مزاحمت نہیں مفاہمت

حکومت (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کی ہو یا تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کی ملی جلی ہو ملک بدستورعدم استحکام کا شکارہی رہے گا


عثمان دموہی May 05, 2024

گزشتہ کئی برسوں سے ملک بحرانی کیفیت کا شکار چلا آرہا ہے، اس صورت حال نے ملکی معیشت کی حالت دگرگوں کردی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ادھر چور ڈاکو، منشیات فروش اور اسمگلرز نے اپنی کارروائیاں تیزکردی ہیں۔

آخر ملک کب اس بحرانی حالت سے باہر آ سکے گا، کیا اس کے خاتمے کی کوئی حتمی تاریخ مقرر کی جاسکتی ہے؟ اس وقت اصل مسئلہ حکومت اور حزب اختلاف کی باہمی چپقلش کاہے جس سے ملک کو بہت نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اس وقت ملک میں (ن) لیگ کی حکومت قائم ہوچکی ہے۔

پی ٹی آئی کی قیادت حالیہ الیکشن میں دھاندلی سے جیتنے کا الزام ہے، تاہم اس نے بھی اس الزام کے باوجود کوئی الیکشن کمیشن، الیکشن ٹیربیونل یا عدالت کے روبر کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ مسلم لیگ کو اتنی کامیابی نہیں ملی ہے کہ وہ خود اپنے طور پر اپنی حکومت قائم کر سکے، چنانچہ اسے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا سہارا لینا پڑا ہے اور پھر حکومت بنائی ہے مگر ایسی حکومت پائیدار نہیں ہوتی کیونکہ جس دن پیپلز پارٹی نے ساتھ چھوڑ دیا، حکومت دھڑام سے گر جائے گی۔

بانی پی ٹی آئی نے پیپلز پارٹی کی آفر کو صرف اس لیے ٹھکرا دیا تھا کہ انھیں خود کوئی فائدہ نہیں تھاکیونکہ وہ وزیر اعظم نہیں بن سکتے تھے،اس طرح بانی پی ٹی آئی نے محض اپنی ذات کے مستفید نہ ہونے کی بنا پر پیپلز پارٹی کے ساتھ مل پی ٹی آئی کی حکومت بنانے کا موقع جان بوجھ کر کھو دیا۔ اب بانی پی ٹی آئی کو احساس ہو چکا ہے کہ انھوں نے پیپلز پارٹی کی حمایت کو ٹھکرا کر غلطی کی ہے۔

بہرحال چاہے حکومت (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی ہو یا تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی ملی جلی ہو ملک بدستور عدم استحکام کا شکار ہی رہے گا۔ حالیہ عام انتخابات سے قبل بھی ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار تھا اور حالات اب بھی ویسے ہی ہیں۔۔ چند دن قبل وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے بزنس سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے ملکی معیشت کے حوالے سے حقائق قوم کے سامنے پیش کیے اور بتایا کہ اس وقت ملک اپنے تمام اخراجات ادھار لے کر پورے کر رہا ہے۔ آیندہ تین سالوں میں ملک کو 70 ارب ڈالر غیر ملکی مالیاتی اداروں کو ادا کرنا ہیں جس کے لیے ملک میں سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی پالیسیوں میں استحکام کا ہونا ضروری ہے۔

ان کے مطابق ملک کو دیگر پروجیکٹس سے کہیں زیادہ سی پیک سے 30 سے 40 ارب ڈالر سرمایہ کاری کی توقع تھی مگر تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں اس اہم منصوبے کو پس پشت ڈال کر چار سال برباد کر دیے گئے۔ (ن) لیگ کی حکومت پی ٹی آئی حکومت کو موجودہ معاشی مسائل کا ذمے دار قرار دیتی ہے کیونکہ اس نے اپنے دور میں ملک میں عدم استحکام کی فضا برقرار رکھی اور اب عام انتخابات کے بعد بھی (ن) لیگ کی حکومت کو بھی عدم استحکام سے دوچار کرنے میں مصروف ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ترقی کے عمل کو اصل نقصان پی ٹی آئی حکومت کے دور سے ہونا شروع ہوا۔ کاش کہ عمران خان سیاست دانوں کے خلاف عدم ثبوت کے ملک گیر مہم نہ چلاتے اور اپنا وقت ان کاموں سے بچا کر ملکی معیشت کو بہتر کرنے میں صرف کرتے تو شاید آج حالات بہت بہتر ہوتے۔ ان کے مطابق عمران حکومت نے تو آئی ایم ایف سے بھی معاملات خراب کیے اور ملک کو دیوالیہ پن کے قریب کر دیا تھا جسے انھوں نے اپنی حکمت عملی سے بچایا۔

دوسری جانب عمران خان اور ان کے ساتھی شہباز شریف اور ان کی حکومت کو ملک کی موجودہ معاشی بدحالی کا ذمے دار قرار دیتے ہیں،ان کے مطابق پی ڈی ایم کی پچھلی سولہ ماہ کی حکومت نے ملک کے مسائل حل کرنے کے بجائے انھیں زیادہ پیچیدہ بنا دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ملک کی معاشی صورت حال ان کے دور میں اتنی خراب نہیں تھی جتنی نگراں اور موجودہ حکومت نے خراب کی۔ اس وقت عمران خان اور ان کے کئی رفقا پر مختلف مقدمات چل رہے ہیں۔ ان مقدمات کے تحت انھیں جیل میں رکھا گیا ہے۔ ان مقدمات کے فیصلے ابھی آنا باقی ہیں۔ عمران خان ان تمام مقدمات کو جعلی قرار دیتے ہیں۔ اس صورت حال سے نکلنے کے لیے اس وقت حکومت اور پی ٹی آئی میں مفاہمت کا ہونا بہت ضروری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