کہانی نہیں حقیقت ہے
خوش قسمتی سے بیوی بھی خوش شکل مل گئی لیکن لڑکی کے نصیبوں میں جو لکھا تھا وہ شروع ہو چکا تھا ...
ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ ایک خبر سن کر سناٹے میں آ گئے۔ ہماری ایک جاننے والی کے صاحبزادے کی وفات۔ آخر اس بچے کو ہوا کیا تھا، خیریت تو تھی زمانہ خراب ہے بچے اکیلے رہتے تھے، کہیں کسی بری صحبت میں فضول قسم کی سگریٹ تو نہیں پی لی، ڈپریشن سے تو دل بند نہیں ہو گیا، ارے کہیں کسی کی بات سے دل برداشتہ ہو کر کچھ کھا تو نہیں لیا، سوال ہزاروں تھے لیکن اصل حقیقت سے ناواقف تھے۔ حالانکہ اٹھارہ انیس برس کا وہ لڑکا اپنی عمر سے خاص بڑا نظر آتا تھا، صحت اور ڈیل ڈول قابل رشک تھا، فیشن کا بھی شوقین تھا پھر کسی چیز کی کمی بھی نہ تھی لہٰذا بیماری کے حوالے سے شک بھی نہ گزرا جب کہ سارا ماجرا ہی یہ تھا۔
قصہ کچھ یوں تھا کہ جب والدہ کی نوعمری میں شادی ہوئی تو اس وقت ان کے گھر والے اس شادی کے خلاف تھے، کیونکہ لڑکی خوبصورت اور اچھے کھاتے پیتے گھرانے کی تھی جب کہ صاحب خیر سے اچھی پکی عمر کے تھے شکل و صورت سے بھی کوئی مطابقت نہ تھی بہرحال ایک خصوصیت ضروری تھی کہ وہ ملک سے باہر کماتے تھے۔ شادی ہو گئی تو اصل حقیقت کھلی، لڑکی کے ذہن پر سے شادی کا بھوت اتر چکا تھا۔ میاں صاحب جیسے بھی تھے شوہر تھے۔ جلد ہی پتہ چلا کہ خیر سے نکھٹو تھے تب ہی والدین نے کسی نہ کسی طرح ملک سے باہر بھجوا دیا تھا کہ کسی طرح تو یہ کہیں فٹ ہو۔
خوش قسمتی سے بیوی بھی خوش شکل مل گئی لیکن لڑکی کے نصیبوں میں جو لکھا تھا وہ شروع ہو چکا تھا حالات خراب ہوتے گئے ایک کے بعد دوسرا بچہ دنیا میں آیا تو باپ کو برے حالات سے نبرد آزما ہوتے دیکھا، لڑکی نے شوہر کی خاطر اپنے زیورات کو بھی ٹھکانے لگا دیا لیکن قرضے جکڑتے گئے ساری وفائیں دم توڑ گئیں اپنے گھر میں آرام کی زندگی بسر کرنے والی عسرت کی زندگی بسر کرنے لگی۔ لڑائی جھگڑے بڑھنے لگے سسرال والے جو پہلے بہت اپنے بنتے تھے اب اس کی قسمت کا رونا رو کر الگ ہو گئے پہلے بچوں کو لے کر الگ ہوئی لیکن نکھٹو باپ کے دل میں محبت نہ جاگی آخر کیا کرتی خود نوکری کرنے پر لگ گئی بالآخر نوبت طلاق تک آن پہنچی۔
ایک بچہ باپ کے پاس اور ایک ماں کے پاس اپنی مرضی سے رہا۔ ماں کے دل میں چھوٹے بیٹے کی محبت زیادہ تڑپتی رہی کیونکہ وہ اس کے پاس نہ تھا۔ جب بھی عدالت کے حکم کے مطابق ماں سے ملنے آتا ماں جان نچھاور کرتی جو کہتا فراہم کرتی۔ ادھر باپ کے دل میں خوف تھا کہ اگر بچہ ماں کے سلوک سے متاثر ہو کر اسی کے پاس مستقل رہنے کی ضد کرے تو پھر کیا ہو گا ایک کھینچا تانی تھی جو ماں باپ کے بیچ تھی اور درمیان میں تھا معصوم بچہ۔ ماں نے ڈبل جاب شروع کر دی وہ ہر حال میں اپنے بچے کو ایسے حالات فراہم کرنا چاہتی تھی کہ جس سے بچے میں اٹریکشن پیدا ہو۔
بالآخر ماں کی بے پناہ محبت جیت گئی کیونکہ نکھٹو باپ بہت کچھ کرنے کے باوجود سوائے خواب دیکھنے کے کچھ نہ کر سکا، پھر بچے کی خواہش اس کے بس میں نہ تھی ادھر ننھیال کا ماحول اور آسودگی اور محبت ایسے پلس پوائنٹس تھے جس نے بچے کو ماں کی جانب جھکا دیا اسے احساس ہوا کہ ماں کی آغوش میں بہت کچھ ہے محبت، پیار، خواہشات اور اپنا سگا بھائی بھی۔ ماں تو ماں ہوتی ہے قدرت نے ماں کے وجود میں جو مٹھاس رکھی ہے اس کا مقابلہ ہم کسی چیز سے نہیں کر سکتے اور حقیقت یہی ہے کہ اپنی اولاد کی خاطر ماں بڑے بڑے طوفانوں سے ٹکرا جاتی ہے لیکن اس جنگ میں اس نے اور بھی بہت کچھ کھو دیا وہ اپنے بچے کو وہ تربیت نہ دے سکی جس کا وہ حق دار تھا سارا دن آفسوں میں سر کھپانا اور گھر آ کر بچوں کی دلجوئی کرنا، انھیں ہر قسم کی آسائش فراہم کرنے کے چکر میں وہ خود مشین کا پرزہ بن گئی۔
