قصہ جوتوں کا
پارلیمان کے عملے کے جوتے بھی غائب ہوئے ہیں، چند صحافی بھی اپنے جوتوں سے محروم ہوئے
یہ دلچسپ خبر 19 اپریل بروز جمعہ کو میڈیا کی زینت بنی۔ ہوا یوں کہ اسلام آباد میں پارلیمان ہاؤس کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے والے نمازیوں کے چوتے چوری ہوگئے۔ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا، اس سے پہلے شاید کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ اس سے جوتا چوروں کی جرات اور مہارت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے بلکہ موقع پر موجود عملے کی '' مستعدی''کا بھی صاف پتہ چلتا ہے۔
کیونکہ سنا ہے ، پارلیمان کے عملے کے جوتے بھی غائب ہوئے ہیں، چند صحافی بھی اپنے جوتوں سے محروم ہوئے، سب حیران و پریشان تھے کہ یہ کیا ہوا اور کیونکر ہوا۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس انوکھے واقعے پر ہنسا جائے یا رویا جائے۔ سب لوگ ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا تھے۔ سب سے زیادہ حیرانی اس بات پر تھی کہ یہ وہ جگہ تھی جہاں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی کیونکہ سخت سیکیورٹی انتظامات ہوتے ہیں۔ جوتی چوروں کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ وہ نہایت آسانی کے ساتھ سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر چلے گئے۔
کس کو مطلب ہے کہ اب ان سے ملاقات کرے
ایسے خود غرضوں سے پاپوش مری بات کرے
اس شعر میں لفظ پاپوش استعمال کیا گیا ہے جو فارسی لفظ ہے جسے اردو میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جوتے کو جوتی یا جتی کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ پنجاب اور دیگر علاقوں میں تیار کیے جانے والے بیش قیمت جوتوں کی تیاری میں اس پر زری اور ریشم کا خوبصورت کام بھی کیا جاتا ہے اور یہ جوتے خاص خاص موقعوں پر پہنے جاتے ہیں لیکن وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ جوتوں کا رواج بھی بدلتا گیا اور ربڑ سول اور دوسرے میٹیریلز سے تیار کردہ جوتوں یا سینڈلوں کا استعمال ہونے لگا۔
جوتے بنانے کی صنعت کو بڑا عروج حاصل ہوا ہے کیونکہ یہ جوتے نہ صرف اندرون ملک استعمال کیے جاتے ہیں بلکہ بیرونی ممالک کو ایکسپورٹ بھی کیے جاتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ غیر ملکی زر مبادلہ کمانے کا بہت بڑا اور اہم ذریعہ ہیں۔ مردوں کے جوتے خواتین کے جوتوں سے زیادہ مہنگے ہوتے ہیں۔
جوتے پہلے پاؤں کی حفاظت کے لیے استعمال ہوا کرتے تھے لیکن وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ ان کا استعمال بھی بدل گیا ہے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اب انھیں دال بانٹنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم'' آدمی نامہ'' میں جوتوں کا تذکرہ جس انداز میں کیا گیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔
مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں
بنتے ہیں آدمی ہی امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ہیں آدمی ہی قرآن اور نماز، یاں
اور آدمی ہی ان کی چراتے ہیں جوتیاں
جو ان کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
آئیے! اب جوتے کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق سب سے پرانی چپل تقریباً 8 ہزار سال پہلے 1939 میں امریکا کی ریاست اوریگون میں پائی گئی تھی۔ اگست 2006 میں مشرقی ناروے سے Jotunheimen shoe دریافت کیے گئے تھے جن کی عمر تقریباً 3000 سال ہے اور جن کی کھال 1800 قبل مسیح میں بنائی گئی تھی۔ دنیا کے سب سے قدیم 3500 سال پرانے جوتے آرمینیا میں دریافت ہوئے تھے۔
جب کوئی انسان کسی دوسرے انسان سے ملتا ہے تو سب سے پہلے اس کی نظر اس کے جوتوں پر پڑتی ہے۔ فلپائن کی خاتونِ اوّل اور سابق آمر صدر فرڈینینڈ مارکوس (1986- 1965) کی بیوی امالڈا مارکوس کے پاس 3000 جوتے تھے جن کی قیمت ہزاروں ڈالر بتائی جاتی ہے۔
14 دسمبر 2008 کا واقعہ ہے جب بغداد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر ایک مقامی صحافی منتظر الزیدی نے اپنا جوتا یہ کہہ کر پھینکا تھا کہ یہ عراقی عوام کی طرف سے الوداعی بوسہ ہے جس کے بعد وہ عراق کا عوامی ہیرو بن گیا۔ اس کے بعد جوتے پھینکنے کے واقعات میں دیگر ممالک جن میں امریکا، ہندوستان، چین، ایران اور ترکی شامل ہیں نے ایک ٹرینڈ کی شکل اختیار کر لی۔ 17، اپریل 2017 کو انڈیا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران منسٹر چدم برم پر جوتا پھینکا گیا تھا۔
ہمیں یاد آرہا ہے کہ ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران جب پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم اور قائد عوام کے مخالفین نے جوتا لہرایا تھا تو انتہائی ذہین اور حاضر دماغ مقرر نے برجستہ یہ کہہ کر فضا کو تبدیل کر دیا تھا کہ '' ہاں، ہاں مجھے معلوم ہے کہ جوتے مہنگے ہوگئے ہیں۔''بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جوتے کا ذکر ہو اور موچی کا نام نہ لیا جائے۔ لاہور میں موچی کی خدمات کے اعتراف میں ایک دروازے کا نام بھی موچی دروازہ رکھ دیا گیا ہے۔ ایک انگریزی شاعر نے موچی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بچوں کے لیے ایک دلچسپ نظم تحریر کی ہے جو یوں ہے۔
Cobbler, cobbler, mend my shoe.
Get it done by half past two.
Half past two is much too late.
Get it done by half past eight.
Stitch it up and stitch it down.
And I'll give you half a crown.
پڑھیے اور لطف اٹھائیے۔
نمرود اور اس کے لشکر پر مچھروں کا عذاب بھیجا گیا۔ مچھر اتنے زیادہ تھے کہ سورج ان سے چھپ گیا۔ ایک مچھر نمرود کی ناک کے ذریعے اس کے دماغ میں گھس گیا اور برسوں تک اس کے مغزکو کاٹتا رہا۔ جب کھوپڑی پر جوتا پڑتا تو وہ مچھر کاٹنا چھوڑ دیتا ورنہ کاٹتا رہتا، چنانچہ دن رات اس کے سر پر جوتوں کی بارش ہوتی رہتی اور تب جا کر اسے قرار آتا تھا۔ اب اس کے دربار کا یہ ادب تھا کہ جو کوئی بھی آئے جوتوں سے اس کی تواضع کرے۔ وہ اپنے دور اقتدار میں مسلسل جوتوں سے اپنا سر پٹواتا رہا، اور اسی حالت میں ملک عدم روانہ ہوگیا۔