سیاست اور حکومت
اطلاعات یہی ہیں کہ اسحاق ڈار کی ترجیح و خواہش وزیر خزانہ بننا تھا، وہ کسی حد تک ماؤس نظر آتے تھے
وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی بطور ڈپٹی وزیر اعظم تقرری اگرچہ کوئی غیرمعمولی اقدام نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اس تعیناتی کے ان محرکات کو سمجھنا ہوگا جن کی بنیاد پر اسحاق ڈارکو وزیر خارجہ کے ساتھ نائب وزیراعظم مقرر کرنا ضروری سمجھا گیا ہے۔
اسحاق ڈار شریف خاندان کا حصہ اور میاں نواز شریف کے قریبی دوست سمجھے جاتے ہیں ۔وہ اپنے ہر فیصلے میں اسحاق ڈار کی مشاورت کو ہر صورت ممکن بناتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے اندر اسحاق ڈار کو معیشت بحالی کی کنجی سمجھا جاتا ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے وزیر خزانہ مفتاع اسماعیل کی قربانی دے کر اسحاق ڈار کو ملک کا وزیر خزانہ بنایا گیا تھا۔ آٹھ فروری کے عام انتخابات کے دوران یہی کہا جارہا تھا کہ اگر مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو اسحاق ڈار ہی وزیرخزانہ ہوں گے ، الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن نے اتحادؤں سے مل کر وفاقی حکومت بنائی لیکن وزارت خزانہ ایک ٹیکنوکریٹ محمد اورنگزیب کو مل گئی جب کہ اسحاق ڈار پاکستان کے وزیر خارجہ بن گئے۔
اطلاعات یہی ہیں کہ اسحاق ڈار کی ترجیح و خواہش وزیر خزانہ بننا تھا، وہ کسی حد تک ماؤس نظر آتے تھے، ان کی بطور نائب وزیراعظم تقرری کو اسی فریم ورک میں دیکھا جائے تو کچھ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ مسلم لیگ ن کی داخلی کشمکش کے بارے میں باتیں ہورہی ہیں۔
میرا خیال ہے کہ نائب وزیراعظم کی تقرری سے مسلم لیگ ن کی داخلی تقسیم کو بھی سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اسحاق ڈار کی تقرری میں وزیراعظم شہباز شریف سے زیادہ نواز شریف کی دلچسپی نظر آتی ہے ۔ نواز شریف وفاق میں اسحاق ڈار کی مدد سے اپنا کنٹرول بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی سیاسی گرفت مضبوط رہے۔
اسی طرح سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ جو کل تک حکومتی عہدہ لینے کے لیے تیار نہیں تھے، اب ان کو بھی وزیر اعظم کا مشیر برائے سیاسی امور کا حصہ بنادیا گیا ہے۔ اس سے بھی حکومت پر نواز شریف کے کنٹرول میں اضافہ ہے۔ نواز شریف کے بقول موجودہ صورتحال میں حکومتی اور جماعتی عہدوں کو علیحدہ رکھا جائے گا ۔ اسی فیصلہ کے تحت نواز شریف کی بطور پارٹی صدر کی واپسی کو ممکن بنایا جارہا ہے اور خواجہ سعد رفیق کو بطور جنرل سیکریٹری کا خبریں ہیں ۔نواز شریف نے اپنی توجہ وفاقی حکومت سے عملاً علیحدہ کرلی ہے اوراس کی ذمے داری کو اسحاق ڈار تک ممکن بنادیا گیا ہے ۔
جب کہ نواز شریف کی عملی توجہ کا مرکز پنجاب ہے جہاں و ہ اپنی بیٹی مریم نواز کی کامیابی کو اہم سمجھتے ہیں او راسی بنیاد پر وہ اپنے سیاسی کارڈ بھی کھیل رہے ہیں او رپارٹی میں وہی لوگ بالادست ہوںگے جن کو نواز شریف یا مریم نواز کی حمایت حاصل ہوگی ۔نواز شریف سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی سیاست کو اسٹیبلیشمنٹ کے سہارے پر کھڑ ا کرنے کی سوچ اور حکمت عملی نے ان کو سیاسی طور پر تنہا بھی کیا ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ پارٹی کے اندر سے تحفظات کا اظہار کیا گیا، پارٹی میں بہت سے لوگ ایک ہی وقت میں یا تو وکٹوں کی دونوں طرف کھیل رہے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مفاہمت کے حامی بہت سے نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ نظر نہیں آتے ہیں او ران کو لگتا ہے کہ نواز شریف سمیت ان کے حامی ہمیں اسٹیبلیشمنٹ کی طرف کھیل سکتے ہیں ۔
بہت سے لوگ اسحاق ڈار کی ڈپٹی وزیر اعظم کی تقرری اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ اب دیکھنا ہوگا کہ معاشی معاملات کی دیکھ بھال کے لیے بنائی گئی آئی ایف سی کے کردار میں اسحاق ڈار کس حد تک اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اسحاق ڈار اور رانا ثنا اللہ کی تقرری ظاہر کرتی ہے کہ پارٹی پر نواز شریف کا کنٹرول ہے۔
نواز شریف کے بیانیے کے حامی ن لیگی رہنما پی ٹی آئی کو مزاکرات کی طرف لانا چاہتے ہیں، وہ یہ کارڈ کھیل کر اسٹیبلیشمنٹ پر دباو بڑھانا چاہتے ہیں۔ان کے حامی سمجھتے ہیںکہ اسٹیبلیشمنٹ بھی مشکلات کا شکار ہے اور اگر اس نے ان مشکلات سے باہر نکلنا ہے تو ان کو ہرصورت ان کی حمایت درکار ہوگی ۔اس وجہ سے نواز شریف ایک ہی وقت میں دو مختلف کارڈز کی بنیاد پر کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ شہباز شریف بنیادی طور پر مصالحتی سیاست اور اسٹیبلیشمنٹ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ لیکن مسلم لیگ ن کی موجودہ حکمت عملی ان کی مشکلات میں اضافہ کرسکتی ہے ۔