ان ہی دنوں ایک انتہائی امیر آدمی کا رشتہ کسی جاننے والے کی وساطت سے آیا صاحب عمر میں ان کے والد کے برابر تھے لیکن دولت بے حساب تھی، گھر والوں نے سمجھایا کہ اب اپنا گھر بساؤ بچے بڑے ہو چکے ہیں کب تک مشین بن کر ان کی خواہشات پوری کرتی رہو گی، ماں نے بچوں سے مشورہ کیا اور ان کی اجازت سے اس نے دوسری شادی کر لی، دوسرے شوہر نے بچوں کو علیحدہ گھر لے کر دیا ماں کو اجازت تھی کہ وہ اپنے بچوں کے لیے جتنا چاہے خرچ کرے ان کی خدمت کے لیے نوکر تھے، پیزا، برگر، کولڈ ڈرنک اور آخر میں سگریٹ نوشی سب کچھ میسر تھا۔
ایک دن کسی لڑکے سے جھگڑا ہوا تو بچہ ڈر کر گھر بیٹھ گیا ان دنوں شاہ زیب کا واقعہ نیا نیا ختم ہوا تھا اس کے ساتھ ہی ایک اور بچے کی کسی امیر لڑکے کے گارڈ سے موت سے بھی ایک خوف قائم تھا۔ نجانے بچے کو کسی نے دھمکی دی تھی یا وہ اتنی بڑی مثالوں کے بعد وہ خود ہی ڈر گیا تھا بہرحال وہ اپنے گھر سے زیادہ نکلتا نہ تھا۔ جم جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ ایک دن دل میں درد اٹھا، ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا ڈاکٹر نے مختلف ٹیسٹ کروائے اور یہ کہہ کر کہ کولیسٹرول بڑھ گیا ہے، جسمانی مشقت کی ہدایت اور دوائیاں دے کر فارغ کر دیا، جوان بچہ ہے ٹھیک ہو جائے گا۔
کولیسٹرول کا بڑھ جانا کوئی نئی بات تو نہیں لیکن یہ پرانی بات نہ رہی بچہ دوائیاں لیتا رہا اور ایک رات اس نے اپنی ماں کو فون پر بتایا کہ اس کی طبیعت خراب ہے۔ ماں نے معمول کی بات سمجھی اور دوائیاں بتا دیں لیکن صبح تک جب ماں بچے کے پاس پہنچی تو اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا جب وہ اسے تیار کروا کر ڈاکٹر کے پاس لے جا رہی تھی بچہ گرا اور پھر کبھی نہ اٹھ سکا۔ ڈاکٹر کے مطابق کولیسٹرول از حد بڑھ چکا تھا اس کے دل کے والو بند ہو چکے تھے یہ ایک کہانی نہیں ہے ایک کڑوی حقیقت ہے اس کے ساتھ بہت سے سوال جڑے ہیں یہ درست ہے کہ ذات باری نے موت کا وقت مقر کر رکھا ہے اور یہی یقین ہمیں مطمئن کرتا ہے لیکن کیا ہمیں ان وجوہات کی جانب توجہ دینے کی ضرورت نہیں کہ جس بات کو ہم روز مرہ زندگی کے معمول سمجھ کر گزار دیتے ہیں۔
دراصل وہ معمول نہیں ہوتے کیا اس معاشرے نے ایک معصوم بچے کو لالچ اور حرص میں مبتلا کر کے اس کے ساتھ ظلم نہیں کیا اب چاہے اس کے والدین ہی اس جرم کے مرتکب ہوئے ہوں یا یہ معاشرہ جہاں شاہ زیب اور جوان بچوں کی بہیمانہ موت جس انداز میں ہوئی۔
شاہ زیب قتل کیس میں تو ایک زمانہ اٹھ کھڑا ہوا تھا لیکن اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی اور کتنے شاہ زیب اس کا نشانہ بنے خوفزدہ ہوئے جس نے ایک معصوم بچے کو اپنے ہی گھر میں مقید کر دیا کہ وہ ایک صحت مند انسان کی مانند ورزش کرنے بھی گھر سے نکل نہ سکتا تھا یا وہ ڈاکٹرز و اطباء جو ایک جوان بچے کی بیماری کو اس کی جوانی اور صحت دیکھ کر نظرانداز کرتے رہے کہ ایک جوان بچے کو دل کی بیماری۔ میرے آپ کے اردگرد ایسے کتنے بچے ان حالات کا شکار ہیں جنھیں ہم معمولی سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں لیکن ان بچوں سے تو پوچھیے کہ ان کے لیے وہ حالات کتنے کٹھن اور اہم ہیں۔