زنداں کو توڑ ڈالو
ملک میں ایک طرف دہشت گردی کی آگ بھڑک رہی ہے۔ تو دوسری طرف بظاہر عوام دوست عناصر....
دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک بچپن کی معصوم دنیا جو خوبصورت، سادہ اور بے ضرر خوشیوں سے بھری ہوئی ہے۔ دوسرا حصہ تجربے کی دنیا کا ہے جو نفرت، تعصب، جھوٹ اور منفی رویوں سے جہنم کی طرح سلگتا ہے۔ یہ تصور انگریزی کے شاعر ولیم بلیک نے اپنے شعری مجموعے معصومیت کا گیت اور تجربے کا گیت میں مثالوں کے ساتھ متعارف کروایا ہے۔
یہ کیفیت انسانی زندگی میں موجود رہتی ہے کہ جیسے ہی انسان بچپن کی حدود پھلانگ کے تجربے کی دنیا میں قدم رکھتا ہے، تو زندگی کی بھول بھلیوں میں کہیں کھو جاتا ہے۔ آج بھی ہمارے ذہن میں بچپن کے خوبصورت دنوں کی یادیں احساس کو تحرک عطا کرتی رہتی ہیں۔ یہ آزادی کے دن تھے جو تجربے کے دور میں داخل ہوتے ہی قید خانے میں بدل جاتے ہیں۔
ہر انسان کے ذہن میں ایک مختلف طرح کا پنجرہ ہے۔ احساس کا زندان، جس میں اس کے آدرش کھلے آسمان کا خواب دیکھتے ہیں۔ ایک جنت گم گشتہ جسے پہلے کھوجنے کی چاہ میں انسان اپنی آزادی دن بہ دن کھوتا چلا جاتا ہے۔ سچائی، حقیقت پسندی اور اطمینان کھلا راستہ ہے جب کہ خواہش پرستی بند گلی کی طرح ہے۔
ملک میں ایک طرف دہشت گردی کی آگ بھڑک رہی ہے۔ تو دوسری طرف بظاہر عوام دوست عناصر، سماجی انتشار کو ہوا دے رہے ہیں۔ صحیح غلط اور سچ و جھوٹ کی تمیز مٹتی محسوس ہوتی ہے۔ انسان جن چیزوں کی خواہش کرتا ہے، ضروری تو نہیں کہ وہ اس کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں۔ بعض اوقات جن چیزوں کے لیے وہ سب کچھ چھوڑ دیتا ہے وہ اس کی روح کی راحت نہیں بن سکتیں۔ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ کیا صحیح ہے کیا غلط۔ جسے غلط سمجھتے ہیں آگے چل کر وہ راستہ منزل پر جا کے ختم ہو جاتا ہے۔ اور جو راستہ صحیح دکھائی دیتا ہے، وہ نظر کا فریب بن جاتا ہے۔ پھر انسان صحیح اور غلط کے درمیان بھٹکنے میں زندگی گزار دیتا ہے۔ پھر بھی راستوں کا تعین نہیں کر پاتا۔
بقول چینی مفکر کے ''دنیا جس چیز کو زندگی کا تجربہ کہتی ہے اسی کے حصول میں ہماری ذات کے فطری پن کے ساتھ بڑی زیادتیاں ہوتی ہیں۔ ہم کچھ سے کچھ بن جاتے ہیں۔ ہم ذات پر سختی کا خول چڑھا لیتے ہیں۔ تصنع اور بناوٹ سے کام لیتے ہیں۔ سرد مہر اور سنگ دل بلکہ ظالم بننا سیکھتے ہیں۔ زندگی کا تجربہ تو حاصل ہو جاتا ہے مگر ہمارے اعصاب بے حس ہو چکے ہوتے ہیں۔ ان میں لچک اور زندگی کی لہر ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔ اور ہم سب کچھ اپنے قبضے میں کر لینے کی فکر میں رہتے ہیں۔ ہر جائز و ناجائز طریقے سے زندگی میں کامیابی حاصل کر کے دم لیتے ہیں'' یہ درحقیقت خواہش پرستی کا سراب ہے، جس نے دور جدید کے انسان کو نرغے میں لے لیا ہے۔ غفلت کا دائرہ ہے جس سے وہ باہر نکل نہیں پاتا۔
تبدیلی کے بہت سے راستے ہیں۔ زنداں کو توڑا جا سکتا ہے۔ اندھیرا لو بن جاتا ہے اور رکاوٹیں زینہ۔ زندگی وہی رہتی ہے مگر سوچ کا انداز بدلنا پڑتا ہے۔ پرانی اور تکلیف دہ سوچوں کو کھرچ کے نکالنا آسان نہیں ہے۔ یہ ذہن قید خانہ ہے۔ انسان کو دنیا کی کوئی چیز اتنی تکلیف نہیں دیتی، جتنا اس کا اپنا ذہن۔ بے یقینی کا جہنم ذہن سے بھڑک اٹھتا ہے۔ پھر رشتے جلنے لگتے ہیں، گھر جلتا ہے۔ پھر محلے، گلیاں، کوچے و شہر جلنے لگتے ہیں۔ آگ کہیں اور سے نہیں لگتی۔ یہ راکھ میں دبی چنگاری ذہن سے شعلہ بنتی ہے۔ لوگ سبب ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں۔ گفتگو، مکالمے اور تقریریں نمو پاتی ہیں۔ محبت برائے محبت کے دھارے بہہ نکلتے ہیں۔ مگر کسی کا خیال ذہن کی طرف نہیں جاتا۔ ذہن کا زندان مسکرا دیتا ہے۔ یہ اور مضبوط ہو جاتا ہے۔ راکھ میں دبی چنگاری سلگتی رہتی ہے۔
