بات انتہائی سادہ سی ہے۔ آپ کو اپنے خرچ کےلیے گڑ کی دو ڈلیاں چاہیے ہوں اور آپ کے پاس گڑ کی ایک پوری بوری پڑی ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس بوری کے علاوہ بھی آپ کو کوئی کہے کہ نہیں آپ دو بوریاں اور خرید لیں تو یقیناً آپ وہ دو بوریا ں نہیں لیں گے کیونکہ آپ کے پاس تو پہلے ہی گڑ ضرورت سے زیادہ موجود ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اس وقت حکومت اور کسانوں کے درمیان درپیش ہے۔
دستیاب معلومات کے مطابق صوبہ پنجاب جو گندم کی پیداوار اور استعمال کے حوالے سے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اگر صوبے کے پاس 23 لاکھ ٹن گندم موجود ہو اور یہ اس کی ضرورت سے بھی زیادہ ہو تو وہ کسانوں سے گندم کیسے خریدے گا اور کس طرح سرکاری نرخ یعنی 3900 روپے فی من پر گندم کی خریداری ممکن ہوسکے گی۔ یہ ایسا مسئلہ فیثا غورث بنا ہوا ہے جس کےلیے عاقل دماغ سر جوڑ کر بیٹھے ہیں اور حل نکالنے کی کوشش میں ہیں۔
ہم کل تک ہمسایہ ملک کے کسانوں کی ٹریکٹر ریلی اور احتجاج کو فخر سے بتاتے تھے اور آج اپنے ہاں وہی صورتحال درپیش ہے تو ہمارے پاس انکوائریوں کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ ایک حل یہ ہوسکتا تھا کہ اضافی گندم کم از کم کسانوں سے خرید لی جاتی لیکن یہاں بھی ایک المیہ ہمارا ہر سال منتظر ہوتا ہے کہ ہمارے پاس گندم کو ذخیرہ کرنے کےلیے گودام ہی موجود نہیں۔ چیچہ وطنی بیلٹ پر ہمیں گندم کھلے آسمان کے نیچے ترپال ڈال کر محفوظ کرنا پڑتی ہے۔ اور ایسے ذخائر کا حال ہم نے سیلاب اور بارشوں میں دیکھ لیا کہ کیا ہوا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق پنجاب کے وزیر خوراک کے مطابق حکومت ہر سال اگر 40 لاکھ ٹن گندم کا حصول ممکن بناتی ہے تو اس سال یہ حد 20 لاکھ ٹن تک رہے گی۔ جب کہ وفاق جو 20 لاکھ ٹن خریدتا ہے اس حوالے سے بھی صورتحال غیریقینی ہے۔ اس پورے معاملے میں نجی شعبہ پوری طرح بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مصروف ہے۔ نجی شعبے کے پاس نہ صرف گندم خریدنے کی استطاعت موجود ہے بلکہ ان کے پاس اس کو محفوظ کرنے کےلیے اسٹوریج بھی موجود ہے۔ اور یہ دونوں چیزیں حکومتی سطح پر مفقود ہیں، نہ ہی پیسہ ہے نہ ہی گودام ہیں۔
نجی شعبہ اس پوری صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گندم سستے داموں میں خرید کر اسٹور کرلے گا اور جون جولائی کے بعد جب یہ موجودہ بمپر کراپ یا تو اونے پونے داموں کسان بیچ دے گا یا پھر محفوظ نہ ہوسکنے پر خرابی کا شکار ہوگی تب نجی شعبہ گندم مارکیٹ میں ڈالے گا اور پھر اس کو مہنگے داموں بیچ کر منہ مانگا منافع کمائے گا۔ اب اس پورے معاملے میں حکومت کہاں کھڑی ہے؟
حکومت نے جسٹس (ر) میاں مشتاق کی سربراہی میں کمیٹی بنا دی ہے جو نگران دور میں خریدی گئی اضافی گندم اسکینڈل کی نہ صرف تحقیقات کرے گی بلکہ ذمے داروں کا تعین بھی کرے گی۔ پاکستان میں یہ تحقیقات کیسے ہوتی ہیں اس کا سب کو بخوبی علم ہے۔ اور جب تک یہ تحقیقات ہوں گی تب تک اگلی دفعہ گندم کاشت کرنے کی باری آجائے گی۔ اور تھکا ہارا، حالات کا ستایا ہوا کسان حکومتی رویے سے تنگ آکر اگلی دفعہ کیوں کہ گندم کی کاشت کی طرف جائے گا ہی نہیں، اس لیے ایک نیا بحران پاکستان کا منتظر ہوگا۔ اور ہم تب تک تحقیقات تحقیقات ہی کھیل رہے ہوں گے۔
اور تحقیقات ہوں گی تو بھی کیا ہوگا؟ نگران سیٹ اپ میں شامل افراد ہی اگر اس موجودہ حکومت میں موجود ہوئے تو کارروائی کس کے خلاف ہوگی؟ اور ذمے داری کس پر ڈالی جائے گی؟ المیہ دیکھیں کہ ہم نگران حکومت کو تو رو رہے ہیں لیکن مارچ 2024 تک گندم کی برآمد جاری رہی اور ایک اندازے کے مطابق مارچ 2024 میں 57 ارب 19 کروڑ 20 لاکھ روپے کی گندم برآمد کی گئی۔
کسان پریشان ہوگا تو یقینی طور پر یہ پاکستان کی زراعت کو ایک دھچکا ہوگا۔ فی من پیداوار حاصل کرنے کےلیے اگر اخراجات پانچ ہزار سے بھی اوپر ہوں گے اور فی من قیمت اگر صرف 3900 روپے ہوگی تو کسان اگلی فصل کیسے کاشت کرے گا اور اس فصل کا خرچ کیسے پورا کرے گا۔ بچوں کی شادی، ان کی تعلیم، گھر کی تعمیر، خاندان کی فلاح، قرض کی ادائیگی، جیسے معاملات کسان کےلیے نئی فصل سے منسلک ہوتے ہیں، اس بارے میں ہم سوچنا گوارا نہیں کر رہے۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ گندم کی یہ امدادی قیمت بھی پوری نہیں مل رہی اور اس وقت گندم 3000 سے 3600 روپے فی من آسانی سے دستیاب ہے۔ بڑا زمیندار تو یہ دھچکا سہہ جائے گا، لیکن چھوٹا زمیندار دہرے مخمصے کا شکار ہے کہ نہ گندم کم قیمت پر بیچ سکتا ہے کہ خرچ پورا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کو پاس رکھ سکتا ہے کہ محفوظ کرنے کےلیے باقاعدہ گودام نہیں ہیں۔ نتیجتاً وہ یہ گندم اونے پونے داموں آڑھتیوں کو فروخت کرے گا جسے آڑھتی ذخیرہ کریں گے اور سستے داموں خریدی گئی گندم کو مہنگے داموں بیچنے کا بندوبست کریں گے۔
کہنے کو تو پاکستان زرعی ملک ہے لیکن زرعی پالیسیاں جس طرح کی بن رہی ہیں، کچھ بعید نہیں کہ مستقبل قریب میں زرعی ملک ہونے کا لاحقہ بھی ہم سے چھن جائے گا۔ اور جو صورتحال اس وقت درپیش ہے اگلے سیزن کےلیے کم کاشت کا المیہ ہمارا منتظر ہے کہ چھوٹا زمیندار اپنی ضرورت سے زیادہ گندم کاشت ہی نہیں کرے گا اور گندم کی کمی ہماری منتظر ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