اعلیٰ سطح وفد کی پاکستان آمد اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں کی یادداشت پر دستخط اور سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم پاکستان کے دو طرفہ ممکنہ دوروں سے معاشی بہتری کی امیدیں روشن ہو چکی ہیں۔

اسی طرح ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا طویل عرصے بعد پاکستان کا دورہ اور پاک ایران تجارتی معاہدوں پر دستخط سے اقتصادی تعاون کا ایک دریچہ کھلا ہے جس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ملک کی معاشی صورت حال میں کچھ بہتری آئے گی۔ سعودی عرب اور چین ہمارے ایسے دوست ممالک ہیں جو ہر کڑے وقت میں پاکستان کی مدد کے لیے تیار رہتے ہیں۔ چین کے ساتھ ہمارا سی پیک منصوبہ '' گیم چینجر'' کہلاتا ہے، لیکن حکومتوں اور پالیسیوں کی تبدیلی سے نت نئے مسائل جنم لیتے ہیں اس پہ مستزاد عالمی طاقتوں بالخصوص امریکی دباؤ کے باعث حالات کی نزاکتیں بڑھ جاتی ہیں۔

پاک ایران گیس لائن منصوبہ اس کی زندہ مثال ہے۔ ایرانی صدر کے حالیہ دورہ پاکستان پر بھی امریکی خفگی نمایاں ہے۔ واشنگٹن نے خبردارکیا ہے کہ پاک ایران تجارتی معاہدوں پر پاکستان کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عالمی اور علاقائی صورت حال کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے ہمیں احتیاط سے قدم اٹھانا ہوں گے۔ معاشی و اقتصادی استحکام کی منزل تک پہنچنے کے لیے بیرونی تعاون کے پہلو بہ پہلو ہمیں خود انحصاری کے سفر کا ایماندارانہ آغاز کرنا ہوگا۔ پاکستان قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہے۔ اس دولت سے استفادہ کرنے کے لیے اخلاص نیت کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں