بلوچی فلمی صنعت کی تاریخ پہلا حصہ
خاکے اور گانے بنانیوالی بلوچی فلم میکرز کے لیے یہ ذرا مشکل کام تھا کہ ایک مربوط کہانی پر فلم بنائی جائے
لیاری کی ایک سماجی تنظیم کے زیر اہتمام بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی میں ایک روزہ "ہمارا لیاری فلم فیسٹیول" کا انعقاد کیا گیا، رنگوں بھری ثقافتی اور داستانوں پر مبنی اس میلے میں لیاری کے باصلاحیت نوجوان فلم میکرز کی شارٹ فلمز کی اسکریننگز، مباحثے، تصویری نمائش، ڈرم سرکل۔، موسیقی، ایوارڈز بمع کیش اور دیگر آئیٹم پیش کیے گئے، جنھیں حاضرین نے بے حد پسند کیا۔
اس میلے میں لیاری کی سیاسی، سماجی، علمی، ادبی، صحافتی، ثقافتی، فلمی، کھیل کی شخصیات کے علاوہ بڑی تعداد میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے شرکت کی۔ مجموعی طور پر یہ ایک کامیاب بلوچی فلم فیسٹیول تھا مگر اس میں ایک کمی کو شدت کیساتھ محسوس کیا گیا وہ یہ کہ اس بلوچی فلم میلہ میں بلوچی فلم صنعت کے سینئرز فنکاروں اور ٹیکنیشنز کو نمائندگی نہیں دی گئی جنھوں نے لیاری کی بلوچی فلمی صنعت کی بنیاد رکھی تھی اور نہ ہی اس میلے میں بلوچی فلمی صنعت کی تاریخ پر گفتگو کی گئی۔
اس ضمن میں مہر گھر کی چیئر پرسن پروین ناز اور چیئر مین فہیم شاد سے ان کا موقف معلوم کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پہلی بلوچی فلم ھمل و ماگنج کے خالق انور اقبال کی صاحبزادی زباد بلوچ نے اس میلے کے ایک اور سیشن میں ھمل و ما گنج کی تاریخ پر روشنی ڈالی ہے اور کہا ہے کہ پہلی بلوچی فلم ھمل و ماگنج کو سینما تک نہ آنے دینے کی وجہ ھمل و ماگنج فلم میں خواتین کی شمولیت تھی جبکہ اب اس دور میں بلوچ خواتین خود فلمیں بناکر اپنی شمولیت کو ثابت کر رہی ہیں۔
سینئر کی نمائندگی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس پر بات ہونی چاہیے تھی، سینئر بیٹھ کر اپنے سفر کا حال بیان کرتے جو کہ ممکن نہ ہو سکا تاہم تقریب میں سینئر فنکار نعیم نثار نے کمپیئر کے فرائض انجام دیے، سینئر فنکار شکیل مراد اور بلوچی فلموں کے سینئر پروڈیوسر حبیب حسن نے انتظامی معاملات میں اپناکردار ادا کیا۔ زیر نظر کالم میں ہم لیاری سے بلوچی فلمی صنعت کا طائرانہ جائزہ پیش کرتے ہیں۔
1975ء میں انور اقبال بلوچ نے رومانوی اور تاریخی داستان پر مبنی پہلی بلوچی سینما فلم ھمل و ماگنج بنائی جس کے اداکاروں میں انو راقبال بلوچ، ساقی، اے آر بلوچ، شکیل لاسی، محمود لاسی، نادر شاہ عادل، حسین مداری اور بہت سے دوسرے نامی گرامی اداکار شامل تھے مگر بدقسمتی سے یہ فلم اپنوں کی سازش اور سرکاری سرخ فیتے کی نذر ہوکر ریلیز نہ ہوسکی مگر 40 سال بعد اس فلم کو کراچی آرٹس کونسل میں انور اقبال نے ریلیز کیا، جسے فلم بینوں نے بے حد پسند کیا اور اس روز فلم ھمل و ماگنج کے ناقدین نے بھی دیکھی اور اپنی کوتاہی پر نادم ہونے کا بھی اظہار کیا۔
یہ ایک طویل داستان ہے جس کا تفصیلی ذکر میں اپنے پہلے کالم میں کر چکا ہوں۔ ھمل و ماگنج کے بعد پھر کسی میں بلوچی سینما فلم بنانے کی ہمت نہ ہوئی۔ وقت گزرتا رہا پھر ملک میں VCR کا زمانہ آگیا جس نے فلمی دنیا میں ہلچل مچادی لوگ سینما گھروں میں فلم دیکھنے کے بجائے اپنے گھروں اور ہوٹلوں میں بیٹھ کر VCR کے ذریعے فلم دیکھنے کو ترجیح دینے لگے تھے جو فی ویڈیوکیسٹ فلم دس روپے کرائے میں ملتی تھی یا پھر ہوٹلوں میں فی فلم تین روپے سے پانچ روپے میں دیکھی جاتی تھی۔
یہ 80 کی دہائی تھا ویڈیو کیمرہ بھی مارکیٹ میں آچکا تھا جس نے ایک اور انقلاب برپا کر دیا، اس کیمرے کی مدد سے شادی بیاہ اور دیگر تقاریب کی ویڈیو پروگرامز عکس بند کیے جانے لگے تھے، اسی ویڈیو کیمرے کی مدد سے 1985ء میں بلوچی زبان میں پروگرا مز بنانے کا آغاز ہوا۔ زیر نظر کالم میں جگہ کی کمی کی وجہ سے فی الحال 1985ء سے لے کر 2000ء تک کی بنائی گئی بلوچی ویڈیوز فلموں کا ایک مختصر جائزہ پیش کر رہے ہیں۔
بلوچی ویڈیوز فلموں، اسٹیج اور نجی ٹی وی کے نامور اداکار، مصنف، ہدایتکار اور پروڈیوسر دانش بلوچ کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق 1985ء میں بلوچستان کے شہر گوادر سے ایک خاکوں اور گانوں پر مبنی بلوچی زبان میں پہلی ویڈیو پروگرام گل ء کندگ بنائی گئی جس میں گوادر کے فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس زمانے میں ویڈیو کیسٹ پروگرامز کی ریلیزنگ کا کوئی نظام موجود نہیں تھا، البتہ یہ ویڈیوز کیسٹ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک ضرور پہنچی۔
1986ء میں کراچی کے نوجوان نعیم نثار بلوچ کی ہدایت میں کراچی کی سطح پر پہلی بلوچی ویڈیو کیسٹ پروگرام طنز گیر بنائی گئی جو کہ بلوچی خاکوں و گانوں پرمبنی تھی۔ اس میں نعیم نثار بلوچ کے علاوہ بلوچی دنیا کے واحد لیجنڈ کامیڈی در محمد افریقی نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔
اس کے بعد 1987ء میں انور عیسیٰ کی ہدایت میں بلوچی خاکوں اور بلوچی گانوں پرمشتمل بلوچی ویڈیو کیسٹ پروگرام وش ملے ریلیز کی گئی اس کے اداکاروں میں انور عیسیٰ، دانش بلوچ، در محمد افریقی، رحیم لچک (ڈانسر)، علی داد، ولی رئیس، یوسف جان، زبیر سنی وغیرہ شامل تھے۔ اس طرح یہ پہلی بلوچی ویڈیو کیسٹ پروگرام تھا جو باقاعدہ طور پر رینبو سینٹر کراچی سے ریلیز کیا گیا تھا جس کی وجہ سے اسے بہت لوگوں نے دیکھا تھا اور بے حد پسند کیا تھا۔
بعد ازاں 1988ء میں شریف سربازی کی ہدایت پر بلوچی خاکوں اور بلوچی گانوں پرمبنی بلوچی ویڈیو کیسٹ پروگرام آدینک ریلیز کیا گیا تھا۔ جس میں دانش بلوچ، ولی رئیس، درمحمد افریقی، آغا قادر، ساغر صدیق اور یوسف جان نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ 1988ء ہی میں یوسف جان کی ہدایت میں بلوچی خاکوں اور بلوچی گانوں پرمبنی ویڈیو کیسٹ پروگرام گنوکیں ریلیز ہوئی تھی۔ جس کے اداکاروں میں وقار بلوچ، غفار جان، اقبال بالی، عیسیٰ بلوچ، ساغر صدیق، لیاقت بھٹو اور دوسرے شامل تھے۔
اسی سال نعیم نثار بلوچ کی ہدایت میں بلوچی خاکوں اور بلوچی گانوں پرمشتمل بلوچی ویڈیو کیسٹ پروگرام ٹوک ٹاری بھی ریلیز کیا گیا تھا۔ جس کے اداکاروں میں نعیم نثار بلوچ، درمحمد افریقی، شریف درگوڑہ، رزاق خان، حنیف راجہ وغیرہ شامل تھے۔ اسی سال یعنی 1988ء میں دانش بلوچ کی ہدایت میں بلوچی خاکوں اور بلوچی گانوں پرمشتمل 2 بلوچی ویڈیو کیسٹ پروگرامز وش کند اور رنگ ہی رنگ یکے بعد دیگرے ریلیز کیے گئے تھے۔ ان دونوں ویڈیوکیسٹ پروگراموں کے اداکاروں میں دانش بلوچ، علی داد بلوچ، آغا قادر، یوسف جان، ساغر صدیق، ولی رئیس کے علاوہ دیگر فنکار شامل تھے۔
1989ء میں ولی رئیس کی ہدایت میں 2 بلوچی ویڈیو کیسٹ گیت مالا ریلیز ہوئیں جن میں بلوچ گلوکار نصیر بلوچ، صابر بلوچ، استاد نور محمد نورل اور عارف بلوچ کی آواز میں جن اداکاروں پر گانے پکچرائز کیے گئے تھے، ان میں دانش بلوچ، ولی رئیس، شکور بلوچ، قادر حسنی، شکیل مراد، شریف بلوچ کے علاوہ بلوچی دینا کے نامور گلوکاران عزیز بلوچ اور ولی محمد بلوچ پر بھی گانے پکچرائز کیے گئے تھے جو بہت مقبول ہوئے تھے۔
اس زمانے میں ان گیت مالا کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ بلوچستان سے کراچی اور کراچی سے بلوچستان جانے اور آنیوالی کوچز اور بسوں میں یہی گیت مالا مسافروں کی دلچسپی کے لیے دکھائے جاتے تھے۔ اس کے بعد لمبی خاموشی چھائی رہی پھر 1992ء میں ولی رئیس کی ہدایت میں بلوچی دنیا میں پہلی بار ایک مکمل کہانی پر پہلی بلوچی ویڈیو فلم "شیخ چلی" بنانے کا تجربہ کیا گیا۔
خاکے اور گانے بنانیوالی بلوچی فلم میکرز کے لیے یہ ذرا مشکل کام تھا کہ ایک مربوط کہانی پر فلم بنائی جائے جس کا ربط کہیں بھی ٹوٹنے نہ پائے اس کے لیے کافی سوچ و بچار سے کام لیا گیا تھا کیوں کہ اس زمانے میں آج کے دور کے مطابق جدید ساز و سامان (ٹیکنیکلز مشنری) دستیاب نہیں تھے۔ اس فلم کی مرکزی کردار شیخ چلی کے لیے قرعہ فال دانش بلوچ کے نام نکلا۔
اس فلم کے باقی کرداروں میں نعیم نثار بلوچ، شکور بلوچ، صمد شیخ، شریف بلوچ، وقار بلو، آغا قادر، غفار جان، لیاقت بھٹو، ولی رئیس کے علاوہ اور بہت سے اداکار شامل تھے۔ یہ فلم 1993ء میں ریلیز ہوئی اور اسے بے حد پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ جس سے مکمل کہانی پر بنائی جانیوالی فلموں کی راہیں ہموار ہوئیں۔ اس کے بعد یہ سلسلہ شروع ہوا اور مکمل کہانیوں پر ہی فلمیں بنائی جانے لگیں۔