تبدیلی کے بہت سے راستے ہیں مگر کیوں ایک راستہ بھی سجھائی نہیں دیتا؟ شاید اس لیے کہ ہم اپنے اندر جھانک کے نہیں دیکھتے۔ ہماری تلاش خارجی دنیا کے نشیب و فراز میں الجھی رہتی ہے۔ بیرونی دنیا جو جھوٹ کا پرتو ہے، جھوٹ جو کامیابی کی علامت ہے اور کامیابی جو ایک عارضی پہلو ہے اس مختصر زندگی کا۔ یہ جھوٹ سیاست سے عوامی زندگی و انتظامی امور تک کامیابی کے جھنڈے گاڑے کھڑا ہے۔
مثبت مکتبہ فکر کی حامل مصنفہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ''چیزوں کی نوعیت بہت جلد یہاں بدل جاتی ہے۔ وہ ہیرے کی انگوٹھی جس پر میری ماں جان دیا کرتی تھی، بڑھاپے اور بیماری کے دنوں میں وہ اس کے لیے غیر اہم ہو کے رہ گئی تھی'' اس عارضی زندگی میں درحقیقت فقط یادوں کی پرچھائیاں رہ جاتی ہیں۔ پھر بھی انجان بنے رہنا انسان کا مقدر ٹھہرا۔ وہ انجان بنا رہتا ہے زندگی کے سچ اور حقیقتوں سے۔ وہ خسارے میں رہ کر بھی نقصان کا اندازہ نہیں کر پاتا۔ عروج بھی تو زوال کی طرف سفر کرتا ہے۔
ہم شاید خواہشوں کے ڈاکٹر فاسٹس ہیں۔ انگریزی کے ڈرامہ نگار مارلو نے شہرہ آفاق ڈرامے ڈاکٹر فاسٹس میں فطرت انسان کی صحیح عکاسی کی ہے۔ ڈاکٹر فاسٹس کو دولت، طاقت، عیش و عشرت اور اقتدار کا بھوکا ایسا شخص دکھایا گیا ہے جو بدی کے فرشتے سے معاہدہ کرتا ہے۔ مگر اس سے پہلے نیکی کا فرشتہ اس کے ضمیر کی آواز بن کر اسے منع کرتا ہے کہ وہ یہ برائی نہ کرے جو اس کے لیے جہنم کی آگ کا دروازہ کھول دے گی۔
معاہدے کے بدلے اسے پچیس سال کے لیے دنیا پر حکمرانی عطا کی جائے گی۔ معاہدے کی معینہ مدت پوری ہونے کے بعد اسے دائمی جہنم کی آگ میں جھلسنا پڑے گا۔ لہٰذا عیش و عشرت، جادو کی لازوال طاقت اور اقتدار کے اختتام پر جب وہ پہنچتا ہے تو گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ تب اسے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ پھر وہ وقت کے ٹھہرنے کی دعا کرتا ہے۔ مگر وقت کسی کے لیے نہیں رکتا۔ عمل برا ہے تو ردعمل اس سے بھی شدید ہوتا ہے۔ مکافات عمل کی ڈھیلی رسی اچانک جھٹکے سے تنگ ہو جاتی ہے۔
ہم سب خواہشوں کے ڈاکٹر فاسٹس ہیں شاید۔
ہم جس آزادی کی بات کر رہے ہیں وہ کہیں نہیں رہی۔ اب فقط نظریات کی غلامی باقی رہ گئی ہے۔ طبقاتی روایتوں کی زنجیریں ہیں۔ سکون و خوشحالی کے تعاقب میں اندھی طاقتیں مستقل دوڑ رہی ہیں۔ نفرت اور تعصب کی گہری کھائی ہے۔ جس میں انسانی قدریں گرتی جا رہی ہیں۔ ایک کہاوت ہے کہ اچھا جرنیل وہ ہے، جو اپنا مقصد حاصل کرتا ہے مگر تشدد کے بغیر حاصل کرتا ہے۔ کیونکہ جو چیز تیزی سے دوسروں پر چھا جاتی ہے، اس کے انحطاط کا وقت بھی دور نہیں ہوتا۔ دوسروں پر چھا جانا قانون فطرت کے خلاف ہے۔
فطرت کا اپنا ایک الگ اصول ہے۔ فطرت آزاد اور رواں دواں ہے۔ وہ راستہ دیتی اور رنگ بدلتی ہے۔ اس کی تبدیلی خوشگوار اور زندگی سے عبارت ہے۔ ذہن کے زندان کو توڑ دیا جائے اگر تو تبدیلی کے بہت سے راستے ہیں۔ ایک کھلا آسمان ہے اوپر اور روشنی کے لامتناہی سلسلے ہیں۔