ڈیجیٹل نو سر بازی حصہ دوئم

افسوس کہ اﷲ کے قہر کو دعوت دینے والے نوسرباز اب ’’مدارس و علماء‘‘ کو لوٹنے کے لیے متحرک ہیں


[email protected]

پچھلے کالم میں نامور علمائے کرام کے نام پر ڈیجیٹل نوسربازی کے دو واقعات بیان کیے ہیں، آج بھی اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ دینی مدارس شدید مالی مشکلات بلکہ بحران کا شکار ہیں اور ان انحصار عوام کی زکوٰۃ و عطیات پر ہے، مگر گزشتہ تین چار سال سے مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی نے لوگوں کی مالی حالت پتلی کردی ہے ۔ جو کل زکوۃ دیتا تھا آج وہ صاحب نصاب نہیں رہا اور خود زکوۃ کا مستحق ہے،لہٰذااس صورتحال کا مدارس کی آمدن پر بھی اثر پڑنا فطری تھا مگر افسوس کہ اﷲ کے قہر کو دعوت دینے والے نوسرباز اب ''مدارس و علماء'' کو لوٹنے کے لیے متحرک ہیں۔

کچھ عرصے سے مدارس کی طرف سے یہ شکایات سننے میں آرہی ہیں کہ دینی مدارس یا معروف مذہبی شخصیات کا نام استعمال کرکے مختلف دینی مدارس کے ذمہ داران و منتظمین کے ساتھ دھوکہ دہی کی جارہی ہے۔ بعض اوقات مدارس کو گندم، راشن یا تعمیراتی میٹریل دینے کا لالچ دے کر ٹرانسپورٹ کے کرائے وغیرہ کی مد میں آن لائن رقم بھجوانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ایسے نوسربازوں سے تمام مدارس کے ذمہ داران محتاط رہیں اور ہرگز ان کو کوئی رقم نہ بھجوائیں۔

ایسے عناصر کے بارے میں ایف آئی اے اور دیگر سرکاری اداروں کو آگاہ کرنا چاہیے۔ یہ مخصوص گروہ بڑے بڑے دینی اداروں اور علماء کے بارے میں پوری معلومات رکھتے ہیں اور پھر نہایت مکاری اور چالبازی سے ان کے عقیدت مندوں کے ساتھ فراڈ کرتے ہیں۔ یہ ڈیجیٹل نوسرباز قرآن و حدیث کی ترویج کے اداروں کو لوٹ رہے ہیں۔ مدارس میں پڑھنے والے نادار، مفلس، بے سہارا اور یتیم بچوں کے منہ سے نوالے چھپن رہے ہیں مگر ان کو ایک لمحے کے لیے بھی اﷲ کا خوف نہیں آتا۔ درحقیقت یہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے مجرم ہیں۔

پولیس اور ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگز کا یہ قانونی فریضہ ہے کہ ان کے خلاف سخت ایکشن لے کر انھیں نشان عبرت بنائیں۔ حکومتیں مدارس کو سالانہ بجٹ میں ریلیف دینا اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتیں لیکن شہریوں کے جان و مال کی حفاظت تو ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے۔ اس گروہ کو پکڑانے کے لیے میں پولیس اور ایف آئی اے سائبر کرائمز برانچ دونوں کو درخواست دے چکا ہوں، قاری فیوض الرحمن صاحب اور مفتی انور اوکاڑوی صاحب کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بھی درخواست دیں تاکہ ڈیجیٹل نوسربازوں کے اس گروہ کی بیخ کنی کی جاسکے۔

یہ تو صرف دو واقعات ہیں جو میرے ساتھ اور میرے جاننے والے کے ساتھ پیش آئے، ایسے نجانے کتنے واقعات روز ہوتے ہیں جو رپورٹ بھی نہیں ہوتے۔ پاکستان جیسے ملک میں اس طرح کے شاطر نوسرباز اور عوامی مسائل سے لاتعلق اور کاہل اور نالائق سرکاری اداروں کو دیکھتا ہوں تو مایوس ہوتا ہوں مگر اس بار میرا دل کہتا ہے کہ اس کیس میں اﷲ رب العزت مدارس کے فقیر و مسکین طلبا کے منہ سے نوالے چھننے کے جرم میں ملوث ان ظالموں کوضرور کیفرکردار تک پہنچائے گا۔

میں نے اس فراڈیے گروپ کے بارے ایف آئی اے سائبر کرائم کو پوری فائل بنا کر دے دی ہے تاکہ وہ ان ظالم اور بے رحم ڈکیتوں کے خلاف آئین و قانون کے تحت کارروائی شروع کریں اور ان کو قانون کے کٹہرے میںلانے میں کامیاب ہوسکیں۔ پہلے پولیس کا گلہ ہوتا تھا کہ ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ افراد کے پاس پولیس سے بہتر اسلحہ، ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کے ذرائع ہیں، اس لیے مجرموں تک پہنچنا اور گرفتار کرنا آسان نہیں۔ مگر آج ایف آئی اے سائبر کرائم کے ذمہ داران سے تفصیلی گفتگو کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ سائبر برانچ بھی پولیس کی طرح وسائل کی کمی، غیر واضح قوانین اور قانونی پیچیدگیوںکا شکار ہے۔

