تاریخ و تشریح
ہم نے اس تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی، نتیجہ کیا نکلا،آج ہم ہی اپنے لیے اجنبی ٹھہرے
تاریخ، انسانوں کے تحرک کا ایک طویل سفر ہے۔ ایک بہتا دریا ہے اور اس دریا کا عکس ہیں ہم، اور ہمارا عکس ہے یہ تاریخ۔ یعنی اپنے اجداد سے ملے خمیرکا جو مادہ ہمارے ڈی این اے میں بستا ہے، وہ بھی تاریخ کا ثمر ہے۔
تاریخ کے اس طویل سفر میں ہم نے خانہ جنگی دیکھی، لشکروں کی جنگیں دیکھیں، وہ جنگیں بھی جو عدالتوں میں لڑی جاتی تھیں اور وہ مفکر، مدبر اور رہنما بھی دیکھے جو فلسفہ، افکار، خیالات، ادب فنِ تعمیرکی تاریخ بھی ہوتی ہے۔ جس ثقافت اور تہذیب کا ہم حصہ ہیں، جس ریاست میں ہم رہتے ہیں، ہم ان کا بھی عکس ہیں، وہ غلط ہو یا صحیح، ہم ان تحارک کا حصہ بھی ہیں جو بین الاقوامی ہوں یا پھر مقامی۔
کہاں گیا وہ قدیم یونان، وہ سقراط جس نے عدالت سے موت کی سزا پائی، وہ روم کا جرنیل جیولیس سیزر جو اپنے آپ کو روم کا ڈکٹیٹر مانتا تھا اور سینیٹ کے اجلاس کے دوران اس کے سب سے پیارے دوست مارکس جیونیئس بروٹوس نے اس پر حملہ کر کے اس کے پیٹ میں خنجرگھونپا۔ وہ میکاولی جو ریاست کے حسابات کو تیسری آنکھ سے دیکھتا تھا۔ میکاولی کی تحریر کردہ کتاب "پرنس" جس کا مطالعہ ذوالفقارعلی بھٹو اور ضیاء الحق دونوں نے کیا تھا۔ یہ ایک یادوں کا ذخیرہ ہے جو ہمارے ذہنوں میں بند ہے، جو ہمارے لا شعور میں بستا ہے، یہ یادیں ہمارا حصہ ہیں۔
جب ہم پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ لکھتے ہیں تو وہ دراصل کہانی ہے، پاکستان کے وجود میں آنے کے دن سے لے کر آج تک کی، مگر اس دھرتی کی داستان تو اس سے بھی پرانی ہے۔ یہ اس جدوجہد کی تاریخ ہے جس کا آغاز متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں نے کیا، ایک آزاد ریاست کے حصول کے لیے۔ اکثریت کوکانگریس پارٹی کی شکل میں گاندھی، نہرو اور ولب بھائی پٹیل کی قیادت مل گئی اور جناح جنھوں نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن تو پا لیا مگر ان کی پشت پرکھڑی "مسلم لیگ" نوابوں اور سرداروں کی پارٹی تھی۔ کیا کرتے! اس پارٹی کو ایسا ہی ہونا تھا۔ انگریزوں کی سو سالہ دورِ حکومت میں مسلمانوں کو پسپا کیا گیا کیونکہ انگریز سامراج سے لڑنے والا مسلمان تھا، مسلمانوں سے حاکمیت چھیننے والا انگریز تھا اور ان کو ڈر بھی مسلمانوں سے ہی تھا۔
صرف مسلمان ہی کیوں ہم وادی مہران کا بھی عکس ہیں جس کی تاریخ لداخ اور تبت سے شروع ہوتی ہے۔ وہ دریا جو اپنے پیچ وخم بناتا، آبشاروں سے پگھلتا، ہزاروں سال سے روانہ ہے۔ وہ دریا جس کے کناروں پر آباد تھیں ہڑپہ،ٹیکسلا، مہرگڑھ اور موئن جو دڑوکی تہذیبیں۔ نہ جانے کتنے مذاہب آئے اور گئے۔ جین مت، بدھ مت پھیلا، راجا داہر سے لے کر تالپروں نے اس تہذیب پر حکمرانی کی۔ نادرشاہ افشارکا شمار ان حملہ آوروں میں ہوتا جنھوں نے اس سرزمین پر تباہی کی بدترین مثال قائم کی اور یہاں کا انمول ہیرا کوہِ نور چرا لیا۔
پاکستان کا وجود دلی میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کا تسلسل تھا لیکن ہندوستان ضرور تقسیم ہو گیا۔ برِصغیر کے جس حصے پر پاکستان بنا وہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ یہ دنیا میں ایک منفرد بٹوارہ تھا جس میں لاکھوں لوگ قتلِ عام کا نشانہ بنے۔ پنجاب سے پنجاب تک کی ایک بھیانک ہجرت تھی۔ یہاں سے سکھوں اور ہندوؤں نے ہجرت کی اور وہاں سے مسلمانوں نے۔
دوسری جنگِ عظیم اتحادیوں نے جیتی، جس میں انگریز سامراج بھی اتحادی تھا، مگر دوسری جنگِ عظیم کے کے خاتمے کے بعد انگریزکمزور پڑگیا، پھر ان کو یہ خیال آیا کہ ہندوستان سے کوچ کیا جائے، مگر جاتے جاتے بھی وہ کشمیرکے معاملے کو ادھورا چھوڑگیا کہ اس خطے میں ایک چنگاری سلگتی رہے۔ انگریز اگرچہ کشمیر کے معاملے کو ادھورا چھوڑکر نہ جاتا توکیا ہوتا؟
لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے آخری وائسرائے تھے اور وہ جواہر لعل نہرو کے بہت قریب تھے۔ بقول کلدیپ نیرکے کہ نہرو نے بہت بڑی غلطی کی، یہ کہہ کر کشمیر پاکستان کے حوالے نہ کیا جائے کیونکہ نہرو خود کشمیری تھے اور ان کے آباؤ اجداد بھی کشمیری تھے اور وہ کشمیرکا الحاق پاکستان سے نہیں چاہتے تھے۔
آج کشمیر کا مسئلہ حل ہوجاتا، اگر جناح کو زندگی چند سالوں کی مہلت دے دیتی۔ آج پاکستان و ہندوستان شاید بہت قریب ہوتے۔ یہ دشمنی نہ پھلتی پھولتی۔ دونوں میں جنگیں ہوئیں۔ پاکستان جن زمانوں میں بنا دنیا کو ان وقتوں میں سرد جنگِ کا سامنا تھا اور یہ سرد جنگ 1990 تک جاری رہی۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یہ جمود ٹوٹا۔ فوکویاما کا شہرت یافتہ مضمون "End of History" (تاریخ ختم ہوئی) میں مضمون نویس یہی کہنا چاہتا تھا کہ جمہوریت یعنی مارکیٹ اکانومی نے کنٹرولڈ اکانومی یعنی آمریت کو شکست دی۔
امرتا سین نے غربت و افلاس کے خاتمے کے لیے مارکیٹ اکانومی میں حل ڈھونڈے۔ پھر پتا چلا کہ تاریخ کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ مارکیٹ اکانومی سے ٹرمپ جیسے حکمران ابھرکر آئے۔ دنیا میں نوے فیصد اثاثے دنیا کی ایک فیصد آبادی کے پاس ہیں اور دس فیصد اثاثے دنیا کی 99% آبادی کے پاس ہیں۔ تاریخ کی اس بدترین نا انصافی نے کیپٹل ازم کو جنم دیا، ماحولیاتی آلودگی کو پھیلایا۔
کال مارکس نے یہ کہا تھا کہ تاریخ دراصل طبقاتی تضادات و ٹکراؤ اور ان کے خلاف جدوجہد کی تشریح ہے، مگر آج کے چند بڑے فلسفیوں میں سے ایک فلسفی یووال حراری تو یہ بھی کہتے ہیں کہ تاریخ کا مطلب ہے کہ جب سے انسان غاروں نکلا ہے، پیٹ پالنے کی غرض سے کھیتی باڑی کرنا شروع کی اور آج وہ تاریخ بھی ایک سوالیہ نشان بن کر کھڑی ہوئی ہے کیونکہ آرٹیفشل انٹیلی جنس دنیا میں آچکی ہے۔
قصے کو مختصر کرتے ہوئے تاریخ کے تسلسل میں ایک زاویہ ہمارا پاکستان بھی ہے، جس کا قدیم نام انڈس اور مہران ہے جس کا ذکر یونانیوں نے اپنی کتابوں میں کیا ہے اور آج بھی یہ انڈس (دریائے سندھ) کی دونوں اطراف وادی مہران کی تہذیب پھیلی ہوئی ہے۔ ہمیں اپنی تاریخ میں لوٹنا ہوگا۔ موئن جو دڑو، ہڑپہ اور ٹیکسلا کی تاریخ میں، وہ تاریخ جو بلوچوں کا حصہ ہے، وہ تاریخ جو پنجابی، پختون اور سندھیوں کی تاریخ ہے وہ ہی دراصل ہماری تاریخ ہے۔
ہم نے اس تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی، نتیجہ کیا نکلا،آج ہم ہی اپنے لیے اجنبی ٹھہرے۔ ہم نے ان کو ہیرو باورکرایا جو غاصب تھے۔ ان غاصبوں نے یہاں کے لوگوں کا قتل عام اور ڈاکا زنی کی۔ ہمیں تاریخ کی اس تشریح کو ترک کرنا پڑے گا۔ نہ تو ریاست کا کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی تاریخ کا۔ ایک ریاست کئی مذاہب کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ریاست میں مختلف مذاہب کے لوگ آباد ہوتے ہیں۔
پاکستان بہ حیثیت ایک آزاد ریاست آج جس موڑ پر ہے، اب وہ موڑ اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ پاکستان کیا کثیر القوم، مختلف مذاہب، زبان، تہذیب اور ثقافتوں کا ملک ہے۔ ایک فلاحی ریاست ہے اور تمام اقوام، مذاہب، زبانیں، تہذیب اور ثقافتیں اس ملک کے آئین اور قانون کے تابع ہوکر اس ملک میں برابری کی حیثیت رکھتے ہیں۔