گندم کے کاشت کاروں کے مالی مسائل

حکومت کی طرف سے جتنی بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں وہ سب اپنی جگہ فی الحال تو کاشتکار لٹ رہا ہے



ماہ اپریل ہمارے ملک کے کسانوں، ہارؤں کے لیے وہ خوش قسمت مہینہ ہوتا ہے جب گندم کی تقریباً ساری فصل کٹ کر تیار ہو جاتی ہے۔ کسان دانہ دانہ سونے کی ڈلی سمجھ کر اسے سمیٹتا ہے۔ پہلے تو یوں ہوا کرتا تھا کہ ادھر فصل تیار ہوئی ساتھ ہی کھیتوں میں ہی تھریشر مشین نے کام کرنا شروع کر دیا، گندم کے ڈھیر لگتے چلے گئے۔

اب کسان نے بہت سے لوگوں کے ادھار بھی چکانے ہوتے ہیں۔ سال بھرکئی افراد سے وہ مفت خدمات بھی حاصل کر چکا ہوتا ہے اور کئی اشیاء بھی حاصل کرتا رہا تھا۔ کہیں موچی سے اپنے جوتے سلواتا رہا تھا، لوہار سے اپنے زرعی آلات وغیرہ ٹھیک کرواتا رہا، نائی صاحب بھی حاضر ہوجاتے کؤنکہ وہ کسان کے بچوں کے بال بھی کاٹ رہے ہوتے تھے۔

استاد جی کا بھی حصہ کیونکہ انھوں نے بھی بچوں کو تعلیم دی ہوتی ہے۔ اکثر جگہوں پر مسجد کے پیش امام، خادم اور قاری کا حصہ الگ کرکے ان کے گھروں کو پہنچا دیا جاتا۔ اس طرح بہت سے افراد کو گندم کے ڈھیر میں سے ان کی خدمات کے عوض ان کا حصہ دے دیا جاتا تھا۔ بس اب پھر کیا تھا اس باقی ماندہ گندم میں برکت ہی برکت امڈ آتی تھی اور باقی ماندہ گندم بورؤں میں بھرکر اپنے گھر پر ہی محفوظ کر لیا۔

نہ خراب ہونے کا ڈر نہ چوری ہونے کا خوف، نہ کم ریٹ ملنے کی پروا۔ وقتاً فوقتاً بوقت ضرورت علاقے کی غلہ منڈی میں لے کر چلے گئے اور گندم فروخت کر دی۔ قصبے کی منڈی کے ساتھ ہی واقع بازار سے ضرورت کی ہر چیز خرید کر لے آئے۔ پھر آبادی بڑھنے لگی اور ملک بھر سے راشن کارڈ سسٹم کا بھی خاتمہ کر دیا گیا۔

پہلے راشن کارڈ سسٹم کا نظام موجود تھا۔ ہر گھر میں راشن کارڈ سنبھال کر رکھا جاتا تھا۔ جس میں گھر کے افراد کی تعداد کے بارے میں درج ہوتا تھا، پھر اسی کے حساب سے آٹا، چینی وغیرہ باآسانی دستیاب ہو جایا کرتا تھا۔ آٹے کی نہ قلت ہوتی تھی نہ مصنوعی طور پر اس کی کمی کر دی جاتی تھی۔ نہ ریٹ بڑھنے کا ڈر۔ حکومت کو بھی اس بات کا خوف نہ ہوتا تھا کہ اچانک سے آٹا ہی غائب ہو جائے گا۔

مارچ 1997 میں ایسا ہی ہوا تھا کہ آٹا بالکل ہی غائب ہو گیا تھا۔ فروری 1997 تک آٹا ساڑھے تین روپے فی کلو دستیاب تھا، لہٰذا آٹا غائب ہونے کے بعد جب واپس آیا تو ریٹ بھی دگنے ہو چکے تھے ۔ پھر اس بات کا دھیان رکھا گیا کہ ملک میں کتنی گندم پیدا ہو رہی ہے کتنی کھپت ہوگی۔ ضرورت پڑنے پر کتنی درآمد کرنے کی ضرورت ہوگی یا فاضل پیداوار کی کتنی مقدار برآمد کر دی جائے، لہٰذا حساب کتاب کرنے کے بعد مناسب سمجھنے پر ایک مخصوص مقدار برآمد کر دی جاتی۔

گزشتہ دہائی میں ایک ایسا سال بھی آیا تھا کہ پہلے گندم بڑی مقدار میں برآمد کر دی گئی۔ پھر کہا گیا کہ حساب کتاب غلط ہوگیا لہٰذا اب کیا ہوا؟ ہوا کچھ ؤں کہ پہلے تو غالباً 20 لاکھ ٹن گندم سستے داموں برآمد کر دی گئی۔ پھر کچھ عرصے کے بعد مہنگے داموں درآمد کر لی گئی۔

کس کا فائدہ ہوا، صاف ظاہر ہے امپورٹر اور ایکسپورٹر دونوں ایک ہی ہوتے ہیں، یعنی اشرافیہ کا، سرمایہ کاروں کا۔ اب بھلا بتائیے جس ملک میں کارخانے بند ہو رہے ہوں، بجلی مہنگی ہو رہی ہو، امن و امان کا مسئلہ ہو، پانی خریدنا پڑ رہا ہو، وہ صنعت کارکیا کرے گا؟ جس کے کارخانے بند کردیے گئے، کوئی رئیل اسٹیٹ کے ذریعے سرمایہ کاری کرے گا، کوئی گندم، چینی، گھی، کھاد اور کئی اشیا ذخیرہ کرکے پھر مہنگے داموں فروخت کرے گا یا پھر امپورٹ ایکسپورٹ کے ذریعے منافع کمائے گا۔ اشرافیہ کس طرح کروڑوں روپے کما لیتی ہے، غریب عوام دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔

حکومت کہہ رہی ہے کہ گندم کا بحران اس لیے پیدا ہوا، خریداری اور محفوظ کرنے کے مسائل اس لیے پیدا ہوگئے کہ 10 لاکھ میٹرک ٹن گندم زائد درآمد کر لی گئی۔ نئی حکومت نے مارچ میں ہی اس کا سدباب کؤں نہ کیا؟ پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق مارچ 2024 میں 6 لاکھ 91 ہزار 136 میٹرک ٹن گندم درآمد کر لی گئی تھی جس پر 57 ارب19 کروڑ20 لاکھ روپے خرچ کر دیے گئے تھے۔

اب دوسری اہم ترین اعداد و شمار ملاحظہ فرمائیے یعنی جولائی تا مارچ 2024 ان 9ماہ میں 34 لاکھ 49 ہزار436 میٹرک ٹن گندم درآمد کر لی گئی تھی جب کہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران محض 25 لاکھ 31 ہزار 425 میٹرک ٹن گندم درآمد کر لی گئی تھی۔ یعنی تقریباً 9 لاکھ میٹرک ٹن گندم زائد درآمد ہوئی۔

گزشتہ مالی سال کے 9 ماہ کے مقابلے میں، حکومت یہ سوچ لیتی کہ نگراں حکومت کے سخت فیصلوں کے باعث گندم کی اسمگلنگ میں کچھ کمی ہوئی ہے۔ آٹے کے ریٹ بھی اتنے زیادہ ہیں کہ فضول میں کوئی ذخیرہ نہیں کرے گا، کؤنکہ 160 روپے فی کلو آٹا (چکی) دستیاب تھا۔ پھر نئی فصل بالکل تیار ہے، سندھ میں گندم کی فصل مارکیٹ میں بھی آ چکی تھی۔ پھر کیا ضرورت پڑی تھی کہ 7 لاکھ میٹرک ٹن گندم مارچ 2024 میں درآمد کرنے کی۔

جس پر 57 ارب سے زائد رقم بھی خرچ ہوگئی۔ سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ ان کی طرف سے خریداری بھی ہو رہی ہے جب کہ کے پی کے والوں کا کہنا ہے کہ ہم کاشتکار سے 3900 روپے فی من کے حساب سے گندم خرید رہے ہیں اور پنجاب کے کاشتکار پریشان حال ہیں نہ ہی حکومت 3900 فی من کے حساب سے ابھی تک گندم خرید رہی ہے اور نہ ہی نجی افراد یا سرمایہ کار یا تاجر یا آڑھتی یا دیگر مقررہ قیمت میں گندم خرید رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں بارشوں کے باعث بعض علاقوں کی گندم میں نمی پائی جا رہی ہے اور اس قسم کی نمی زدہ گندم غلہ منڈؤں میں 2900 سے 3000 روپے فی من تک خریدی جا رہی ہے۔ جب کہ اس سے بہتر کوالٹی کی گندم فی من 3200 سے 3350 روپے فی من گندم خریدی جا رہی ہے۔ اب ان سب باتوں کے انتہائی مضر اثرات اس سال نومبر سے ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے جب کاشتکار گندم کی کاشت میں کمی کر دیں گے۔ پنجاب حکومت نے اس سلسلے میں قدرے غفلت کا مظاہرہ کر دیا ہے جس کے منفی اثرات آیندہ برس پورے پاکستان کو محسوس ہوں گے۔

گندم کی فصل کی پیداوار میں کمی، اس کی وافر مقدار میں ذخیرہ اندوزی، پوری گندم مارکیٹ مافیاز کے کنٹرول میں چلی جائے گی۔ اب ان تمام مسائل کا حل کاشتکار، ہاری خود تلاش کرے۔ اپنے طور پر ذخیرہ گاہیں تعمیر کرے اگر ہوسکے تو اس کا بندوبست کرے۔ بعض جگہوں میں دیکھا گیا ہے کہ گھر کے کسی کمرے، کسی بیٹھک یعنی ڈرائنگ روم وغیرہ کو عارضی طور پر گندم اسٹاک کرنے کے لیے استعمال کر لیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ گندم رکھنے اور اس کی حفاظت کے لیے بارش سے بچانے کے لیے یا دیگر ضروری اقدامات کسی نہ کسی طور پر خود سے ہی کرنا ہوں گے یا پھر مل جل کر بھی کرسکتے ہیں۔

حکومت کی طرف سے جتنی بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں وہ سب اپنی جگہ فی الحال تو کاشتکار لٹ رہا ہے، تباہ ہو رہا ہے، مالی پریشانی کا شکار ہے، اس کی پریشانؤں کا مداوا تو آج ہی ہونا چاہیے۔ کسان ہاری کو مزید نقصان سے بچانے کے لیے حکومت ایسے اقدامات کا فوری اعلان کرے جس سے واقعی اور حقیقتاً کسانوں کو ریلیف مل سکے ان کی مالی پریشانیاں دور ہو سکیں۔ ان کے مالی مسائل فوری حل ہوسکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