قانونی ابہام یا کنفیوژن کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ کسی شہری کو نوسرباز روزانہ کی بنیاد پرفون کالز یا میسجز کے ذریعے لوٹنے کی کوشش کریں، یہ فراڈیا گروہ متعدد شہریوں کو لوٹ چکا ہو اور اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہو، سائبر کرائم برانچ کارروائی شروع نہیں کرسکتی۔ کیوں کہ قانون کا تقاضا ہے کہ پہلے اس ملک کا شہری نوسربازوں کے ہاتھوں لٹے، پھر اس کی شکایت پر کارروائی شروع ہوسکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ڈیجیٹل دور میں سائبر کرائمز کی نوعیت، حئیت اور انداز روز بدلتے ہیں لہٰذا مجرموں کا پلڑا سائبر کرائم برانچ پر بھاری ہے۔

مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر پولیس اور ایف آئی اے ڈیجیٹل نوسربازی کو سنگین جرم سمجھے، حکومت سرکاری اہلکاروں کو جدیدٹیکنالوجی مہیا کرے اور وہ اپنے کام سے کمیٹڈ ہوں تو سائبرکریمنلز پہلی واردات کے بعد ہی پکڑے جاتے ہیں۔ یوں مجرموں کی پہلی واردات ہی آخری واردات ثابت ہوگی۔ یہ ایک اور تلخ حقیقت ہے کہ صرف اداروں کو مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے کیونکہ ہمارے قانون ساز اداروں میں بیٹھے سیاستدانوں اور قانون سازوں نے جو قوانین پاس کیے ہیں۔

ان میں مجرموں کے فائدے کے لیے پوری سہولت کاری کی ہے اور قوانین میں ایسی خامیاں، کمیاں ، کمزوریاں اور ابہام رکھ دیے جن کی وجہ مجرموں کو پکڑنا اور سزا دلوانا اندھیرے میں کالی بلی پکڑنے والی بات ہے۔مگر میرا یقین ہے ایف آئی اے سائبر برانچ اور پولیس کے متعلقہ ذمہ داران اپنا کام اخلاص اور مستعدی کے ساتھ کریںگے تو وہ بہت جلد مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کریںگے اور اگر کسی قانونی سقم یا ملی بھگت سے مجرم کو فائدہ پہنچے گا تو اس قانون کو بنانے والے اور پاکستان کے با اختیار حضرات جواب دہ ہوںگے اور حشر کے میدان میں انھیں اس کا جواب لازمی دینا پڑے گا۔

ابھی تو کیس شروع ہوا ہے اور کاروائی ابتدائی اسٹیج پر ہے مگر بہت جلد میں تبدیلی کے قارئین کو مجرموں کی گرفتاری کے بارے میں خوشخبری یا اداروں کی مجبوریوں کو تفصیل سے آگاہ کروںگا۔ آخر میں مدارس کے ذمہ داران، علماء کرام اور تمام پاکستانیوں سے ایک درخواست کروںگا کہ یہ ملک اور ہم عوام نوسربازوں کے نرغے میں ہے۔ فون کالز پرکسی کو کوئی رقم بلا تصدیق و تحقیق نہ دیں، چاہے وہ جتنی بڑی ایمرجنسی کا ذکر کرے اور اللہ رب العزت اور رسول مقبولﷺ کے واسطے دے، ورنہ آپ روز لٹتے رہیںگے اور لٹنے کے بعد قانون کی راہداریوں میں رُلتے رہیںگے۔

اللہ رب العزت ہم سب پاکستانیوں، خصوصاً دینی مدارس و علمائے کرام کا حامی و ناصر ہو۔ اداروں کی مجبوریوں، قانونی پیچیدگیوں کو دیکھتے ہوئے یہی دعا کریں گے کہ یامولائے کائنات اس ملک کے بے بس اور مجبور اداروں کی بھی سن ، ارکان پارلیمنٹ کا شعور و ذہانت کا معیار بلند کر تاکہ وہ مسودہ قوانین کی جانچ پڑتال کرسکیں، مسودہ قوانین تیار کرنے والے قانون سازوں کی چلاکیوں و ہوشیاروں کو پکڑ سکیں۔ فی الحال یہی دعا ہے کہ پروردگار ہم عام پاکستانیوں پر رحم و کرم کر، ہماری حفاظت کا بندوبست خود فرما۔یا منتقم اللہ آپ خود اپنی شان کے مطابق ان ظالموں سے انتقام لے کر نشان عبرت بنا دے۔ آمین ثمہ آمین یا رب العالمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں