سانحہ لاہور ذمے دار کون
طاہر القادری کی جذباتی تقریروں اور مظاہرین کے جوش و جذبے کے باوجود یہ دھرنا پرامن انداز میں ختم ہوا ...
لاہور:
میں لکھنا تو کسی اور موضوع پر چاہتا تھا لیکن ماڈل ٹائون لاہور میں پولیس کے ہاتھوں کئی افراد قتل ہوگئے۔ اس سانحہ نے مجھے دکھی کر دیا ہے' میرے اپنے شہر میں لاشیں گری ہیں ، میں اس سوگوار ماحول سے کیسے لاتعلق رہ سکتا ہوں۔آج کے حکمرانوں کے مقابلے میں مجھے آصف علی زرداری بہت بلند قامت نظر آ رہے ہیں ۔قارئین' آپ کو یاد ہو گا' طاہر القادری نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہائوس کے باہر دھرنا دیا تھا' تین روز تک ہزاروں افراد دھرنے میں بیٹھے رہے لیکن لاٹھی چارج ہوا نہ گولی چلی بلکہ یوں کہیں کہ مظاہرین کو خراش تک نہیں آئی۔
طاہر القادری کی جذباتی تقریروں اور مظاہرین کے جوش و جذبے کے باوجود یہ دھرنا پرامن انداز میں ختم ہوا' مظاہرین نے ایک گلاس تک نہ توڑا'حکومت بدنامی سے بچ گئی، طاہر القادری اور ان کے پیروکاروں کا کتھارسس ہوگیا۔ زندگی معمول پر آگئی ۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے طاہر القادری کے احتجاج کرنے کا جمہوری حق تسلیم کیا اور مذاکرات کا راستہ اختیار کیا' غصے اور نفرت سے مغلوب ہو کر مظاہرین پر کریک ڈائون نہیں کیا۔ اس وقت بھی حکومت کو ایسا مشورہ دینے والوں کی کمی نہیں ہو گی ''سر طاہر القادری کا علاج یہ ہے کہ دھرنے پر دھاوا بولا جائے' تین چار بندے مریں گے تو عوام پر خوف طاری ہوجائے گا۔
مقدمہ الٹا طاہر القادری پر درج کر کے اسے گرفتار کر لیا جائے''۔ لیکن آصف زرداری نے تحمل و بردباری کا مظاہرہ کیا اورامڈتے ہوئے خطرے کو بڑے خوبصورت انداز میں ٹال دیا لیکن افسوس آج کے حکمران ایسے تدبر اور صبر کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ لاہور میں بغیر کسی دھرنے 'احتجاج یا مظاہرے کے پولیس نے لاشیں گرا دیںاور قانون کی حکمرانی قائم کر دی۔ سلام ہو پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی منطق' ذہانت اور فطانت کو' فرماتے ہیں کہ پنجاب میں کوئی نوگو ایریا برداشت نہیں کیا جائے گا۔
سبحان اللہ' بات کروں تو انھیں غصہ آ جائے گالیکن ڈرتے ڈرتے کہے دیتا ہوں کہ جناب والا!کیا ماڈل ٹائون میں ہی کسی اور جگہ رکاوٹیں یابیرئیرز نہیں ہیں؟ اگر انھیں معلوم نہیں تو ماڈل ٹائون کا وزٹ کر لیں' حقیقت سامنے آجائے گی' پھر سوال یہ کہ کیا وہ انھیں ہٹا سکتے ہیں؟ لاہور میں تو پولیس تھانوں کے باہر حفاظتی بیرئیرز لگائے گئے ہیں' آئی جی آفس 'ڈی آئی جی اور ایس پی آفسز کے باہر بھی بیرئیرز لگے ہوئے ہیں۔ کسی سائل نے پولیس کے اعلیٰ افسر کو ملنا ہو تو طویل چیکنگ کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ پولیس تھانوں کے دروازے بند ہوتے ہیں'سائل کو پہلے اپنا تعارف کرانا پڑتا ہے، پھر کہیں وہ بیچارا تھانے میں داخل ہوتا ہے۔ یہ ہمارے پولیس نظام کی حالت ہے۔
لاہور کے دریا راوی کے ارد گرد موجود نوگو ایریاز کا بھی شاید حکمرانوں کو علم ہو' لاہور کے امراء کے کلبوں میں جائیں تو وہاں بھی رکاوٹیں موجود ہیں۔ دہشت گردی کا خطرہ کسے نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں اگر ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ یا منہاج القرآن سیکریٹریٹ کے باہر رکاوٹیں لگائی گئی ہیں تو اس میں کونسی برائی یا انوکھی بات ہے۔ کیا طاہر القادری کو کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا؟ کیا یہاں خطرات صرف حکمرانوں کو ہیں کہ وہ جس سڑک سے گزریں' اسے بند کر دیا جائے۔ یہ طرز عمل جمہوری نہیں بلکہ آمرانہ ہے' مجھے تو لگتا ہے کہ ضیاء الحق کا دور ابھی تک ختم نہیں ہوا ہے۔
مجھے یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آ رہی کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع ہوئے تین دن ہوئے ہیں اور پنجاب پولیس نے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے۔ طاہر القادری نے 23 جون کو وطن واپس آ نے کا اعلان کر رکھا ہے۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ طاہر القادری اپنا پروگرام موخر کر سکتے ہیں۔لہٰذا حکومت کو طاہر القادری کی واپسی کے اعلان سے کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اگر وہ وطن واپس آ بھی جائیں تب بھی حکومت کو اس سے گبھرانا نہیں چاہیے۔ وہ زیادہ سے زیادہ کیا کرلیتے، دھرنا دیتے یا جلسہ کرتے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
جلسے تو عمران خان بھی کر رہے ہیں، ان سے مسلم لیگ ن کی حکومت کو نقصان پہنچا؟ ادھر چوہدری پرویز الٰہی بھی میدان میں پوری قوت سے آئے ہیں، انھوں نے طاہر القادری کا مکمل ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ اگر یہ الزام لگاتے ہیں کہ پنجاب حکومت فوج کا ساتھ دینے والی جماعتوں کو انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے تو پنجاب پولیس کے اس ''آپریشن'' کے بعد ان کے الزام کو غلط کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں کسی احتجاجی تحریک میں خون شامل ہو جائے تو اسے کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ایک دن پہلے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پالیسی خطاب کرتے ہوئے پوری قوم سے اپیل کی تھی کہ وہ پاک فوج کا ساتھ دے۔کاش وہ یہ مطالبہ رانا ثناء اللہ اور پنجاب پولیس سے بھی کر دیتے۔ اتحاد اور اتفاق کی ضرورت کے وقت نفاق میں ڈوبی ہوئی گولیاں کتنا نقصان کرتی ہیں، ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں کے اس قتل کے اثرات لاہور تک محدود رہیں گے نہ پنجاب تک بلکہ یہ پورے ملک تک پھیلیں گے۔ایم کیو ایم نے تو سوگ کا اعلان کردیا ہے۔
حکومت جو چاہے تاویل پیش کرے لیکن ملک کا کوئی جمہوریت پسند اور درد دل رکھنے والا انسان اس ظلم کو جائز قرار نہیں دے سکتا۔اس سانحے کے بعد مسلم لیگ ن کی مخالف سیاسی جماعتیں تو یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گی کہ اگر وہ متحد نہ ہوئیں تو کل ان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جا سکتا ہے۔جب حکومت نے اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار لی ہے تو اس میں کسی کا کیا قصور۔ مسلم لیگ ن کی قیادت اٹھتے بیٹھتے جنرل پرویز مشرف پر تنقید کرتی رہتی ہے' اس کے ظلم کی داستانیں سناتی ہے اور خود کو جمہوریت پسند اور عوامی مینڈیٹ کی حامل قرار دے کر حکمرانی کا حق جتاتی ہے لیکن کیا سانحہ لاہور کو آئین و قانون کے مطابق قرار دیا جا سکتا ہے؟
اگر حکومت منہاج القرآن سیکریٹریٹ سے حفاظتی رکاوٹیں ہٹانا چاہتی تھی تو پھر اسے آئین و قانون کا سہارا لینا چاہیے تھا'بقول طاہر القادری کہ یہ رکاوٹیں لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر لگائی گئی تھیں۔ اس ملک میں عدالتیں موجود ہیں' قانونی ڈھانچہ موجود ہے' حکومت عدالت سے رجوع کرتی' اس سے حکمنامہ لیا جاتا' تحریک منہاج القرآن کے ذمے داروں کو آگاہ کیا جاتا اور اس کے بعد پرامن طریقے سے رکاوٹیں ہٹا دی جاتیں تو کچھ بھی نہیں ہونا تھا لیکن افسوس جمہوری حکومت کے سائے تلے آمرانہ اقدام کیا گیا' اللہ ہمیں ہدایت دے۔