گندم کا بحران
گندم ہو یا کوئی اور شہ اس کی قیمت کا تعین معاشی اصول کے مطابق رسد اور طلب کی بنیاد پر کیا جاتا ہے
وطن عزیز پاکستان میں سکون محال ہے۔ ابھی ایک بحران ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا پیدا ہوجاتا ہے۔ اس پر ہمیں منیرؔ نیازی یاد آرہے ہیں، جنھوں نے کیا خوب کہا ہے۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اس وقت گندم کے سنگین مسئلے نے پریشان کر رکھا ہے۔ پرابلم یہ ہے کہ ایک طرف مشکل میں پھنسے ہوئے کسان ہیں کہ جنھیں اپنی خون پسینہ کی کمائی کی پوری قیمت نہیں مل رہی اور دوسری جانب حکومت ہے کہ جو انھیں بار بار تسلی دے رہی ہے۔
گندم ہو یا کوئی اور شہ اس کی قیمت کا تعین معاشی اصول کے مطابق رسد اور طلب کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، اگر رسد زیادہ ہو اور طلب کم ہو تو قیمت کم ہوجاتی ہے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو دام مہنگے ہوجاتے ہیں۔ ہوا یوں کہ حکومت نے گندم کی فصل آنے سے قبل بیرونی ذرایع سے ضرورت سے زیادہ گندم درآمد کر لی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں گندم کی رسد طلب کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوگئی۔
وطن عزیز کا اصل مسئلہ بد انتظامی کا ہے۔ درآمد شدہ گندم کی اوسط قیمت US ڈالر 290/ میٹرک ٹنز ہے جو حکومت کی گھریلو مداخلتی قیمت US ڈالر 350/ میٹرک ٹنز سے نمایاں طور پر کم ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ گندم کی درآمدات پر بیش قیمت زرمبادلہ ضایع ہوا جب کہ دوسری جانب کسانوں سے پوری قیمت پر گندم کی خریداری کا خواہ مخواہ کا مسئلہ پیدا ہوا۔
تنگ آمد بجنگ آمد کاشتکار احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومت کو چار و ناچار کسانوں سے وافر گندم کی خریداری کرنا پڑے گی جب کہ حالات یہ ہیں کہ اضافی گندم کو خرید کر اسٹوریج میں رکھنے کا مسئلہ درپیش ہے کیونکہ اضافی گندم کو ذخیرہ کر کے محفوظ کرنے کا بھی بندوبست نہیں ہے۔
دوسری جانب بیچارے کسانوں کو کم قیمت پر اپنی پیداوار کو فروخت کرنے کے نتیجے میں کم و بیش 50 فیصد نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ایک اندازے کے مطابق اس صورتحال سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ تقریباً 380 بلین روپے ہے۔ اس پیچیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے طرح طرح کی تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔ ملکی مفاد کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اس معاملے میں شفافیت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ پاکستان میں گندم کی پیداوار کے حوالے سے اعداد و شمار کافی دلچسپ ہیں۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے لے کر اب تک گندم کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر 1960 میں گندم کی کل پیداوار 3,909 ہزار میٹرک ٹنز تھی جو کہ 1980 میں بڑھ کر 10,857 ہزار میٹرک ٹنز اور سال 2000 میں 21,079 ہزار میٹرک ٹنز تک جا پہنچی۔ یہ اضافہ کا رجحان جاری رہا جو بڑھتے بڑھتے 2020 میں 25,247 ہزار میٹرک ٹنز اور سال 2023 میں 26,801 ہزار میٹرک ٹنز تک جا پہنچا تاہم 2024 کی متوقع پیداوار تقریباً 32,100 ہزار میٹرک ٹنز ہے۔
آئیے! گندم کی پیداوار کا موازنہ انھیں تمام سالوں میں ہونے والی اس کی گھریلو کھپت سے کرتے ہیں۔ مثال کے طور پہ 1960 میں گندم کی کل کھپت 5,454 ہزار میٹرک ٹنز جوکہ 1980 میں بڑھ کر 11,200 ہزار میٹرک ٹنز اور 2000 میں 22,500 ہزار میٹرک ٹنز تک پہنچ گئی۔
یہ اضافہ جاری رہا جس کے نتیجے میں 2020 میں گندم کی کل کھپت 26,300 ہزار میٹرک ٹنز اور 2023 میں 29,600 ہزار میٹرک ٹنز تک پہنچ گئی۔ منصفانہ تخمینہ کے مطابق سال 2024 کی متوقع پیداوار 32,000 ہزار میٹرک ٹنز کے قریب ہے جوکہ پورے سال کی گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے، اس کے علاوہ اگر ہم غورکریں تو افغانستان کو برآمد ہونے والی 2 ملین میٹرک ٹنز گندم کے نتیجے میں پیداوار کھپت کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔
2024 میں آٹے کی قیمت میں اضافہ اور قلت کے پیش نظر گندم کو بونا کسانوں کا من پسند انتخاب تھا جس کے نتیجہ میں کاشت کیے گئے علاقہ کا 40 فیصد (9.12 ملین ہیکٹر) گزشتہ سال کے اکتوبر، نومبر اور دسمبر میں 2024 کی گندم کی فصل کے لیے وقف کردیا گیا تھا۔ اس سے 2022 میں لگائی گئی 2023 کی گندم کی فصل میں 8.86 ملین ہیکٹر سے لے کر گزشتہ سال کی 9 ملین ہیکٹر سے زیادہ اضافہ ہوا۔
سب ٹھیک چل رہا تھا۔ فراہمی اور طلب میں توازن برقرار تھا۔ ایک امریکی تخمینہ کے مطابق گندم اور آٹے کی (1.8 ملین ٹنز) فاضل مقدار کی افغانستان کو غیر قانونی درآمد کی گئی جس کے نتیجے میں گندم کے بارے میں کی گئی پیشگوئی میں افغانستان میں گندم کی طلب کو شامل کیا گیا۔ اس مشق میں افغانستان کا براہ راست تذکرہ کیے بغیر طلب کے اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا کیونکہ افغانستان کو کی جانے والی زیادہ تر برآمدات اسمگلنگ کا نتیجہ تھیں۔