ملک کو سنگین چیلنجز درپیشانا پرستی چھوڑ کر مل بیٹھنا ہوگا
’’موجود ملکی صورتحال‘‘ کے حوالے سے سیاسی و معاشی ماہرین کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
نو منتخب حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی بدترین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جن میں سیاسی، معاشی اور سکیورٹی مسائل سر فہرست ہیں۔چیلنجز کا یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ ہر صبح ایک نیا چیلنج حکومت کو ویلکم کرنے کیلئے تیار ہوتا ہے۔
مشکل حالات میں اپوزیشن جماعتیں بھی ٹف ٹائم دے رہی ہیں، احتجاج بھی کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف حکومت ملک کو مسائل کے بھنور سے نکالنے کیلئے بھاگ دوڑ کر رہی ہے، اقدامات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس سب کے پیش نظر ملک کی موجودہ صورتحال ، سیاسی، معاشی و دیگر چیلنجز کا جائزہ لینے کیلئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی و معاشی ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد
(چیئرپرسن شعبہ سیاسیات، جامعہ پنجاب)
حکومت اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے اراکین نے حلف لے کر اسمبلی اور حکومت کی آئینی و قانونی حیثیت کو تسلیم کیا ہے۔ یہی حلف کا مقصد ہوتا ہے لہٰذا اب انہیں اپنا اپنا کردار موثر انداز میں ادا کرنا چاہیے۔سیاستدانوں کو چاہیے کہ حکومت کوچلنے دیں، زیادہ نہیں تو 3 برس انتظار کیا جائے۔ عوام نمائندوں کو ان کی کارکردگی کے تناظر میں دیکھتے ہیں، اگر حکومت کی کارکردگی اچھی رہی تو آئندہ منتخب ہو جائے گی وگرنہ عوام اپوزیشن جماعتوں کو منتخب کر لیں گے۔
اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے عوامی نمائندے، عوامی مسائل پر آواز اٹھائیں۔ سب کو سمجھنا چاہیے کہ سیاسی کھینچا تانی سے ملک کو نقصان ہوگا، عوام کسی کو معاف نہیں کریں گے۔ بجٹ آنے والا ہے، ایسے میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے اراکین کو چاہیے کہ وہ عوام کے حقوق کی بات کریں۔ بجٹ پر نظر رکھیں کہ عوامی فلاح کے منصوبوں پر کیا کیا جا رہاہے، کہیں زبانی جمع خرچ تو نہیں ہو رہا۔ سیاستدانوں کو آپس میں نہیں لڑنا چاہیے۔
اگر دوبارہ الیکشن کروا دیے جائیں تو کیا گارنٹی ہے کہ اس کے نتائج تسلیم کیے جائیں گے؟ پھر کوئی اور اعتراض اٹھادے گا۔میرے نزدیک ملک کو درپیش چیلنجز میں ہمیں ''آؤٹ آف دا باکس'' حل کی ضرورت ہے۔ اگر ہمیں ملک عزیز ہے اور ہمیں اس سے غرض ہے تو پھر پاکستان کو بچانا لازم ہوگیا ہے۔ بدقسمتی سے ہر طرف انا پرستی نظر آرہی ہے،یہ ہمیں لے ڈوبے گی لہٰذا سب کو ملک کی خاطر ذاتی اناء کو پس پشت ڈالنا ہوگا۔ ملک کے بڑے، بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو ساتھ بٹھائیں۔ ہمارے ملک کی اپوزیشن خود کو اپوزیشن تسلیم نہیں کر رہی جس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
اس کا نقصان ملک اور معیشت کو ہوگا۔ ملک میں سیاسی و سکیورٹی مسائل پر آل پارٹیز کانفرنس بلائی جاتی ہے، ا س وقت سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا ہے جس سے ہماری بقاء جڑی ہے لہٰذا فوری طور پر معیشت کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے، آئندہ مالی بجٹ کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز، پروفیسرز اور ماہرین سے مشاورت کی جائے، شرح سود اور ٹیکسوں کی بھرمار میں کمی کی جائے۔ بدقسمتی سے تعلیم کسی کی ترجیحات میں شامل نہیں۔یونیورسٹیوں میں عہدے خالی پڑے ہیں، تعلیمی اداروں کے پاس فنڈز کی کمی ہے، تنخواہوں میں تاخیر ہو رہی ہے۔
اس پر اپوزیشن بھی آواز نہیں اٹھا رہی۔ کیا ملک میں اقتدار کے حصول کے علاوہ کوئی اور مسئلہ سیاستدانوں کی ترجیحات میں نہیں ہے؟ افسوس ہے کہ ڈھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے ، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ہمارے نمائندوں کو ان کی فکر ہی نہیں؟ یہ تو ملک کا مستقبل ہیں۔اگر ان کے پاس تعلیم نہیں ہوگی تو ملک ترقی کیسے کرے گا؟ اگر ہم نے اپنے مسائل کا دیرپا حل نکالنا ہے تو ملک میں تعلیمی ایمرجنسی لگانا ہوگی۔
دنیا بھر میں پروفیسرز اور یونیورسٹیاں تھنک ٹینک کا کام کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں پروفیسرز کو ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کی فکر ہوتی ہے، ان سے کوئی کام ہی نہیں لیا جاتا۔ ملک کی سمت درست کرنے کیلئے پالیسی سازی میں یونیورسٹیوں کی تحقیق اور پروفیسرز کے تجربات سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔سموگ، موسمیاتی تبدیلی سمیت دیگر چیلنجز کا تعلق عام آدمی سے ہے۔اس لیے اس کا سسٹم میں شامل ہونا، اس تک حکومت کی رسائی ہونا بہتر ضروری ہے۔
عوامی شمولیت کیلئے سب سے بہترین نظام مقامی حکومتوں کا ہے مگر ہمارے ہاں یہ سسٹم ہی موجود نہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اسے قائم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو سمجھنا چاہیے کہ اگر انہیں عوام سے تعلق جوڑنا ہے تو لوکل گورنمنٹ کا نظام لانا ہوگا۔
اس سے گراس روٹ لیول پر لوگوں کے مسائل حل کیے جاسکیں گے۔ لوگوں کا حکومت پر اعتماد بڑھے گا جس کا ملک کو فائدہ ہوگا۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وسیع تر ملکی مفاد میں سخت، بڑے، مشکل اور ضروری فیصلے کرے ۔ ملک ہے تو ہم ہیں، اس وقت ملک کو بچانا اور مسائل کے بھنور سے نکالنا سب سے اہم ہے۔ حکومت اوراپوزیشن سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر محمد ارشد
(سابق ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی)
بدقسمتی سے ہم اس وقت گرداب میں پھنسے ہیں اور کسی کو کوئی خیال نہیں ہے۔ بقول اقبالؒ:
وائے ناکامی!متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
آج کسی سیاسی فورم، سیاسی جماعت اور لیڈر کی گفتگو میں احساس زیاں نہیں ہے۔ جب تک ہمیں احساس نہیں ہوگا، بات کیسے آگے بڑھے گی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق دور حکومت کے دوران 2016ء میں تمام عالمی ریٹنگ ایجنسیز اچھی خبریں سنا رہی تھیں کہ اگر یہی ''فنانشنل رجیم'' چلتی رہی تو 2020ء میں پاکستان کی جی ڈی پی ڈبل ڈجٹ ہوجائے گی۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں گروتھ منفی ہوگئی، سیاستدان آپس میں لڑائی لڑتے رہے۔ اگر ملک کی خاطر اسی معاشی رجیم کو چلایا جاتا تو آج حالات مختلف ہوتے ۔ بدقسمتی سے ہم نے 8 سال ضائع کر دیے اور اب معاشی مسائل عفریت کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں ٹیکس کا نظام بہترین تھا، اس کے بعد آج تک ویسا نظام نہیں آیا۔ اس وقت کے چیئرمین ایف بی آر عبداللہ یوسف نے خود کہا کہ ٹیکس دہندگان ٹیکس دینا چاہتے ہیں۔ اس دور میں میری تجویز پر خوردنی تیل کے شعبے میں ٹیکس کے حوالے سے تبدیلی کی گئی۔
صرف امپورٹ کے وقت ڈبل ٹیکس لے لیا جاتا تھا جو ایک مرتبہ ہوتا تھا، اس کے بعد آڈٹ اور ریفنڈ کا کوئی معاملہ نہیں تھا۔ سب نے بخوشی ٹیکس دیا اور اس طرح ٹیکس کولیکشن دوگنی ہوگئی مگر بعد میں آنے والی حکومتوں نے اسے آگے نہیں بڑھایا۔خام تیل کے بعد پاکستان کی دوسری بڑی امپورٹ خوردنی تیل کی ہے، اگر ہم اس پر توجہ دیں تو معاشی استحکام لایا جاسکتا ہے۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف نہیں مانتا۔ ہماری انڈسٹری کی آئی ایم ایف سے ملاقات کروائیں، ہم آئی ایم ایف کو رضامند کرلیں گے کیونکہ ہم ٹیکس میں چھوٹ نہیں چاہتے بلکہ ڈبل ٹیکس دینے کو تیار ہیں۔
جب ایک ہی وقت ٹیکس کولیکشن ہوجائے گی تو اس سے ٹیکس ریونیو میں بھی اضافہ ہوگا۔ ہمارے ہاں شرح سود بہت زیادہ ہے۔ بینکوں نے 125 فیصد تک منافع کمایا ہے۔ بینکار خود کہہ رہے ہیں کہ ٹیکس کی شرح کم کریں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو چھوٹے بینک ختم ہوجائیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ منصوبہ بندی کے ساتھ ایسا کیا جا رہا ہو۔ اس وقت بھارت سے تجارت کی باتیں ہو رہی ہیں۔ بھارت میں شرح سود 3 سے6 فیصد ہے۔ وہاں زرعی شعبے کو مفت پانی اور بجلی فراہم کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کی پیداواری لاگت ہماری نسبت انتہائی کم ہے۔ اس لیے تاجر براردی میں تشویش پائی جاتی ہے۔
اگر بھارتی اشیاء سستے داموں آگئی تو امپورٹ بل میں بے پناہ اضافہ ہوگا اور یہاں کا تاجر طبقہ بھوکا مر جائے گا۔ اس حوالے سے واضح منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ بھارت سے امپورٹ پر 25 فیصد سے زائد ڈیوٹی لگائی جائے۔ بیرون ممالک میں تولیہ ودیگر سامان بنگلہ دیش کا ملتا ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے ان اشیاء پر 25 فیصد ایکسپورٹ سبسڈی دی اور اپنی انڈسٹری اور معیشت کو اٹھایا۔ہمیں بھی کچھ اشیاء منتخب کرکے ان پر سبسڈی دینی چاہیے۔
بھارت میں چاول کی فصل 100 ملین ٹن جبکہ ہمارے ہاں 8 ملین ٹن ہوتی ہے۔ ایکسپورٹ کی مقدار میں ہمارا اس کا مقابلہ نہیں لیکن یہ اللہ کا کرم ہے کہ ہمارے کرنل چاول میں جو خوشبوہے وہ بھارت کے چاول میں نہیں،ا س لیے ہماری مانگ زیادہ ہے۔ اس وقت ملک میں بھارت کا سمگل شدہ چاول فروخت ہورہا ہے،ا س طرف توجہ دینا ہوگی۔
بھارت اپنے ایکسپورٹرز کا مکمل ساتھ دیتا ہے، اگر کسی ملک میں ان کی رقم پھنس جائے تو حکومت دن رات ایک کر دیتی ہے مگر ہمارے ہاں ایکسپورٹرز کو اپنی لڑائی خود لڑنی پڑتی ہے، کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ہمارے زرعی شعبے میں بہت پوٹینشل موجود ہے، اگر سیاست سے بالاتر ہوکر فیصلے کیے جائیں تو ملکی معیشت کو سنبھالا دیا جاسکتا ہے۔ موجودہ مسائل کا حل معاشی استحکام سے جڑا ہے، ٹیکس کی شرح میں کمی اور معاشی اصلاحات کی جائیں۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
(سیاسی تجزیہ نگار)
پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں دھند زیادہ ہے، کچھ بھی واضح نہیں ہے۔ ملک بڑے طوفان کی زد میں ہے۔ بہت کچھ جل رہا ہے جو نظر نہیں آرہا لیکن اس کی تپش پہنچ رہی ہے۔ اس وقت ملک کو سنگین اندرونی اور بیرونی چیلنجز درپیش ہیں۔ عالمی سطح پر بھی ہمیں مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ بطور ریاست دنیا میں ہمارا تماشہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بھارت کا پاکستان میں پے در پے ٹارگٹ کلنگ کرنا، جرم تسلیم کرنا اور معذرت نہ کرنا افسوسناک ہے، اس کے اثرات ہماری سیاست، سکیورٹی اور معیشت پر پڑ رہے ہیں۔ پاکستان کو سوشل میڈیا پر بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
بیرون ممالک سے ایسے ٹرینڈز چلائے جا رہے ہیں جس سے یہاں مسائل پیدا ہو رہے ہیںا ور ہمارے سادہ لوح لوگ شکار ہو رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا امریکا اور بھارت کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات ٹھیک ہیں؟ مسائل اپنی جگہ لیکن وہ سفارتی معاملات چلائے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس وقت مختلف محاذپر چیلنجز کا سامنا ہے لہٰذا انتہائی سمجھداری سے ان کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائے ارینجمنٹ اور کچھ سٹرکچرل معاملات ہوتے ہیں جو بات چیت سے طے ہوتے ہیں۔
میٹنگز کا خاص ایجنڈہ ہوتا ہے اور معاملات آگے بڑھائے جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم سیاستدانوں ، سیاسی جماعتوں کی آپس میں بات چیت کی بات کریں تو بات کس پر ہوگی؟ اس کا ایجنڈہ کیا ہوگا؟میرے نزدیک اس وقت سب صفر پر کھڑے ہیں اور ان کے پاس بات چیت کیلئے کوئی ایجنڈہ نہیں ہے۔ اپوزیشن کے نزدیک بات تو تب ہوگی جب الیکشن کو 'ان ڈو' کیا جائے گا۔
حکومت ا س پر کسی بھی طور رضامند نہیں ہوگی۔ اس وقت کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے ڈیڈلاک ہے۔ہمیں کچھ ایسا کرنا پڑے گا جس سے معاملات آگے بڑھیں۔ نیت جتنی بھی اچھی ہو اگر درست ایکشن نہ لیا جائے تو فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر ہمیں پاکستان کو مضبوط کرنا ہے تو اندرونی مسائل حل کرنا ہوں گے ورنہ بیرونی طاقتوں کو یہاں سے رضاکار مل جائیں گے جو مزید مسائل کا باعث بنیں گے۔ ہم جن مسائل کا شکار ہیں، انہیں حل کرنا آسان نہیں ہے۔ ان میں سیاسی، سکیورٹی، معاشی و دیگر چیلنجز شامل ہیں۔
ہماری شرح سود بہت زیادہ ہے، اس کی وجہ سے بے شمار کاروبار ختم ہوگئے، حکومت خود بھی مشکل میں ہے لہٰذا ہمیں معیشت پر توجہ دینا ہوگی۔ ملکی حالات ہمیں مزید چیلنجز کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اس وقت فوج، عدلیہ و دیگر ادارے تنقید کرنے والوں کے نشانے پر ہیں، ان کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے جو افسوسناک ہے۔آئین پاکستان ایسی دستاویز ہے جو سب مسائل حل کر سکتی ہے۔ اگر ہم آئین کے مطابق چلیںاور اسی کے مطابق اقتدار دیں تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ہمیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ابھی وقت ہاتھ میں ہے، سب کچھ کیا جاسکتا ہے لیکن اگر وقت گنوا دیا تو پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ ارباب اختیار کو بڑے اور بروقت فیصلے لینا ہوں گے۔
بانی تحریک انصاف روایتی سیاستدان نہیں، انہیں معلوم ہے کہ وہ اور ان کی جماعت عوام میں مقبول ہے لہٰذا وہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے ان کی ساکھ متاثر ہو۔ وہ پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سب اس وقت بند گلی میں ہیں لہٰذا حالات کو بہتر کرنے اور استحکام لانے کیلئے سب کو درمیانی راستہ نکالنا ہوگا جس میں دونوں اطراف کی جیت ہو۔ افواج پاکستان قابل اور بہترین ہیں لیکن کوئی بھی فوج ملک کے اندر اور باہر، دو جگہ نہیں لڑ سکتی، ہمیں اپنے اندرونی مسائل حل کرکے بیرونی دشمنوں کو روکنا ہے۔ یہ ملک ہے تو ہم ہیں، ملک کی خاطر سب کو مل بیٹھنا ہوگا۔